لسانی مطالعہ کیوں کیا جائے؟


لسانی مطالعے کا مقصد کیا ہے۔ لسانی مطالعہ کیوں کار آمد ہے۔

1۔ لوگوں میں زبان کی ماہیت کے بارے میں عموماً پائی جانے والی ناواقفیت کو دور کرنے کے لیے ہم زبان کا مطالعہ کرتے ہیں

2۔ لسانیات کی تعلیم ایک تربیت بھی ہے۔ ایسی ذہنی تربیت جو جس کا معیار اس سطح کی دوسری اعلا تربیتوں کے برابر ہو۔ تربیت سے مراد کسی زبان کے ایسے حقائق سے با خبر ہونا ہے جنھیں کسی مخصوص نظریے کے دائرے میں پیش کیا گیا ہو، ان کے باہمی تعلق کی وضاحت کر دی گئی ہو۔ ان حقائق میں سے کسی ایک کی ماہیت کے بارے میں تحقیق کے نئے نئے کاموں سے واقفیت ہو۔

3۔ زباب کے مختلف پہلوؤں پر متعدد تحقیقی منصوبے مختلف ممالک کی حکومتوں کی سرپرستی میں یا بڑے صنعتی ادارے کے تعاون سے چل رہے ہوتے ہیں۔ اعلی تعلیم میں بہت سے ایسے غیر لسانیاتی منصوبے بھی موجود ہیں جن میں تربیت یافتہ ماہر لسانیات تحقیقاتی جماعت کا رکن ہوتا ہے۔ اس روزگار کی مواقع بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

4۔ تدریسی ضروریات کے لیے زبان کا مطالعہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ تدریسی ذمہ داری پورا کرنے کے لیے لسانی مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میں اب ضرورت کا احساس پیدا ہوا ہے۔

5۔ نفسیات، فلسفہ، عمرانیات اور بشریات پر تحقیق و تفتیش کے سلسلہ میں لسانیات کی مدد کئی طرح سے ناگزیر ثابت ہوتی ہے اور یورپ و امریکہ میں جہاں انسانی ذہنیت اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے اصول و ارتقاء لسانیات سے جگہ جگہ فائدے حاصل کیے جا رہے ہیں۔

6۔ قومیت نے انسانیت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ تاریخی و تقابلی لسانیات کے فروغ کی وجہ اب یہ تصور پختہ ہو رہا ہے کہ تقسیم محض جغرافیائی ہے نسل انسانی کی تقسیم نہیں ہے۔ اس سے وسعت نظر پیدا ہوئی ہے۔ لسانی گروہ بہت بڑے بڑے ہیں اور اکثر انھوں نے ملکی سرحدوں کو مسمار کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر آئرلینڈ سے بنگال تک ایک نسل ہے۔ انڈونیشیا اور دور مڈغاسگر کی زبان میں مماثلت ہے۔ زبان کی مماثلت ان کو باہم جوڑے میں معاونت کرتی ہے۔

7۔ مختلف ملکوں کی زبانوں کے تقابلی مطالعے سے تاریخ کے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آریہ نسل کے باشندوں کا اصل وطن کیا تھا یہ قدیم ترین ہند آریائی زبانوں کے بعض الفاظ سے معلوم ہو سکا ہے۔

8۔ مغرب میں لسانیات کو ریاضی کے انداز پر ڈھالا جا رہا ہے۔ لسانی زمانیات لسانیات کا ایک نیا شعبہ ہے۔ جس سے زبانوں کی عمر کا اندازہ لگایا جا تا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ ایک صدی میں زبان کے ذخیرے میں کتنے فی صدی الفاظ میں تبدیلی ہوتی ہے۔ دو قرابت دار زبانوں میں الفاظ کے اختلاف کی مقدار دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ کب ایک دوسرے سے جدا ہوئیں۔ اس سے ایک لسانی برادری کے ذیلی گروہوں کے نقل مکانی کا زمانہ معلوم ہو سکتا ہے۔

9۔ زبان و ادب کا تعلق عیاں ہے۔ قدیم ادب کی فرہنگ کی تفہیم میں تو لسانیات سے مدد ملتی ہی ہے بعض اوقات قدیم ادب کی رسم تحریر بھی ماہرین لسانیات کے طفیل ہی واضح ہوتی ہے۔

10۔ ادبی مخطوطوں کا زمانی متعین کرنے میں لسانیات سے مدد ملتی ہے۔

11۔ لسانیات کی ایک شاخ اسلوبیات ہے۔ اس میں دریافت کیا جاتا ہے کہ کن آوازوں، اجزائے الفاظ کی تکرار اور کمی بیشی سے اسلوب میں جان پڑتی ہے۔ اس سے کسی شاعر یا انشا پرداز کے اسلوب کے ہیتی تجزیے میں بعض اصولوں کی کارفرمائی دریافت کی جا سکتی ہے۔

12۔ کچھ زبانیں ایسی ہیں جن کے پاس اپنا رسم خط نہیں ہوتا۔ لسانیات آوازوں کا تجزیہ کر کے ان کو رسم خط عطا کرتی ہے۔ قبائلی زبانوں میں تحریر کا رواج نہیں ہوتا۔ اس ان زبانوں کا عوامی ادب قلم بند کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

13۔ عروض اور صوتیات کا تعلق ظاہر ہے۔ انگریزی عروض بل پر مبنی ہے اور اردو و ہندی عروض صوت کے طول پر لیکن لسانی حس یہ بتاتی ہے کہ اردو عروض بھی گاہے گاہے لفظ کے بل سے متاثر ہوتا ہے۔

14۔ ایک سیاح اگر کسی علاقے میں ایسے قبائل میں جاتا ہے جہاں کی زبان اس کو نہیں معلوم۔ ماہر لسانیات ان قبائلیوں کی زبان اسے سمجھا بھی سکتا ہے اور سکھا بھی سکتا ہے جس سے سیاحت کے اور تحقیق کے نتائج میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

15۔ آج کل فوج میں بھی لسانیات کا عمل دخل زیادہ ہو گیا ہے۔ فوج میں ایک شعبہ صوتیات کا ہوتا ہے۔ فوج میں شعبہ لسانیات کے قیام کی واحد وجہ جاسوسی کے فن کی تکمیل ہے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے سفیروں اور فوجیوں کو پیغام بھیجنے کے لیے ایک کوڈ کا استعمال کرتا ہے جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد بدلتا رہتا ہے۔

16۔ لسانیات کی ایک قسم کمپیوٹری لسانیات ہے۔ اس کی مدد سے منجملہ اور زبانوں کے ترجمہ کرنے کی مشین بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ مشینوں کے ذریعے سے ہی دنیا کی تمام زبانوں کے درمیان ایک قدر مشترک کی کھوج کی جا رہی ہے۔ اس کی تشکیل ہو جائے تو کسی بھی زبان میں ترجمہ مشکل نہ رہے گا۔

17۔ اسکولوں میں زبانوں کی جو قواعد پڑھائی جاتی ہے اس مختلف اصولوں کے تحت مستثنیات کی فہرست بھی ہوتی ہے جس کے تحت یہ مستبط ہوتا ہے کہ یہ اصول جامع نہیں۔ زبان کا مروجہ صرف و نحو بڑا پیچیدہ ہوتا ہے۔ لسانیات کا دعوی ہے کہ لسانیات کے اصولوں کے تحت کسی زبان کا صرف و نحو لکھا جائے تو وہ جامع ہو گا اور سہل بھی۔

18۔ زبان کے ہر قسم کے اسماء کی حالتوں کا احاطہ لسانیات کی مدد سے کر لیا جاتا ہے۔ اردو کے افعال کے مختلف زمانوں اور ان کی گردان کے قواعد بڑے پیچیدہ ہیں۔ لیکن ماہرین لسانیات نے ان سب کو ایک چارٹ میں محصور کر دیا ہے اور اس میں تمام فعلی تبدیلیاں واضح کر دی گئی ہیں۔

19۔ معنی کی حامل سب سے چھوٹی اکائی مارفیم کی دریافت سے لفظوں کی ساخت اور تبدیلی کا بیان بڑا آسان اور سائنسی ہو گیا ہے۔ ہماری قواعد میں مصدر کو بنیادی مادہ مان کر اس میں تبدیلیوں کا ذکر کیا جاتا تھا۔ لسانیات نے مصدر ’میں‘ سے علامت مصدر ’نا‘ حذف کر کے مادہ کا تعین کیا ہے اور اس میں مختلف اضافوں کو صوتیات کی اصطلاحوں میں ادا کیا ہے۔

20۔ قواعد اہل زبان سے ہٹ کر لسانیات نے ایسے طریقے نکالے ہیں جن سے کسی زبان کو تھوڑے عرصے میں سیکھا جا سکتا ہے۔ آج کے مصروف آدمی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ برسوں لگا کر زبان سیکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments