سید محمد عبداللہ شاہ المعروف بابا بلھے شاہ ؒ


وقت کی یہ کیسی پراسرارتبدیلی ہے۔ وہ شخص جسے انتقال کے بعد ملاؤں نے اس کے انقلابی فکر و عمل کے باعث اپنے قبرستان میں دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آج وہ دنیا میں عقیدت اور روحانیت کی پہچان ہے۔ قصور اور اس کے آس پاس کے علاقے میں بلھے شاہ کا مزار ایک ایسی واحد جگہ ہے جس میں شہرکا مراعات یافتہ اشرافی طبقہ اس شخص کی قربت میں دفن ہونا باعث فخر سمجھتا ہے، جس کو انہوں نے کفر کے فتوے عائد کر کے برادری سے باہر کر دیا تھا۔

یہ تبدیلی اس وجہ سے ممکن ہوئی ہے کہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ بلھے شاہ کی سچی زندگی اور اس کی تعلیمات کی افادیت سے متاثر ہوئے۔ بابا بلھے شاہ پنجاب کے ایک بہت بڑے صوفی شاعر تھے۔ اپنی پاک زندگی اور اعلی روحانی کامیابی کے سبب وہ تمام طبقات میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ بہت سے اسکالرز اور درویشوں نے انھیں دونوں جہانوں کے شیخ اور روحانی فضل کو جاننے والا اور پنجاب کا سب سے بڑا صوفی شاعر مانا ہے۔ ان کی تصانیف کو پنجابی صوفی ادب کی عظمت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مداح ان کی تحریروں اور فلسفے کو رومی اور شمس تبریز کے تقابل سے موازنہ کرتے ہیں۔

سید محمد عبداللہ شاہ عرف بابابلھے شاہؒ 1680 ء میں بہاولپور کے ایک گاؤں اچ شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کے اباؤاجداد بخارہ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام سیدسخی محمد تھا، جو ایک درویش منش انسان تھے۔ فکر معاش میں آپ کی پیدائش کے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کے والد اچ شریف سے سائیوال کے قریبی گاؤں ملکوال میں جا بسے۔ کچھ عرصہ بعد قصور کے ایک نزدیکی گاؤں پانڈوکے بھٹیاں کا ایک آدمی کسی کام سے ملکوال آیا۔

آپ کے والد محترم سے ملاقات میں ان کی درویشی اور علم و دانش کو دیکھ کر انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے گیا۔ یہا ں آپ کے والد محترم نے گاؤں کی مسجد کی امامت سنبھال لی اور مسجد میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے گاؤں کے نوخیز بچوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھا لیا۔ بلھے شاہؒ کا بچپن پانڈوکے میں اپنے والد کی دیکھ بھال میں گزرا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ یوں پانڈوکے کی مسجد آپ کی پہلی درسگاہ بنی۔

بلھے شاہ کے والد عربی، فارسی اور قرآن مجید کی تفسیر پر عبور رکھتے تھے۔ وہ روحانیت کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک نیک اور پارساء بزرگ تھے۔ ان کو ان کی اعلی اخلاقی اقدار و کردار کی وجہ سے احتراماً درویش کے لقب سے نوازہ گیا۔ کچھ بلوغت ہوئی تو والد محترم نے آپ کو اعلی تعلیم کے لئے قصور میں حافظ غلام مرتضی کے مدرسے میں داخل کرا دیا، جہاں مولانا محی الدین جیسے نامور استاد بھی موجود تھے۔ یہ مدرسہ اس زمانے میں حافظ غلام مرتضی کی علمی فضیلت اور اچھے درس و تدریس کی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔

اس مدرسے سے آپ نے علوم فقہ، حدیث، تفسیر، منطق اور معانی میں عبور حاصل کیا۔ اپنی ذہانت اور خاندانی اخلاقی اقدار کی وجہ سے آپ نے اپنے اساتذہ کی علمیت سے بھرپور استفادہ کیا۔ ایسے بہت سے مضبوط تاریخی شواہد موجود ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلھے شاہ عربی اور فارسی کے نامور عالم تھے۔ ان کے کلام سے بھی ہمیں اسلامی فکر اور صوفیانہ رواداری کے بہت سارے حوالے ملتے ہیں۔ انہوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے اساتذہ کے کہنے پر اسی مدرسہ میں پڑھانا شروع کیا اور یہ مستند بات ہے کہ تکمیل تعلیم کے بعد بابابلھے شاہ نے اسی درسگاہ میں کچھ عرصہ تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔ اسی درسگاہ سے سید وارث شاہ نے بھی اپنی تعلیم مکمل کی، اس طرح ان دونوں صوفیا کو حافظ غلام مرتضی جیسے جید عالم دین کی شاگردگی کا شرف حاصل ہوا۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ اپنی چھت پر یادالہی میں مصروف تھے۔ تسبیح ہاتھ میں تھی، آپ تھوڑی تھوڑی دیر میں اسم الہی کا ورد کرتے، پھر کچھ سوچ میں پڑھ جاتے۔ اندر کے اٹھتے ہوئے بہت سے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں دل بہت اضطراب میں تھا۔ تسبیح پڑھتے ہوئے ان کی نظر سامنے کھیت کی پگڈنڈی پر پڑی، جہاں ایک گوالن سر پر دودھ کی گاگر رکھے خراماں خراماں انہی کے گھر کی طرف آ رہی تھی۔ وہ پنجاب کی ایک خوبرو مٹیار تھی، جس کا اظہار اس کے انگ انگ سے ہو رہا تھا۔

نوجوان بلھے شاہ کو اس کے خوبرو حسن سے کچھ غرض نہیں تھی کیونکہ وہ تو اپنی ہی سوچوں میں مگن تھا۔ گوالن نے آپ کے گھر کے نزدیک آ کر ادھر ادھر دیکھا، گھر کی دیوار کے ساتھ اس کا محبوب اس سے وصل کے انتظار میں کھڑا تھا۔ گوالن چلتی ہوئی مکان کے نزدیک آئی تو اسے دیوار کی اوٹ میں اپنا محبوب کھڑا نظر آیا۔ ً تجھے کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں پر کھڑا ہوں ًگوالن کے محبوب نے پوچھا۔ گوالن نے جواب دیا کہ محبوب کی موجودگی دل سے محسوس ہوجاتی ہے۔ اس لئے میں یہاں آئی تم سے ملنے۔ آپ کو چھت پر ان کی یہ گفتگو صاف سنائی دے رہی تھی۔ دونوں راز و نیاز میں مصروف تھے۔ گوالے نے کہا ً اچھا، باقی باتیں چھوڑو، پیاس لگ رہی ہے مجھے دودھ پلاؤ۔ ً ً کتنا دودھ پیو گے ً۔ گوالن نے اپنے محبوب سے پوچھا۔ محبوب کو یہ بات سن کر بہت اچنبھا ہوا اور اس نے جواب دیا۔ ً نالے یاریاں، نالے من من ً یعنی دوستی کا دعوی بھی اور ناپ تول کا خیال بھی۔ اس فقرے کا گوالن پر کیا اثر ہوا یہ تو پتہ نہیں، لیکن اس فقرے میں پنہاں سچائی نے بلھے شاہ کے اندر ایک انقلاب بھرپا کر دیا۔

پہلے تو انھیں اس جواب پر حیرت ہوئی پھر وہ حقیت پا کر اچھل پڑے اور آہستہ آہستہ اس جواب کو دہرانے لگے۔ ً واہ واہ۔ نالے یاریاں، نالے من من کے۔ آپ نے تسبیح پھینک دی اور گھر بار چھوڑ کرباہرنکل آئے۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ سید سخی محمد شاہ کا لخت جگر سرور آگہی میں جھومتے ہوئے گلیوں بازاروں میں اپنے جذب و مستی کی دنیا میں رقص کرنے لگا اور دنیا راہ عشق کے اس نوارد کا تماشا دیکھ رہی تھی۔

اسی جذب و مستی میں پھرتے پھراتے ایک دفعہ وہ گورداسپور کے نواحی قصبے بٹالہ میں جا پہنچے۔ کسی نے تعارف پوچھا تو فرمایا۔ میں اللہ ہوں۔ لوگوں نے یہ سن کران کو برا بھلا کہا اور انھیں پکڑ کر دربار فاضلیہ بٹالہ کے اس وقت کے گدی نشین شیخ فاضل الدین ؒ کے پاس لے گئے۔ وہ کشف والے بزرگ تھے، آپ کو پہچان کر کہا کہ اس نوجوان نے صحیح فرمایا ہے۔ یہ ٹھیک کہتا ہے یہ ً الھا ً یعنی کچا اور الھڑ ہے، اسے کہو کہ یہ عنایت قادری کے پاس جا کر پک جائے۔

شاہ عنایت قادری قصور کے رہنے والے ارائیں برادری کے ایک درویش اور اللہ والے بزرگ تھے۔ قصور کے ایک پٹھان گورنر حاکم حسین خان کے تنگ کرنے پر قصور چھوڑ کر لاہور میں آباد ہو گئے تھے۔ یہاں وہ اپنا جدی پشتی کام یعنی سبزیاں اگانے کا کام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ عنایت سے رابطہ سے پہلے ہی بلھے شاہ نے بہت سی روحانی مشقیں کر کے کچھ معجزاتی قوتیں حاصل کر لیں تھیں۔ جب بلھے شاہ ان کی تلاش میں ان کے کھیت کے قریب پہنچے، جہاں سڑک کے دونوں طرف پھلوں سے لدھے آم کے درخت لگے تھے۔

شاہ عنایت خود ایک چھوٹے سے کھیت میں پیاز کے بیج لگانے میں مصروف تھے۔ بلھے شاہ نے ان کی روحانی طاقت کی آزمائش کے لئے اللہ کا نام لے کر درختوں کی طرف دیکھا تو درختوں سے کچے آم گرنے لگے۔ شاہ عنایت نے مڑ کر دیکھا کہ بغیر کسی وجہ کے درختوں سے کچے پھل گر رہے ہیں تو انھیں فوراً ہی اندازہ ہو گیا، یہ اس نوجوان کی روحانی شرارت ہے۔ شاہ عنایت نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا کہ اے نوجوان تم نے درختوں سے کچے پھل کیوں گرائے۔

بلھے شاہ ان سے بات کرنے کا موقع ہی ڈھونڈرہے تھے، فوراً جواب دیا کہ میں نہ تو درختوں پر چڑھا اور نہ ہی میں نے ان پر پتھر پھینکے، پھر میں کیسے درختوں سے پھل گرا سکتا ہوں۔ شاہ عنایت نے بلھے شاہ پر ایک گہری نظر ڈالی اور کہا کہ تم صرف چور ہی نہیں ہوشیار بھی ہو رہے ہو۔ شاہ عنایت کی نظربہت گہری اور تیز تھی جس نے بلھے شاہ کے دل کو چھو لیا اور وہ فوراً ہی ان کے قدموں میں گر گئے۔ شاہ عنایت نے ان سے ان کا نام اورآنے کی مقصد پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میرا نام عبداللہ ہے اور میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میں خدا کو کیسے پہچان سکتا ہوں۔ شاہ عنایت نے انھیں اٹھایا اور کہا کہ میری طرف دیکھو۔ جیسے ہی بلھے شاہ نے سر اٹھایا آپ نے ان پر ایک پیار کی بھرپور نظر ڈالی اور کہا بلھے خدا کو ڈھونڈنے میں کوئی دیر نہیں لگتی، صرف یہاں سے اکھاڑ کر وہاں لگانے کی ضرورت ہے۔ بلھے شاہ کے لئے یہی کافی تھا، انھیں اپنی خواہش کی چیز مل گئی تھی۔

ایک دوسری روایت ہے کہ بلھے شاہ جب شاہ عنایت سے ملنے کے لئے ان کے پاس پہنچے تو وہ ایک کھیت میں پیاز لگا رہے تھے۔ بلھے شاہ کو دیکھ کر وہ کھیت کے کنارے لگے درخت کے نیچے آئے اور بلھے شاہ سے آنے کی غرض و غایت پوچھی۔ بلھے شاہ نے اپنا نام اور تعارف بتایا اورکہا کہ میں رب کو پاناچاہتا ہوں۔ شاہ عنایت نے ایک گہری نظر سے ان کو دیکھا اور فرمایا، یہ تو بہت ہی آسان ہے۔ فرمایا۔ ً بلھیا رب دا کی پاؤنا۔ ایدھروں پٹنا تے اودھر لاؤنا ً۔

دانا کہتے ہیں کہ شاہ عنایت کا یہ جملہ ان کی تمام روحانی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ ادھر سے اکھیڑ کر دوسری طرف لگانے کا نام ہی رب کو پانا ہے۔ اس کو سادہ الفاظ میں آپ اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔ بلھیا۔ رب کو پانے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے من کو باہر سے نکال کر اندر کی طرف لگاؤ یعنی دل میں سے دنیا اور نفسانی خواہشات کو نکال کر اس میں اپنے رب کو بسا لو۔ وہ کام کرو جو رب کو پسند ہیں تو رب اپنے آپ تمہیں مل جائے گا۔ مرشد کی اس بات نے آپ کے دل پر گہرا اثر کیا اور آپ فوراً ان کے مرید ہو گئے۔

سید افضل حیدر نے پنجابی صوفی شعرا پر لکھی اپنی کتاب ً فرید، نانک، بلھا، وارث ً میں بابا بلھے شاہ کے متعلق ایک واقعہ تحریر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ان دنوں قصور پر پٹھانوں کی حکومت تھی۔ بابا بلھے شاہ کی درویشی اور مردانہ وجاہت کی شہرت حکمرانوں کے محل تک جا پہنچی۔ حکمران نواب کی ہمشیرہ اور بیگم بلھے شاہ کے پاس حاضر ہوئیں۔ نواب صاحب کی ہمشیرہ درویش کی مردانہ وجاہت پر پہلی نظر میں ہی فریفتہ ہو گئیں۔ نواب کی بیگم نے یہ صورت حال دیکھ کر واپسی کا ارادہ کیا لیکن ہمشیرہ نے روک لیا اور عالم وارفتگی میں بلھے شاہ کے سامنے آ گئیں۔

بلھے شاہ کی چشم بینا نے خاتون کی کیفیت کو پہچان کر اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔ وہ پھر تڑپ کر پھر آپ کے سامنے آ گئی۔ درویش نے جھکی نگاہوں سے عرض کیا کہ خاتون میرے مسلک میں کوئی بھی داغ لاعلاج ہے لیکن اگر آپ مجھ سے کوئی رشتہ استوار کرنا چاہتی ہیں تومیرے پاس اس کا ایک علاج ہے۔ خاتون نے درویش کے سامنے سرنگوں کھڑے ہو کرکہا کہ اسے درویش کاعطا کیا ہوا ہر رشتہ منظور ہے۔

درویش نے کہا کہ ماں بیٹے والا رشتہ کیسا رہے گا۔ خاتون نے تڑپ کر درویش کی طرف دیکھا، لمحہ بھر آنکھیں بند کر کے سوچا اور پھر ایک پل میں فیصلہ کر کے کہا۔ مجھے یہ رشتہ منظور ہے اور آگے بڑھ کر درویش کے سر پر ممتا بھرادست شفقت رکھ دیا۔ ان کے ہاتھ میں لرزش تھی لیکن یہ لرزش ماں کے پاکیزہ جذبات کا اظہار تھا۔ انہوں نے نذر پیش کی تو بلھے شاہ نے کہا کہ بیٹے ماؤں سے لیا نہیں کرتے ان کو دیا کرتے ہیں۔ منہ بولی ما ں نے بہت اصرار کیا لیکن بلھے شاہ نے بڑے احترام سے ان سے معذرت کر لی۔

انہوں نے بیٹے کو اپنے پاس محل میں منتقل ہونے کو کہا توبلھے شاہ نے ان کے ساتھ محل میں رہنے سے معذرت کی۔ پھر ماں نے ان کے لئے محل کے ساتھ ایک علیحدہ عالیشان مکان تعمیر کرایا تا کہ ماں بیٹے سے ملنے بلا روک ٹوک آ سکے۔ اس مکان میں جانے کے باوجود بلھے شاہ کے تصرف میں اس مکان کا صرف ایک چھوٹا سا حجرہ ہی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ مزار کے لئے زمین بھی انہیں نواب نے فراہم کی تھی۔

بلھے شاہ کی تحریریں میں انسانیت پسندی کی جھلک نظرآتی ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کے معاشرتی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ وہ اس ہنگامے کو بھی بیان کرتا ہے جو اس کے مادر وطن پنجاب میں برپا ہے، اس کے ساتھ وہ خدا کی تلاش میں بھی ہے۔ ان کی شاعری تصوف کے چار مراحل یعنی شریعت (راہ) ، طریقت ( پیروی ) ، حقیقت ( حق) اور معرفت (الہام) کے ذریعے ان کی صوفیانہ روحانی سفر کو اجاگر کرتی ہے۔ بلھے شاہ جس سادگی سے زندگی اور انسانیت کے پیچیدہ بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں وہ ان کی کامیابی کا بڑا حصہ ہے۔

وہ انسانیت کی ان پریشانیوں کی عکاسی کرتا ہے جو اس وقت کے مسلمانوں کو درپیش تھیں، ان کا ذات پات کے نظام کو مسترد کرنا االلہ تعالی کے نظام کے عین مطابق ہے۔ بلھے شاہ یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ کس طرح علم کو مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف درجوں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ انھیں زوال پذیر بناتا ہے اور ان کا موازنہ شیطان سے کرتا ہے جو خدا کا سب سے عالم فاضل فرشتہ تھا لیکن اللہ کی مرضی کے خلاف تھا۔ بلھے شاہ کے لئے حقیقی علم تاریخ اور حقیقی زندگی کے تجربات سے آتا ہے۔ انہوں نے تاریخ کے دائرے سے ہی دنیا کی تفہیم حاصل کی ہے، جہاں انتشار کی وجہ سے ریاستوں کے معاملات میں چھپی ہوئی برہنگی حقائق کو ظاہر کیا گیا ہے۔

بلھے شاہ جیسے صوفیائی خیالات کے لوگوں کی نظر میں رب تک پہنچنے کا دوسرا رستہ طریقت ہے۔ طریقت میں آ کے پھر یہ صوفیاء مسجد کی طرف دھیان دینے اور ظاہری عبادت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ اسی لئے بابا بلھے شاہ بھی طریقت کے رستے پر چلتے ہوئے کہتے ہیں۔

پھوک مصلی بھن سٹ لوٹا ٭ نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا ٭ عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں کھا مردار ٭ عشق دی نویوں نویں بہار۔
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا ٭ مسجد کولوں جیوڑا ڈریا ٭ ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا
جتھے وجدے ناد ہزار ٭ عشق دی نویوں نویں بہار
وید قرآن پڑھ پڑھ تھکے ٭ سجدے کر دیاں گھس گئے متھے ٭ ناں رب تیرتھ نہ رب مکے
جن پایا تس نور جمال ٭ عشق دی نویوں نویں بہار۔
بھلی ہیر ڈھوڈیندی بیلے ٭ رانجھن یار بکل وچ کھیلے
مینوں سدھ بدھ رہی نہ سار ٭ عشق دی نوئیوں نویں بہار۔

(کوزہ توڑ دو اور مصلے کو جلا دو۔ نہ تسبیح پکڑو اور نہ ہی عاصا پکڑو۔ حلال ترک کر دو اور مردار کھاؤ۔ جب سے میں نے عشق کا سبق پڑھا ہے۔ مجھے رب سے عشق ہوا ہے میرا مسجد سے دل مڑ گیا ہے۔ میں اپنے اندر رب کو تلاش کرتا ہوں۔ جہاں ہزاروں گھنٹیاں بجتی ہیں وہ انسانی وجودکو خدا کا گھر (ٹھاکردوارہ کہتے ہیں ) ۔ عشق کی ہمیشہ نئی بات ہوتی ہے۔

قرآن پڑھ کر تھک گئے ہیں اور سجدے کر کر کے ماتھے پر نشان پڑ گئے لیکن نہ تو رب تیرتھ اور نہ ہی مکہ میں ملا بلکہ وہ تو ہمیں اپنے اندر سے ہی ملا۔ عشق کی ہمیشہ نئی خوشی ہوتی ہے۔ بابا بلھے شاہ کا مفہوم یہ تھا کہ ظاہری عبادت سے نہیں محبوب حقیقی انہیں اندر کے عرفان سے ملا۔ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر صرف ظاہری عبادت پر زور دیتے ہیں۔ بے خبر ہیر (روح) کو خبر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس رانجھے ( خدا) کو تو باہر تلاش کر رہی ہے وہ توتیرے اندر ہے ) ۔ اس دوہڑے نے علما کوناراض کر دیا

بھٹھ نمازاں چکڑ روزے کلمے پھر سیاہی
بلھے شاہ شوہ اندر ملیا بھلی پھرے لوکائی

اسی انداز کا ان کا ایک اور دوہڑا جو درویشوں میں بہت مقبول ہوا، بے خبر لوگوں نے اس کی آڑ میں نئے نئے گل کھلائے۔

بلھا پی شراب تے کھا کباب، ہیٹھ بال ہڈاں دی اگ
چوری کر تے بھن گھر رب دا، اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ۔

اس میں شراب سے مراد شراب وحدت اور کباب خودی کے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے اندر کی آگ جلاؤ اور اپنے اندر چھپے رب کو پہچان لو۔ اور اسے بتاؤ کہ میں نے تمہیں پا لیا ہے۔ اس کے باوجود اس دوہڑے کی زبان نے تہلکہ مچا دیا اور لوگ بلھے شاہ پر فتوے لگانے لگے۔

پروفیسر جنک راج پوری اپنی کتاب ً سائیں بھلے شاہ ً مطبوعہ رادھا سوامی ست سنگ بیاس امرتسر میں لکھتے ہیں۔ ان کی مستی اور بے پرواہی کے دور میں دنیا کے تنگ کرنے پر بلھے شاہ نے گدھے خرید لیے۔ تا کہ دنیا ان سے نفرت کرنے لگ جائے۔ آپ کو کھوتیوں والا کہہ کر پکارنے لگے۔ ان دنوں کسی غریب کی بیوی ایک جابر حاکم زبردستی اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ جب اس کی فریاد کسی نے نہ سنی تو لوگوں نے کہا کو سائیں بھلے شاہ کمائی والا فقیر ہے۔ تو جا کر اس کی منت کر۔ جب وہ شخص ان کے پاس گیا تو بابا جی نے اسے

کہا کہ جا کر شہر میں دیکھو، کہیں طبلہ سارنگی بج رہی ہے۔ اس نے آ کر بتایا کہ ایک جگہ ہیجڑے ناچ رہے ہیں۔ آپ بھی وہاں جا کر ان میں شامل ہو گئے اور ناچنے لگے۔ جب وجد میں آئے تو اس شخص سے اس حاکم کا پتہ پوچھا وہ کہنے لگا کہ کجھوروں والے باغ اور آموں والی باغیچی میں رہتا ہے۔ آپ نے بھرپور توجہ دے کر کہا۔

امبیاں ں والی بغیچی سنی دی، کجھی والا باغ ٭ کھوتیاں والے سد بھلائی، ستی ایں دے جاگ
چینا ائیو چھڑیندا یار، چینا ائیو چھڑیندا یار

آپ کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ وہ عورت حاکم کے گھر سے واپس آ گئی۔ آپ نے اس کے خاوند سے کہا کہ اسے لے جا بھائی۔ آپ کے والد محترم کو لوگوں نے بھڑکایا کہ تمہارے بیٹے نے گدھے تو رکھے ہی تھے مگر اب وہ ہیجڑوں کے ساتھ ناچنے بھی لگا ہے اور سیدوں کی عزت خاک میں بلا رہا ہے۔ آپ کے والد ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں تسبیح لئے وہاں پہنچے تو آپ نے والد محترم کو دیکھا تواور زیادہ توجہ دے کر گانے لگے۔

لوکاں دے ہتھ مالیاں تے بابے دے ہتھ مال ٭ ساری عمر پٹ پٹ مر گیا کھس نہ سکیا وال
چینا ائیو چھڑیندا یار، چینا ائیو چھڑیندا یار،
ان کے والد بھی وجد میں آ کر ناچنے لگے۔ اندرونی پردہ اٹھ گیا۔ ہاتھ کی تسبیح پھینک دی اور پکار اٹھے۔
پتر جنہاں دے رنگ رنگیلے، ما پے وی لیندے تار ٭ چینا ائیو چھڑیندا یار، چینا ائیو چھڑیندا یار

عشق کا ابتدائی سفر بڑا دلکش دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کی راہ پرخطر اور منزل دور ہے۔ عاشق کی ذرا سی نا سمجھی یا کوتاہی معشوق کی ناراضگی کا باعث بن جاتی ہے اور عاشق کے لئے مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا کر دیتی ہے۔ یہی حال بلھے کا ہوا۔ جب ان کی کوتاہی سے مرشد ان سے ناراض ہو گیا۔ ایسے جذبات بے بصیرت لوگوں کو ہضم نہیں ہوتے اور مروجہ قانون بھی یہی ہے۔ شاہ عنایت نے بلھے شاہ کے اس طور طریقے کو پسند نہیں گیا اور وہ خفا ہو گئے۔

بلھے شاہ کو اپنے پاس آنے سے روک دیا۔ یہ دیکھ کر بلھے شاہ مرشد کے پاس گئے لیکن انہوں نے منہ موڑ لیا اس کا درگاہ میں آنا ممنو ع کر دیا۔ بلھے شاہ مرشد کی جدائی میں پشیمانی کی حالت میں تڑپنے لگے اس دور کی ان کی کافیوں میں یہ رنگ جھلکتا ہے۔ اب لگن لگی کیہہ کرئیے ٭ نہ جی سکئیے تے نہ مرئیے اور دوسری بہت سی ایسی کافیوں ہیں۔ وہ دیوانوں کی طرح گلیوں میں بھٹکنے لگے۔ آخر ناچ ناچ کر اوراپنی بہت سی کافیاں گا کر آپ نے اپنے مرشد کو منا لیا۔

بنیادی طور پر آپ کی شاعری کا محور پنجابی کی مشہور صنف کافی کہاجاتا ہے۔ اس انداز کو پنجابی، سرائیکی اور سندھی شاعروں نے بھی اپنایا ہے۔ بلھے شاہ کی شاعری اور فلسفہ اپنے دور کے اسلامی مذہبی قدامت پسندی پر کڑی تنقید کرتا ہے۔ بلھے شاہ ان لوگوں پر کھلے عام تنقید کرتے تھے جنھیں وہ مذہب کے سوداگر سمجھتے تھے۔ اپنی ایک طنزیہ سی حرفی میں انہوں نے ان کا مقابلہ کتوں سے کیا ہے جو ان کے بقول ان کے کاموں میں بہت بہتر ہیں۔

راتیں جاگیں کریں عبادت ٭ راتیں جاگن کتے ٭ تیتھوں اتے
بھونکنوں بند مول نہ ہوندے ٭ جا رڑی تے ستے ٭ تیتھوں اتے
کھسم اپنے دا در نہ چھڈدے ٭ بھاویں وجن جتے ٭ تیتھوں اتے
بلھے شاہ کوئی رخت وہاج لے ٭ نہیں تے بازی لے گئے کتے ٭ تیتھوں اتے

( رات کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں، رات کو تو کتے جاگتے ہیں اور وہ آپ سے اوپر ہیں۔ وہ ساری رات بھونکتے ہیں اور پھر جا کر روڑی پر سو جاتے ہیں لیکن آپ سے اوپر ہیں۔ اپنے مالک کے گھر کا دروازہ نہیں چھوڑتے چاہے جوتے ہی پڑتے رہیں۔ بلھے شاہ کچھ سچا کر لو ورنہ کتے تم پر بازی لے جائیں گے۔ )

مکے گیاں گل مکدی ناہیں، جچر دلوں نہ آپ مکائیے
گنگا گیاں تے پاپ نہیں جھڑدے، بھانویں سوسو غوطے لائیے
گیا گیاں گل مکدی ناہیں، بھانویں کتنے پنڈ بھرائیے
بلھا شاہ گل مکدی تانہیں، جد میں نوں کھڑیاں لٹائیے

اس نظم میں بلھے شاہ یہ بات ذہن نشین کراتے ہیں کہ جب تک نفس، میں، میری یا جہالت کا پردہ قائم ہے۔ بے شک دنیا کی تمام زیارت گاہیں چھان مارو اور ہرقسم کی شریعت کی پابندی کر لو۔ تلاش کے شجر کو وصال کا پھل نہیں لگ سکتا۔ (مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ سچا اور مکمل انسان بننے کے لئے مکہ جانا ہی کافی نہیں ہے سچا انسان بننے کے لئے آپ سینکڑوں نمازیں پڑھتے ہیں، لیکن دل صاف نہیں ہے۔ اسی طرح وہ ہندؤوں سے کہتے ہیں کہ خالص اور کامل انسان بننے کے لئے گنگا میں ہزاروں بار غوطے لگائیں اور اشنان کریں۔ بدھ

مت کے ماننے والوں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ گیا جانا حتمی حد تک پہنچنے کے لئے ضروری نہیں ہے چاہے اس کے لئے ہزاروں عبادتیں کر لیں۔ لیکن خالص اور کامل انسان بننے کے لئے حتمی بات یہ ہے کہ آپ انا، خود غوضی اور غرور کو اپنے دلوں سے دور کر یں۔ ) وہ اپنے پیغام میں دلوں کو پاک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور راسخ العقیدہ مذہبی لوگوں کی اس غلط فہمی کی نشاندہی کرتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف مذہبی مقامات پر جا کر ہی انسان پوتر بنتاہے۔ اس نظم نے انسانوں کو قلب کی اندرونی پاکیزگی کی تجویز پیش کر کے اس صوفی عنصر کی نشاندہی کی ہے جس بارے میں قرآن مجید کی صورت الفرقان میں صوفیوں کی تعریف کی گئی ہے۔

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں، کدی اپنے آپ نو پڑھیا ہی نہیں
جا جا اندر مندر مسیتے کدی، من اپنے وچ وڑھیا ہی نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا، کدی نفس اپنے نال لڑھیا ہی نہیں
بلھے شاہ آسمانی اڈدیاں پھڑدا، جہیڑا گھر بیٹھا اونہوں پھڑھیا ہی نہیں

اس سی حرفی میں بلھے شاہ نے دینی علما پرتنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس ہزاروں کی تعداد میں کتابیں ہیں جن کو پڑھ کر علم آپ نے سیکھ لیا ہے۔ لیکن اپنے آپ کے اندر جھانک کر اپنے آپ کو کبھی نہیں پڑھا۔ وہ مسجداور مندروں کے پجاریوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت مسجدوں اور مندروں میں جاتے ہیں لیکن اپنی روح کی زیارت کبھی نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آسمانوں تک پہنچ چکے ہیں لیکن ان کے دلوں میں جو کچھ ہے اس تک پہنچنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔

وہ مذہبی افراد اور علمائے اکرام سے کہتے ہیں کہ انھیں خود کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں اپنے اندر کی زیارت کی زیادہ ضرورت ہے۔ انھیں کامل انسان بننے اور دین کے صیح راستے پر چلنے کے لئے اپنے اندر کی خرابیوں سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے تزکیہ نفس کے لئے آسمانوں تک پہنچ گئے ہیں لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اسے پہچاننے میں ناکام رہے ہیں۔ لہذا سب سے پہلے ان تک پہنچنا ہو گا اور جاننا ہو گا کہ ان کے اندر کیا خرابیاں ہیں۔ پہلے اپنے دلوں کو خالص اور کامل بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے دل صاف ہوں گے تو پھر انہیں کمال کے لئے آسمانوں پر جانے کی ضرورت نہیں ہے انہیں اپنے اندر ہی خدا مل جائے گا۔

میری بکل دے وچ چور، کس نوں کوک سناواں اور منہ آئی بات نہ رہندی اے جیسی کافیوں میں یہ خیال بار بار دہرایا گیا ہے کہ گھر میں گم ہوئی شے گھر میں ہی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ باہر بھٹکنے اور اورخوار ہونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ رب کے سچے عاشق باہر ٹکریں مارنے کی بجائے اسے اپنے اندر تلاش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

جس پایا بھیت قلندردا، راہ کھوجیا اپنے اندر دا ٭ اوہ داسی ہے سکھ مندر دا، جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی اے۔

ایتھے دنیا وچ ہنیرا اے، ایہہ تلکن بازی وہیڑا اے ٭ وڑ اندر دیکھو کیہڑا ا ے، کیوں خفتن باہر ڈھونڈیندی اے

( جس نے اپنے اندر کا کھوج لگا کر اپنے رب کو تلاش کر لیا ہے۔ وہ اپنے رب کا سچا ماننے والا ہے۔ جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے وہ مشرق سے مغرب تک دونوں جہانوں کا رب ہے۔ اس دنیا میں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور یہ بہت ہی کٹھن رستہ ہے۔ باہر کی دنیا کو چھوڑ کر اپنے اندر تلاش کرو کہ اندر کون چھپا بیٹھا ہے۔ ہیر بیچاری عورت اپنے رانجھا کو باہر ڈھونڈ رہی ہے۔ )

پھر آپ فرماتے ہیں
بلھا شاہ اساں تھیں وکھ نہیں ٭ بن شوہ تنیں دوجا ککھ نہیں ٭ پر دیکھن والی اکھ نہیں
تاں ہی جان جدائیاں سہندی اے ٭ منہ آئی بات نہ رہندی اے۔

( ہمارا رب ہم سے علیحدہ نہیں ہے اور محبوب یعنی رب کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے پاس دیکھنے والی آنکھ نہیں ہے جو رب کو پہچان سکے اس لئے ہم اسے پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں اس کی جدائی سہنی پڑتی ہے لیکن منہ میں آئی بات کہنی پڑتی ہے۔ )

اس فانی دنیا سے کوچ کرنے تک آپ خود خدا کی بندگی میں مجذوب رہے اور آپ کی صحبت اور قربت میں آنے والے انسان بھی آ پ سے عشق الہی کا سبق لیتے رہے۔ آخری برسوں میں آپ نے اپنا ڈیرہ قصور میں منتقل کر لیا تھا اور پھر یہیں 1759 میں آپ نے قالب خاکی سے نجات پائی۔ آپ ایسے خدا رسیدہ درویش، فقیر کامل اور عاشق حقیقی تھے۔ جنہوں نے مرشد کے عشق کے ذریعے اللہ تعالی کے عشق کی منزل طے کی۔ آپ کی پاکیزہ زندگی کی طرح آپ کا کلام عشق مجازی کا زینہ لے کر عشق حقیقی کے رتبہ کو پانے کی راہ دکھاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments