دہشت گرد کہانی


رات کے دس بج رہے تھے۔ امی ہم سب کو زبردستی سلا کر پھر سے نفل پڑھنے میں مصروف ہو گئیں۔ میں چادر کی اوٹ سے چھپ کر انہیں دیکھنے لگی۔ اب تو یہ سلسلہ روز کا چل پڑا تھا۔ امی ہمیں سلا کر جائے نماز پر بیٹھ جاتیں اور گھنٹوں روتی رہتیں۔ جب سے قریبی ہسپتال سے دھماکے کی آواز آئی تھی تب سے۔ اس سے پہلے ابو ہمیں کہانی سنایا کرتے تھے۔ لیکن دھماکے کے بعد سے وہ گھر نہیں آئے۔ امی کا کہنا تھا کہ وہ بہت مصروف ہو گئے ہیں۔

دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی مرہم پٹی بہت مشکل کام ہوتا ہے اور ہم مسلمان یہ کام کر کے جہاد کر رہے ہوتے ہیں۔ میں نے بڑی خوشی سے اپنی سب سہیلیوں کو بتایا تھا کہ میرے ابو مجاہد ہیں۔ پر پتا نہیں کیوں خالہ یہ سن کر رونے لگیں۔ بعد میں میری ایک سہیلی نے کہا کہ ابو مجاہد نہیں شہید ہو گئے ہیں۔ بھلا ایسا تھوڑی ہوتا ہے۔ شہید تو وہ ہوتے ہیں جو جنگ لڑنے جاتے ہیں۔ ابو تو ہسپتال میں کام کرنے جاتے تھے۔ وہ کیسے شہید ہو سکتے ہیں؟

میں نے اس سے دوستی توڑ دی ہے وہ جھوٹ بولتی ہے۔ پر ابو گھر نہیں آتے میں کس سے پوچھوں ابو کیا ہیں؟ آج امی کو پھر جائے نماز پر روتا دیکھ کر مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے اٹھ کر ان سے پوچھا کہ ابو کدھر ہیں؟

انہوں نے بھی میری سہیلی والا جواب دیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کو کس نے شہید کیا؟ امی نے کہا اسرائیل نے بمباری کی جس کی وجہ سے وہ شہید ہو گئے۔ میں آپ کے پاس اس لئے آئی ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے ابو شہید نہیں ہوئے۔ انہوں نے تو زندگی میں کبھی لڑائی نہیں کی۔ ان کا قتل ہوا ہے۔ یہ شہید ہونے کی کہانی تو ہمیں صبر دلانے کے لئے ہے۔ میں نہیں مانتی انہیں شہید۔ ان کا قتل ہوا ہے۔ قتل کا قصاص ہوتا ہے۔ مجھے قصاص چاہیے۔ امی میری مدد نہیں کر سکتیں لیکن آپ کر سکتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے سب آپ کو دہشتگرد کہتے ہیں لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا۔ میں آج سے آپ کے ساتھ ہوں۔ میرے ابو کا قصاص آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے بتائیں اب

بالآخر وہ دن آ ہی گیا۔ بہت انتظار کیا میں نے۔ بہت مشقت جھیلی۔ آج میرے ہاتھوں میں چھالے ہیں۔ جسم پر جگہ جگہ خراشیں۔ ابو ہوتے تو بہت ناراض ہوتے۔ لیکن وہی تو نہیں ہیں۔ وہ ہوتے تو میں یہاں تھوڑی ہوتی۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ امام حسین کی بیٹی سکینہ نے ان سے پوچھا کہ بابا یتیم کیا ہوتا ہے تو انہوں نے مٹھی میں خاک بھر کر اپنی بیٹی کے سر میں ڈالی تھی۔ ابو کے مرنے کے بعد مجھے ہر وقت اپنے سر میں ریت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن آج یہ اذیت بھی ختم ہو جائے گی۔ آج قصاص کا وقت ہے۔

شہر میں آج بہت ہجوم ہیں۔ ہنستے کھیلتے چہرے، میرے باپ کے قاتل، میرا دل کرتا ہے اس پورے شہر کو آگ لگا دوں لیکن مجھے حکم بس اس ایک چوک کا ملا ہے۔ آج یہاں پریس کانفرنس ہوگی۔ فلسطین کے بیانیے کو جھٹلایا جائے گا۔ اسرائیل کی شان میں عظیم الشان تقریریں ہوں گی۔ لیکن آج میرے ابو کا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا۔ ان کے قتل کا بدلہ۔

اور میں؟ میں مر جاؤں گی۔ شہید نہیں ہوں گی۔ شہید تو اللہ کی راہ میں ہوتے ہیں۔ میں تو قصاص لینے آئی ہوں۔

اب کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں۔ آخری دس سیکنڈ۔ بہت بھیڑ ہے۔ پتا نہیں کیوں اتنے لوگوں میں میرے نظر بار بار سڑک پار کھڑے اس لال شرٹ والے بچے پر جا رہی ہے جو اس پار کھڑے اپنے ابو کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ وہ میرے چھوٹے بھائی کی عمر کا ہے۔ لیکن نہیں اس وقت نہیں۔ یہ وقت ابو کے بدلے کا ہے۔ آخری پانچ سیکنڈ۔ لوگ بہت شور کر رہے ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ لا الہ الا اللہ۔

دو گھنٹے بعد ہسپتال سے۔

لال شرٹ والا لڑکا: مجھے یقین نہیں آ رہا۔ آج میں نے اپنے ابو کو مرتے دیکھا۔ ابھی تو انہوں نے میرے ساتھ مجھے میرا برتھ ڈے گفٹ دلانا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ پھر اچانک سے دھماکہ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے عظیم مقصد کے لئے شہید ہو گئے ہیں۔ امی اور چھوٹی بہن کو تسلی دے رہے ہیں۔ لیکن مجھے پتا ہے ان کا قتل ہوا ہے اور میں یتیم ہو گیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments