ویکسین بھی سٹیٹس سمبل ہے؟


دسمبر کے وسط میں ہی ویکسین کی ہلچل مچ چکی تھی اور کس کو پہلے ملے گی اور کس کو بعد میں اور کون سی ملے گی؟ سی این این پر ڈاکٹروں، فارماسوٹیکل کمپنیوں اور ان کے نمائندوں، حکومتی اہلکاروں کے پرے کے پرے آتے اور اپنی اپنی بولی بول کر نکل جاتے۔ اب ہم نے بھی سمجھنے کی کوشش کی کہ ہنگامہ ہے کیا برپا؟

اس وقت چار کمپنیوں کے بارے میں بات ہو رہی تھی، جے & جے، فائیزر، موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا اور سچی بات ہے کہ آخری دو کے نام ہمیں دیر سے ہی سمجھ آئے تھے۔ اب ان کے سائیڈ افیکٹس کے بارے میں بھی جانچا جانے لگا اور بہت جلد جے &جے اور ایسٹرا زینیکا کے بارے میں کچھ مبہم سی سرگوشیاں ہونے لگیں اور یورپ میں کچھ حادثے بھی ایسے ہوئے تو لوگوں کے کان کھڑے ہو نے لگے اور ان میں ہم بھی شامل تھے۔

گھر میں بھی بحث مباحثہ ہوتا رہتا کیونکہ ہمیں تو بس اللہ موقع دے کہ ہم دوسروں کی جان کھائیں

باقی چائینز اور رشئینز بھی اپنی کارکردگی بازار میں پھینک چکے تھے مگر بھئی ما شا اللہ سے انکل سام کب کسی کو خاطر میں لاتے ہیں سو ان کے خلاف بھی منظم مہم جاری تھی مگر ولادیمیر پیوٹن کو ہم سلام پیش کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے ایک جملے سے ہمارا دل جیت لیا کہ سپتنک بھی اپنی کار کردگی میں اتنی ہی پرفیکٹ ہے جتنی کہ کلاشنکوف۔

امریکہ میں ویکسینیشن کا آغاز ہو گیا تھا اور فرنٹ لائن اور اسینشئیل ورکرز کو دی جانے لگی تھی یا آپ کچھ ایسی بیماریوں سے کمزور قوت مدافعت رکھتے ہیں تو آپ بھی حقدار ہیں اور ظاہر ہے ہمارا نمبر تو اس میں پہلا ہی تھا مگر کب کہاں اور کیا کرنا ہے اور کون سی ویکسین لینی ہے، ہم قطعاً نابلد تھے لیکن دل ہی دل میں فائیزر کو پسند کر لیا تھا کیونکہ لگ رہا تھا کہ سب نامور لوگ وہی لے رہے ہیں۔

وہ جنوری کے آخری دن تھے جب ہماری ایک بہت قریبی فرینڈ کا فون آیا
تم نے ویکسین کرا لی ہے؟
نہیں ابھی تو نہیں، تم نے کرا لی؟ ہم کہاں سے کرائیں؟ اور کون سی والی؟
اور نہیں تو کیا بلکہ اب دوسری بھی ایک ہفتے میں لگ جائے گی

حد ہو گئی ہے، اچھا میں لنک بھیج رہی ہوں فوراً رجسٹر کرو، اتنی بیماریاں ہیں اور میڈم کو پرواہ ہی نہیں

وہ ہمیں مسلسل ڈانٹ رہی تھی
اور ہاں ہمیں تو فائیزر لگی ہے
اس نے فخر سے کہا

مگر ڈیپنڈ کرتا ہے میسر ہے کہ نہیں، ویسے فلاں کو بھی فائیزر ملی مگر فلاں فلاں اور فلاں کو بہت کوشش کے باوجود موڈرنا ملی بھئی فائیزر اب سب کو تو نہیں مل سکتی نا

لہجہ کافی بے نیاز تھا
ھوں!
اب ہم اور کیا کہتے بھلا۔ دوست نے لنک بھیج دیا، ہم نے اپنے ان کو، بیٹے کو اور ظاہر ہے خود کو رجسٹر کر دیا مگر راوی چین ہی چین نہیں لکھ رہا تھا کیونکہ دل میں ایک کھد بد جاری تھی کہ فائیزر یا موڈرنا۔ ہم اب بلاوے کے انتظار میں تھے مگر کچھ دن کے بعد وہاں سے اتنا لمبا چوڑا پیپر ورک بھیجا گیا کہ اس کو مکمل کرتے دو دن لگے اور پھر بھیج دیا اور انتظار کرنے لگے، ایک ہفتہ گزر گیا مگر جواب ندارد۔
ویکسین ہو گئی؟
دوست نے فون کھڑکایا
نہیں بھئی کوئی جواب ہی نہیں آیا
لو یہ کیسے ہو سکتا ہے، فلاں فلاں فلاں کو ہو گئی اور تمھیں تو اتنی بیماریاں ہیں، بھئی بہت ہی لاپروا ہو بہرحال دوبارہ میسج کرو انھیں
اچھا کرتے ہیں
ہم نے سعادت مندی سے کہا مگر خود کو بے حد بیمار اور نحیف محسوس کر رہے تھے۔ میسج کے جواب میں دوبارہ وہی پیپر ورک آ گیا تھا، مکمل کیا بھیج دیا۔

اب ایک تواتر سے جان پہچان کے لوگوں کے فون آنے لگے کہ ویکسین ہوئی یا نہیں اور نفی میں جواب دیتے تو ہمارے اعمال کی طرح ہمارے ہیلتھ ایشوز یاد کرائے جاتے۔ اب پاکستان سے بھی فون آنے لگے کہ ویکسین ہوئی یا نہیں اور اگر ہم پوچھتے کہ آپ کی ہو گئی تو جواب آتا کہ ہماری تو ہو ہی جائے گی مگر تمھیں فوری ضرورت ہے فوراً کراؤ گویا ہماری تو جیب میں رکھی ہے نا فائیزر (آہم)۔
اب سب کو تو بتا دیا تھا رجسٹریشن کرا لی ہے تو نئی تفتیش شروع ہو گئی۔
کون سی والی ہے ان کے پاس؟
ہمارے ایک بہت ہی خیرخواہ نے پو چھا
جی پتہ نہیں کوئی جواب ہی نہیں آیا ان کا
ہمم مگر دیکھ بھال کر اچھی والی کرانا ورنہ خود سے تو کوئی ایسی ویسی ہی لگا دیں گے
بہت ہی بردبار لہجہ تھا اور بحث کرنا فضول تھا کیونکہ ہمارے یہ سب پیارے ہماری بھلائی ہی چاہتے ہیں۔
آخر جس کا تھا انتظار وہ شاہکار آ گیا یعنی جہاں رجسٹریشن کرائی تھی وہاں سے جواب آ گیا کہ سوری ہماری سپیس فل ہو گئی ہے آپ اب کہیں اور قسمت آزمائی کریں۔ ہم تو صدمے سے چور بس بیٹھے رہ گئے یعنی اب کیا کریں اور ’ان‘ کی طرف بہت امید سے دیکھا گویا ابھی بیگ سے انجکشن نکال لیں گے مگر انھوں نے سامان سمیٹا اور ایک مہینے کے بہت اہم کمپنی ٹور پر چلے گئے۔ ایک دو فارمیسیز سے چیک کیا لیکن وہ ہنوز کووڈ ٹیسٹنگ ہی کر رہے تھے۔

بیٹی بیچاری نے بہت سمجھایا کہ جن لوگوں کو آپ ملی ہیں اور وہ ویکسینیٹڈ ہیں تو اس لئے کہ وہ سب لوگ فرنٹ لائن ورکرز ہیں، ہماری سٹیٹ میں جب سب کو ملنے لگے گی تو آپ کو بھی ملے گی اور سب ویکسینز ٹھیک ہیں۔

اچھا بھئی ٹھیک ہے! مگر تمھیں پتہ ہے نا ہمیں کتنی بیماریاں۔۔۔
آپ بالکل ٹھیک ہیں اور کوئی بیماری نہیں آپ کو
اس نے بات ہی ختم کردی
لو بھلا اس کو کیا پتہ، اسی لئے کہتے ہیں لاعلمی ایک نعمت ہی ہے۔
ہم نے ٹھنڈی سانس بھری اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ لیا، بھلا یہ کیا بات ہے کہ سب ٹھیک ہیں ورنہ سب حکومتی لوگ، سینیٹرز، بڑے بڑے سی ای اوز اور ایکٹرز وغیرہ کیوں فائزر لے رہے ہیں۔ دن تیزی سے گزر رہے تھے اور پھر ہماری سٹیٹ میں بھی ویکسین اوپن ہو گئی اور کچھ ملنے والوں نے موڈرنا لگوا لی تھی اور بھلے چنگے تھے مگر عجیب و غریب بلکہ ڈراؤنی افواہیں بھی مستقل سننے میں آ رہی تھیں۔
ایک دن موسم اچھا تھا ہم یونہی قریبی پارک میں چلے گئے اور واکنگ ٹریل پر چلنے لگے تو تھوڑی دیر میں دو اور خواتین بھی شامل ہو گئیں، ایک تو پاکستانی تھیں دوسری مڈل ایسٹرن۔ ایک گرم جوش اہلاً و سہلاً کے بعد باتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو جلد ہی اصل ٹاپک پر آ گیا۔ ہم نے ان سے اور انھوں نے ہم سے ویکسین کا پوچھا اور ہم نے شرمندگی سے نفی میں سر ہلا دیا اور انھوں نے بھی مگر مطمئن انداز سے
ہم ویکسین نہیں لیں گے!
پاکستانی بہن نے کہا
اچھا مگر کیوں؟ فائیزر بھی نہیں (ہمارا کامپلیکس چیک کریں )
ہمیں اچنبھا ہوا،
دینجرس سستر دینجرس
عربی بہن نے معنی خیز لہجے میں کہا اور پھر پاکستانی بہن نے تقریباً سرگوشیوں میں بتایا کہ کووڈ کی ویکسین سے جنس تبدیل ہو سکتی ہے۔
ہم تھر تھر کانپتے گھر آ گئے اور چشم تصور میں بچوں کے دو ابا گھومتے دیکھ رہے تھے کیونکہ پہلے تو ہم کو ہی لگنا تھی مگر آہستہ آہستہ اپنی جہالت پر افسوس ہونے لگا کہ کیوں لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں لیکن اس طرح کے واہموں باعث نجانے کتنے لوگ ویکسین سے محروم رہ جائیں گے۔
فروری تیزی سے گزر رہا تھا اور ہم ہنوز ’بے ویکسینے‘ تھے۔ ایک دو جگہ صورتحال کچھ واضح ہوئی مگر وہاں موڈرنا تھی اور ہم نے اس اطلاع کو گویا دانت کے نیچے دبا لیا اور معصوم اور مظلوم شکل بنا کر بیٹھے رہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کی اکثریت چونکہ کووڈ کو ٹرمپ کے خلاف ایک سازش قرار دے چکی تھی لہذا ویکسین لگوانے سے انکاری تھی جب کہ وہ خود جنوری کے شروع میں اپنے دور صدارت میں ہی لگوا چکے تھے تو اب ان کے سپورٹرز کے بینر کووڈ اور ویکسین کے خلاف جگہ جگہ جگمگا رہے تھے۔ ہماری نظر آتے جاتے ان پر پڑتی اور ہم ’مطلب یعنی کہ‘ کی گردان کر کے رہ جاتے۔
اب سمجھ آ رہی تھی معلومات کے بغیر ٹامک ٹوئیاں مارنے کوٰئی فائدہ نہیں اور ہر کام طریقہ کار کے تحت ہوگا مگر افواہوں کی فیکٹریاں بریک لئے بغیر چوبیس گھنٹے کام کر رہی تھیں۔ جے & جے اور ایسٹرا زینیکا کا تو نا ہی پوچھیں بلکہ کینیڈا سے اطلاع آٰئی کہ موڈرنا کم عمر بچوں کے لئے ٹھیک نہیں کیونکہ ری پروڈیکٹو سسٹم متاثر کرتی ہے۔
اس ساری کشمکش میں مارچ تیزی سے گزر رہا تھا اور ہمارے تقریباً تمام ملنے والے اپنے اٹھارہ سال سے بڑے بچوں سمیت ویکسین سے فارغ ہو گئے تھے۔ ہم اس ساری سچوئشن میں اپنے آپ کو بے حد کمتر محسوس کر رہے تھے کہ ہمیں تو سب سے پہلے لگنی چاہیے تھی (بھئی وہی بیماریاں وغیرہ) اور اب نوبت یہاں تک آ گئی کہ کوئی انوائیٹ کرتا تو ”ہم ویکسینیٹڈ نہیں ہیں“ کہہ کر انکار کر دیتے تو دل بہت ٹوٹتا اور اگلوں کی ہدایات پر کھول کر رہ جاتے

ویسے آپ کی ویکسین کون سی تھی؟
ہم بظاہر لاپرواہی سے پوچھ لیتے
فائیزر
ہم ان کی خوش قسمتی پہ اش اش کرتے
موڈرنا
چلو لگ تو گئی نا، اللہ صحت زندگی دے
ہم ہمدردی سے کہتے۔
اپریل آ گیا تھا اور رمضان المبارک آیا ہی چاہتا تھا اور ہماری ویکسین کے دور دور بھی کوئی امکانات نہیں تھے اور ظاہر ہے ہم پریشان تھے۔ یکم رمضان کو ہم نے گڑگرا کر اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور ویکسین کے لیے دعا کی اور مغموم سے سو گئے۔
اماں میں نے آپ کی اور شیر خان (بیٹا) کی بکنگ کر دی ہے فلاں ہاسپٹل میں اور بابا واپس آتے ہیں تو ان کی جب ہو جائے گی ان شا اللہ
بیٹی کی آواز تھی کہ نوید زندگی۔
اچھا! واقعی؟
یہاں پر سوکھے دھانوں پر گویا پانی پڑ گیا
جی واقعی
وہ ہنستے ہوئے بولی،
مگر اماں فائیزر ہو یا موڈرنا کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ہم ایک سائنٹفک سوسائٹی میں رہتے ہیں اور اگر واہموں میں گرفتار رہیں تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بس آر یا پار، مطلب انجکشن لگوانا ہے یا نہی لگوانا ہے
ہمم،
ہم نے نصف دلی سے کہا کیونکہ ہم متفق ظاہر ہے نہیں تھے
مقررہ دن افطار کے بعد ہم ہاسپٹل پہنچے۔ لائن لمبی تھی مگر افراتفری نہیں تھی اور ہر چیز بہترین طریقے پر مینیجڈ تھی۔ باری آنے پر کچھ پیپر ورک ہوا انشورنس کارڈ لیا اور ایک ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔
ہمیں اور بیٹے کو اکٹھے ہی بلا لیا گیا اور یقین کریں تیس سیکنڈ سے کم وقت میں دونوں کو ایک مہربان ڈاکٹر نے انجکشن لگا کر مبارکباد بھی دی۔ ہمیں دوبارہ پندرہ منٹ تک ویٹنگ روم میں بیٹھنے کو کہا کہ اگر کوئی ری ایکشن نا ہو جائے۔
یہ کون سی ویکسین تھی؟
ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
فائیزر
اب ویٹنگ روم میں بیٹھے ہم ”پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات“ کی تصویر بنے بیٹھے تھے اور اپنے اوپر برس رہے تھے کہ اینڈ میں وہی ہوا جو ہم چاہتے مگر چونکہ فانی انسان ہیں اس لیے جلد بازی اور مقابلہ بازی ہی پر مصر رہے اور اب فائیزر کے ساتھ ہم نے کون سے پہاڑ تعمیر کر لینے ہیں۔ (ویسے یہ بات ہم اب کہہ رہے ہیں )

بہر حال ہمارے بہت ہی پیاروں کو موڈرنا ملی اور وہ ماشا اللہ بالکل ٹھیک اور خوش باش ہیں۔ اللہ تعالی آپ سب کو صحت زندگی کے ساتھ اپنے حفظ و امان رکھے (آمین) اور ویکسینیٹ ہونے میں آسانیاں پیدا کرے۔ موڈرنا یا فائیزر میں کوئی فرق نہیں یہ سمجھ آ گئی ہے۔ ویسے باہر جس کی گردن میں سریا دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ فائیزر ہے۔ اللہ ہمیں معاف کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments