سیف اللہ پراچہ: گوانتانامو بے کے سب سے بوڑھے قیدی کے لیے رہائی کی امید


16 سال کی قید کے بعد گوانتانامو بے پر واقع امریکی قید خانے میں زیر حراست سب سے معمر قیدی اور پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ کی رہائی کے امکانات اچانک سے بڑھ گئے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پراچہ کو القائدہ کی معاونت کرنے کے الزام میں حراست میں رکھا گیا تھا تاہم ان پر کبھی باضابطہ طور پر فردِ جرم عائد نہیں ہوا تھا۔

ان کی وکیل شیلبی سلی ون بینس کے مطابق پرزنر ریویو بورڈ نے حال ہی میں دو دیگر قیدیوں کے ہمراہ پراچہ کی رہائی کی منظوری دے دی تھی۔

روایتی طور پر ایسے موقعوں پر فیصلے کی کوئی تفصیل نہیں بتائی جاتی تاہم ان کی وکیل کے مطابق حکم میں کہا گیا تھا کہ پراچہ سے اب امریکہ کو ’آئندہ کوئی خطرہ نہیں۔‘

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر سیف اللہ پراچہ کے خاندان نے اس معاملے پر کسی قسم کا تبصرہ سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

‘دہشتگردی گھر کا معاملہ’

’کہیں القاعدہ کا ٹھپہ نہ لگ جائے‘

گوانتانامو بے میں قید پاکستانی

اگرچہ اس پیش رفت کا مطلب یہ نہیں کہ سیف اللہ پراچہ جلد رہا ہو جائیں گے تاہم ان کی وکیل کے مطابق انھی امید ہے کہ وہ اگلے کچھ ماہ کے اندر اپنے گھر واپس پہنچ جائیں گے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگلا قدم امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان پراچہ کی وطن واپسی کے حوالے سے مذاکرات ہوں گے۔

ان کی وکیل کے مطابق: ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حکام انھیں پاکستان واپس لانا چاہتے ہیں اور ہماری اطلکاعات کے مطابق ان کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘

امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون نے تاحال اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

گوانتانامو بے

سیف اللہ پراچہ کون ہیں؟

کراچی سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ بزنس مین سیف اللہ پراچہ کو سی آئی اے نے جولائی سنہ 2003 میں بنکاک سے حراست میں لیا تھا۔

اس سے قبل ان کے بیٹے عزیر پراچہ کو ایف بی آئی گرفتار کر چکی تھی۔ عزیر پراچہ کو سنہ دو ہزار پانچ میں سزا سنائی گئی اور وہ امریکہ کی ایک وفاقی جیل میں تیس سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے تاہم مارچ 2020 میں انھیں رہا کر کے پاکستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔

سیف اللہ پراچہ کو حراست میں لیے جانے کے بعد ستمبر سنہ 2004 تک افغانستان میں بگرام کے فضائی اڈے پر واقع حراستی مرکز میں قید رکھا گیا اور پھر گوانتانامو بے منتقل کر دیا گیا۔

ان پر نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکام نے گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں سیف اللہ سے ملاقات بھی کی تھی۔

سیف اللہ پراچہ نے 1970 میں نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلیم حاصل کی اور پھر 13 برس تک نیویارک میں ٹریول ایجنٹ کا کام کرتے رہے تھے۔

چار بچوں کے والد سیف اللہ پراچہ کو دو مرتبہ دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ اکتوبر سنہ 2006 میں امریکی فوج کے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھا کہ سیف اللہ کو اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاہم اب تک ان کا علاج نہیں ہوا ہے۔

سیف اللہ اور عزیر پراچہ

سیف اللہ (دائیں) اور عزیر پراچہ (فائل فوٹو)

سیف اللہ کو کس بنا پر گرفتار کیا گیا؟

اس معاملے میں ہونے والی تفتیش سے متعلق امریکی دستاویزات کے مطابق 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملے کے مرکزی منصوبہ ساز خالد شیخ محمد نے سیف اللہ پراچہ کو پانچ سے چھ لاکھ ڈالر کی رقم امانت کے طور پر دی تھی۔

سیف اللہ پراچہ نے خالد شیخ محمد کو بین الاقوامی جہاز رانی کے ذریعے ہونے والی تجارت میں اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر دھماکہ خیز مواد عورتوں اور بچوں کے کپڑوں میں چھپا کر امریکہ اسمگل کرنے میں اپنی خدمات کی پیشکش کی تھی۔

ایک اور قیدی عامر البلوچی نے گوانتانامو بے میں تفتیش کاروں کو بتایا کہ سیف اللہ پراچہ چاہتے تھے کہ القاعدہ امریکہ کے خلاف کوئی بڑی واردات کرے۔

ان فائلوں کے مطابق پراچہ جوہری اور کیمیائی ہتھیار حاصل کرنے کے بارے میں بات چیت کرتے رہے تھے۔ لیکن انھیں خدشہ تھا کہ تابکاری مواد کی امریکہ سمگلنگ امریکی بندرگاہوں پر موجود آلات کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔

پراچہ القاعدہ کے دیگر ارکان سے دہشت گردی کے جن منصوبوں پر بات چیت کرتے رہے ان میں امریکہ کے مغربی ساحل پر مسافر برادر طیاروں کے حملے، کسی رہائشی اپارٹمنٹ میں گیس بھر کر اسے اڑا دینے یا کسی گیس سٹیشن کو اڑانے یا نیویارک کے بروکلین بریج کے فولادی رسے کاٹنے کی وارداتیں شامل تھیں۔ لیکن ان میں کسی بھی منصوبے پر عمل نہیں کیا جا سکا۔

دسمبر 2008 میں القاعدہ کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ارکان سے تفتیش کی دستاویز سے لگتا تھا جیسے دہشت گردی ان کے گھر کا معاملہ ہو۔ اس گروہ کا سرغنہ محمد نامی شخص تھا جس کے بھتیجے بلوچی کی بیوی ایک اور شدت پسند کی بیٹی تھی۔ اس گروہ میں عافیہ صدیقی بھی تھیں اور پھر سیف اللہ پراچہ اور ان کا بیٹا عزیر تھے۔

گوانتانامو بے

اسامہ بن لادن سے تعلقات

گوانتانامو کی فائلوں کے مطابق سیف اللہ پراچہ نے القاعدہ کے ارکان کے بارے میں بڑی اہم معلومات فراہم کئیں لیکن اپنے بارے میں غلط اور جھوٹے بیانات دیتے رہے۔

پراچہ نے القاعدہ کے سرکردہ رہنما سے اپنے تعلقات کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ دسمبر سنہ 1999 اور جنوری سنہ دو ہزار میں افغانستان میں اسامہ بن لادن سے ملے تھے۔

انھوں نے اسامہ کو پاکستان میں اپنے نشریاتی بزنس پر القاعدہ کے پروپیگنڈا کرنے کی پیش کش کی۔

لیکن 11 ستمبر کے بعد ان کی توجہ دہشت گردی کے نئے منصوبوں پر مرکوز ہو گئی اور گرفتاری کے وقت ان کی ڈیجیٹل ڈائری میں کیمیائی جنگ اور ان کے انسانوں پر اثرات کے بارے میں معلومات درج تھیں۔

ان دستاویزات میں کہا گیا کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp