وفا شعار بیوی اور وضعدار سیاستدان بیگم نسیم ولی


بیگم نسیم ولی خان کے انتقال کی خبر آئی تو میری یادوں کے انبار میں سے ایک واقعہ ذہن میں فوراََ اُبھرکر گردش کرنے لگا۔ اس واقعہ کی بدولت یہ خیال بھی ستانے لگا کہ میں ’’سیاست‘‘ کی جس نوع کے بارے میںرپورٹنگ اور تبصرہ آرائی کا عادی رہا ہوں اس کے دن تمام ہوئے۔ ’’سیاست دانوں‘‘ کی جو قسم اس صدی کے آغاز سے ٹی وی سکرینوں پر چھائی ہوئی ہے اسے سنجیدگی سے لینا تقریباََ ناممکن ہے۔ میری وضع کے صحافیوں کے لئے تو شاید ان سے روایتی سلام دُعا کا تعلق استوار کرنا بھی بہت دشوار ہے۔

 1990 کے انتخاب ہوئے تو ولی خان اپنے آبائی چارسدہ سے قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔ ان کے اتحادی نواز شریف تاہم وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ان دنوں صوبہ سرحد کہلاتے خیبرپختونخواہ میں صوبائی حکومت کا قیام بھی ان دونوں رہ نمائوں کے مابین اشتراک کی بدولت ممکن ہوا۔اس ’’کامیابی‘‘ کے باوجود ولی خان صاحب نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا۔اپنی شکست کی بابت انہوں نے ’’دھاندلی‘‘ کی دہائی نہیں مچائی۔ بضد رہے کہ چارسدہ سے قومی اسمبلی کا انتخاب ہارنے کے بعد انہیں اپنی جماعت کی رہ نمائی کا حق باقی نہیں رہا۔ ولی خان کی سیاست سے دست برادری نے عوامی نیشنل پارٹی کی فیصلہ سازی کے حوالے سے بیگم نسیم ولی خان کو انتہائی بااختیار بنادیا۔ان کے بھائی اعظم خان ہوتی مرکزی حکومت میں اہم ترین وزیر بھی تعینات ہوئے۔ وہ نوازشریف کے قریب ترین وزراء میں بھی شمار ہوتے تھے۔

حقیقت خواہ کچھ بھی رہی ہو۔ میں سنجیدگی سے یہ محسوس کرتا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو سازشوں کے ذریعے صدر غلام اسحاق خان سے برطرف کروایا گیا۔اس کے بعد جو انتخاب ہوئے اس میں ’’جھرلو‘‘ کا کردار بھی کئی حلقوں میں نمایاں نظر آیا۔اس سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نواز شریف کی پہلی حکومت اور اس میںشامل اتحادی جماعتوں کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی اکثر اس حوالے سے میرے پھکڑپن کی زد میں آتی۔ جگت فروشی کی رو میں اے این پی کو ایک دن میں نے اپنے انگریزی کالم میں ’’اعظم نسیم پارٹی‘‘ پکارا۔ میرے طنزمیں یہ پیغام چھپا تھا کہ باچا خان کی وارث جماعت اب ’’نظریاتی‘ ‘نہیں رہی۔لاہور سے ابھرے صنعت کار کی ساتھی بن کر جائز اور ناجائز انداز میںاقتدار کے فوائد سمیٹنے کو ترجیح دے رہی ہے۔

یہ کالم چھپنے کے چند روز بعد مجھے پشاور جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے سفر کی وجہ کچھ اور تھی۔اس شہر پہنچ کر مگر بشیر بلور مرحوم کو فون کرنا لازمی تھا۔ انہیں فون کیا تو انتہائی گرم جوشی سے انہوں نے اصرار کیا کہ میں دوپہر کا کھانا ان کے ہاں کھائوں۔ اس کھانے میں بیگم نسیم ولی خان بھی تشریف لارہی ہیں۔

بلور ہائوس جاتے ہوئے مجھے ’’اعظم نسیم پارٹی‘‘ والا فقرہ یاد ہی نہیں تھا۔ میں وہاں پہنچا تو بیگم صاحبہ نے انتہائی شفقت سے خیرمقدم کیا۔مجھے اپنے دائیں ہاتھ رکھی کرسی پربٹھایا۔ میرے بیٹھنے کے بعد انہوں نے طعنہ زن ہونے کے بجائے مسکراتے ہوئے بشیر بلور سے پشتو میں پوچھا کہ تمہیں پتہ ہے کہ اس نے ہماری پارٹی کو کیا نام دے رکھا ہے؟۔ بلور صاحب بخوبی آگاہ تھے مگر لاعلمی کا تاثر دیا۔انہیں آگاہ کرنے کو بیگم نسیم ولی خان نے ازخود مزے لیتے ہوئے ’’اعظم نسیم پارٹی‘‘ کے الفاظ دہرائے اور قہقہے لگانا شروع ہوگئیں۔میں شرمندہ ہوگیا۔ خلوص سے درخواست کی کہ اگر میرے فقرے نے انہیں واقعتا دُکھ پہنچایا ہے تو معافی کا طلب گار ہوں۔ وہ یک دم سنجیدہ ہوگئیں۔مادرانہ سختی سے یاد دلایا کہ صحافی کا کام لکھنا ہے۔ اپنے ذہن میں آئی بات کواخبار میں لکھتے ہوئے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ’’(اصل) سیاست دان اپنے شدید ترین نقادوں سے بلکہ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔‘‘ یہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ’’نوائے وقت‘‘ باچان خان کا شدید ترین نقاد رہا ہے۔ وہ مگر اس اخبار کو سب سے زیادہ غور سے پڑھا کرتے تھے۔ بسااوقات اس کے اداریوں میں لکھے چند فقروں کو اپنے ہاتھ سے خط کشیدہ کے استعمال سے نمایاں کرتے اور ولی خان صاحب کو بھی اسے غور سے پڑھنے کے لئے بھجوادیتے۔

ان دنوں کسی سیاست دان کے بارے میں محتاط ترین انداز میں بھی چند فقرے لکھ دو تو صحافی ’’لفافہ‘‘ شمار ہوجاتا ہے یا حکومت اور ’’مقتدر اداروں‘‘ کا ایجنٹ۔برداشت مگر نسیم ولی خان جیسے سیاست دانوں کی جبلت میں شامل تھی۔ ایمان داری سے اعتراف یہ بھی کرنا ہوگا کہ ’’صحافی ‘‘ بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ اب وہ ’’سٹار‘‘ ہیں یا ’’ذہن ساز‘‘۔

ولی خان صاحب کے گھرانے سے میرا تین نسلوں کا تعلق ہے۔ میرے والد مرحوم پنجاب کے ان معدودے چند افراد میں شامل تھے جو ہمیشہ مصر رہے کہ شیخ مجیب یا ولی خان جیسے لوگوں کو یکدم ’’غدار‘‘ پکارنے کے بجائے ان کے شکوے کھلے دل سے کم از کم سننا ضرور چاہیے۔اس سوچ کی وجہ سے وہ میاں محمود علی قصوری کے دوستوں میں بھی شامل تھے۔ ابھی میں سکول کا طالب علم تھا تو ایک بارقصوری صاحب کے گھر ولی خان صاحب سے ملا تھا۔پدرانہ شفقت سے انہوں نے میرے کندھے کو گرم جوش تھپکی دی تھی۔

1970 کے انتخاب ہوئے تو مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔ بقیہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں ولی خان قائد حزب اختلاف ہوئے۔ قوم کو متفقہ آئین فراہم کرنے میں ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی سے بے تحاشہ اختلافات کے باوجود کلیدی کردار ادا کیا ۔ آئین کے منظور ہوجانے کے چند ہی دن بعد مگر ولی خان اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی ’’غدار‘‘ ہونا شروع ہوگئے۔اس کے اہم ترین رہ نمائوں کے خلاف ’’حیدر آباد ٹربیونل‘‘ کے نام سے ایک مقدمہ قائم ہوا۔ وہ جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء تک جیل میں بند رہے۔ سپریم کورٹ نے تقریباََ سرسری سماعت کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کو ’’کالعدم‘‘ بھی قرار دے دیا۔ اس سے وابستہ کئی کارکن ’’تخریب کاری‘‘ کے الزامات کے تحت عقوبت خانوں کی اذیتیں برداشت کرتے رہے۔

کامل خوف کے اس عالم میں سردار شیرباز مزاری جو 1970 کے انتخاب میں کسی جماعت کی معاونت کے بغیر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اپنی ’’آزاد‘‘ شناخت ترک کرتے ہوئے سیاست میں متحرک ہوگئے۔ نیشنل عوامی پارٹی کو نیاجنم دینے کے لئے انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے قیام کا فیصلہ کیا۔ بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہوگا کہ مذکورہ جماعت کا تاسیسی اجلاس آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کے زیر ملکیت ایک سینما ہائوس میں ہوا تھا۔ حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پرقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کی اپنائی پالیسیوں نے مگر انہیں بغاوت کو مجبور کردیا۔

شیر بازمزاری کی بنائی جماعت کی اصل ’’سٹار‘‘ تاہم بیگم نسیم ولی خان ثابت ہوئیں۔ جلسوں میں ان کی تقاریر بھٹو حکومت کے خلاف نفرت بھڑکاتیں۔ وہاں موجود ہجوم بضد رہتا کہ بیگم نسیم ولی خان اپنی تقریر جاری رکھیں۔ ان کی تقریر ختم ہوجاتی تو لوگ جلسے سے باہر جانا شروع ہوجاتے۔پشتون ثقافت کے تناظر میں ایک گھریلو خاتون کا اپنے خاوند کی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے جلسے جلوسوں کی قیادت کرنا اپنے تئیں ایک روایت شکن واقعہ تھا۔ اس کی وجہ سے بیگم نسیم ولی خان بھی اکثر ویسی ہی بدزبانی کا نشانہ رہیں جو سیاست میں آئی خواتین کے لئے ہمارا قدامت پرست معاشرہ استعمال کرنے کا عادی ہے۔

جلسوں میں حکومت وقت کو للکارتی بیگم نسیم ولی خان کی اپنے شوہر سے محبت مگر بے پناہ تھی۔1978کے ستمبر میں این ڈی پی کا ایک اہم ترین کنونشن پشاور میں منعقد ہوا۔ میں ایک اردو ہفت روزہ کے لئے اس کی رپورٹنگ پر مامور ہوا۔ کنونشن ختم ہواتو ولی خان صاحب سے اسلام آباد لوٹنے کی اجازت طلب کی۔نہایت درشتی سے انہوں نے مجھے خبردار کیا کہ اگر میں ان کے چاسدہ والے گھر میں دوپہر کا کھانا کھائے بغیر واپس چلا گیا تو آئندہ اٹک کے اس پار آنے کی جرأت نہ کروں۔ میں تعمیل کو مجبور تھا۔

ولی باغ میں دو گھنٹوں تک میں نے ان کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ان دو گھنٹوں میں اپنی سیاسی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جانا جن کا کتابوں کا باقاعدہ قاری ہونے کے باوجود مجھے گماں بھی نہیں تھا۔بیگم نسیم ولی خان اس انٹرویو کے دوران کئی بار اس کمرے میں آئی جہاں ہم دونوں گفتگو کررہے تھے۔ اپنے تئیں ایک نامو راور قدآور سیاست دان مشہور ہونے کے باوجود بیگم صاحبہ نے ہماری گفتگو کی ’’تصحیح‘‘ یا کسی ’’وضاحت‘‘ کی خاطرایک فقرہ بھی نہیں کہا۔ نہایت عقیدت سے اپنے شوہر کی گفتگو سنتی رہیں اور اکثر دیوار پر لگی گھڑی پر نگاہ بھی مرکوز رکھی۔ کلاک کی سوئی نے دوپہر کے کھانے کا وقت دکھایا تو خاموشی سے اُٹھ کر کھانا پروسنے چلی گئیں۔ نظم کی عادی گھرکی مالکن کی طرح بالآخر اعلان کیا کہ ’’بہت باتیں ہوگئیں۔اب کھانے کا وقت ہے‘‘۔

ولی خان صاحب کھانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ مجھے افغانستان کی تاریخ سمجھانے پر توجہ مرکوز رکھی۔بیگم صاحبہ کو یہ گوارہ نہیں تھا۔ اپنے ہاتھ سے نوالے بناکر ولی خان صاحب کے منہ میں ڈالتی رہیں۔ایک بار انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ میں ان سے حالاتِ حاضرہ کے بارے میں انٹرویو کرنے آیا ہوں۔ افغانستان پر کتاب لکھنے کے لئے مواد جمع نہیں کررہا۔ اس سمے وہ صرف اور صرف ولی خان کی وفا شعار بیوی تھیں۔ قدآور سیاست دان نہیں۔

کھانا ختم ہونے کے بعد قہوہ کا دور چلا۔ ولی خان صاحب کی خواہش تھی کہ گرم قہوے کا ایک اور دور چلے۔بیگم ولی خان نے مگر انہیں آگاہ کیا کہ ہرگز نہیں۔ یہ خان صاحب کے قیلولے کا وقت ہے۔ ولی خان صاحب نے بے بس مسکراہٹ سے میری جانب دیکھا اور میں ان کا گھٹنا چھوکر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ میاں بیوی کے مابین گہری رفاقت کے ایسے مناظر میں نے شاذ ہی دیکھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments