پاکستان کے پاس معاشی آپشن


اکیسویں صدی میں جہاں پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر نے تباہی مچائی ہوئی ہے وہاں ملکی معیشت بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔

اس تناظر میں وزیراعظم اپنے وزرا کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتیں اس دورے کو دورہ کشکول قرار دے رہی ہیں۔ اس دورے کے فوراً بعد اسرائیل فلسطین کش دے گی نے جنم لیا۔ تشدد کی یہ لہر مسجد اقصی میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی جانب سے عبادت کے دورن تشدد کا نشان بنایا گیا۔ اس واقعہ کے بعد حماس کی طرف سے اسرائیل کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے پانچ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی۔ جواب میں اسرائیل فوج نے جوابی بمباری کی اور اس بمباری سے درجنوں فلسطینوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔

عالمی برادری کی جانب سے دونوں فریقین سے جنگ بندی کی اپیل کی جا رہی ہے۔ ان واقعات کے مناظر سوشل میڈیا پر ویڈیو کی صورت میں گردش کر رہے ہیں جس میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیل پولیس پر پتھراو سے احتجاج کیا جا رہا ہے تو کہیں اسرائیل فوج کی جانب سے فضائی بمباری کے ذریعے طویل قدامت عمارتوں کو زمین بوس کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کو متحدہ عرب امارت کی جانب سے ایک ریاست تسلیم ہونے کے بعد اور سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو فضائی اجازت کے بعد پاکستان کے لیے سفارتی دشواری پیش ہیں۔

کیونکہ دنیا دھندے کا نام ہے اور اسرائیل ایک معاشی اور فوجی طاقت ہے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل بڑی طاقت بن کے ابھرے۔ ویسے بھی اسرائیل ایران کے لیے متنازع رہا ہے، عرب دنیا کے لیے اسرائیل ایک حقیقت ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو عوامی جذبات کی بجائے حقیقت پر مبنی سفارتی تعلقات کو دیکھنا ہو گا۔ اگر ہم سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی افراد پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کی تقریباً ستائیس لاکھ سے زائد افراد سعودی عرب میں بسلسلہ روز گار مقیم ہیں۔

یہ افراد نہ صرف اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں بلکہ پاکستانی معیشت کے لیے سہارا بھی ہیں۔ پاک سعودیہ یہ رشتہ مذہبی ہونے کے ساتھ معاشی بھی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی حکمران طبقہ سعودی عرب کے دورے سے مختلف فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان چین اقتصادی سی پیک منصوبہ میں سادی سرمایہ کاری۔ مگر اس خطے میں موجود ایران کو جو سعودی عرب کا بڑا حریف سمجھا جاتا ہے سی پیک منصوبہ سے محروم نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ یورپ اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک زمینی رسائی ایران کے بغیر ممکن نہیں۔

یہ ایک عالمی منظر نامہ ہے، دیکھے حقیقت کیا ہے۔ اسی کی دہائی میں روس افغانستان کے راستے گرم پانی کا متلاشی رہا جو امریکہ کے جہادیوں کے ہاتھوں ماسکو تک محدود ہو کر رہ گیا۔ وقت کے ساتھ حالات تبدیل ہو گئے۔ پاکستان اور روس کے تعلقات اسی کی دہائی جیسے نہیں رہے۔ روس بھی پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے اپنے مفادات ہیں۔ حال ہی میں یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی، مذہبی عدم رواداری اور توہین رسالت کے قوانین کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف سفارشی قرارداد منظور کی۔

جس سے پاکستان کی یورپ میں برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہ قرارداد پاکستان کے ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستانی حکام بالا اس سلسلہ میں برسلز کے نمائندوں سے رابطے میں ہیں تاکہ مسئلہ کے حل کی طرف بڑھا جا سکے۔ یاد رہے پاکستان کو جی پی ایس کی سہولت 2022 تک ہے اور یورپ 2022 میں جی پی ایس سٹیٹس برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان 13 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے جس میں چھ ارب ڈالر یورپ کا حصہ ہے، اگر یہ چھ ارب ڈالر کم ہو جاتا ہے تو ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنا کر ان مسائل سے نمٹ سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments