کھیل تبدیل ہوا چاہتا ہے


ہائبرڈ بندوبست بے نقاب ہو رہا ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہو رہا کہ متحدہ حزب اختلاف اسے زمین پر پٹخنے میں کامیاب ہو گئی، بلکہ اس لیے کہ عمران خان اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مار رہے ہیں۔ تین برس سے بھی کم عرصے میں اُنہوں نے حزب اختلاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا جاری رکھا، عوام کو مشتعل کیا اور اُس اسٹبلشمنٹ کو ناراض کر دیا جو اسے اقتدار میں لائی تھی اور جس نے اس ہابئرڈ بندوبست پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ وہ اپنے منصب پر ابھی تک صرف اس لیے موجود ہیں کہ اسٹبلشمنٹ بساط تبدیل کرنے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہے۔

عمران خان کا بیانیہ تین ستونوں پر قائم تھا۔ حزب اختلاف کا احتساب اور حکومت۔ نسبتاً بہتر کارکردگی۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی بجائے تعاون ۔ وہ ان تینوں محاذوں پر ناکام ہوچکے ہیں۔

عمران خان نے کھربوں کی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے تیز و تند الزامات لگا کرحزب اختلاف کوجیلوں میں بند کرنے کے لیے نیب، ایف آئی اے، آئی بی، ایف بی آرکو متحرک کیا لیکن تعاون پر آمادہ عدلیہ کے باوجودایک بھی ملزم کو سزا نہیں ہوسکی۔ کسی سے ایک پیسہ تک برآمد نہیں ہوا۔ اس کی بجائے احتساب کا پورا بیانیہ بے رحم سیاسی انتقام میں تبدیل ہوگیا۔ اس کھیل میں شریک ریاست کے عناصر کی ساکھ مجروع ہوئی۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ احتساب کا رخ اب اپوزیشن سے ہٹ کر عمران خان کی اپنی جماعت کے اُن راہ نماؤں کی طرف ہوگیا ہے جن کے بارے میں لوٹ مار کا تاثر موجود تھا لیکن اُنہیں چھان بین سے بچایا گیاتھا۔ تحریک انصاف کے راہ نماؤں پر بدعنوانی کے بے شمار الزامات ہیں جیسا کہ بی آرٹی، مالم جبہ، رنگ روڈ، فارن فنڈنگ، رہائشی کالونیاں، شوگر سبسڈی وغیرہ۔ اب یہ شہ سرخیوں کی زینت بن رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی حکومت پر بے پناہ کیچڑ اچھالا گیالیکن اس کی کارکردگی تحریک انصاف کے مقابلے میں اوج ثریا پر دکھائی دیتی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 2017-18 میں 5.5 فیصد تھی۔ اب یہ 2020-21 میں 1.1 فیصد ہے۔محنت کش طبقے کی مزدوری گزشتہ تین سالوں میں 6 فیصد کم ہوگئی۔ اس سے پہلے گزشتہ حکومت کے تین برسوں کے دوران اس میں تین فیصد اضافہ ہوا تھا۔بیروزگار افراد کی تعداد دوکروڑ تک جا پہنچی۔ عوام کی غربت میں بھی اتنی ہی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جتنا حکومت کے قرضوں میں۔ اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں ہر سال پندرہ فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ معاشی بہتری دکھانے والا ہر اشاریہ نیچے جارہا ہے۔ یہ غیر معمولی ناکامی اور بدانتظامی کی افسوس ناک کہانی ہے۔اس سے بھی بڑ االمیہ یہ ہے کہ اب سرکاری مشینری نے سرکار کے احکامات کی تعمیل سے گریز شروع کردیا ہے۔وہ جبری تقرریوں، تبادلوں اور مداخلت سے لبریز خوف کے ماحول میں کام چھوڑ چکے ہیں۔

عمران خان کی بدعنوانی کے خاتمے کے بیانیے اور پالیسی کے مطابق کارکردگی دکھانے میں کھلی ناکامی نے اسٹبلشمنٹ کو مداخلت پر مجبور کردیا ہے، قبل اس کے کہ خرابی اپنی انتہاکو پہنچ جائے اور ہائبرڈ بندوبست کو پاکستان کے لاچار عوام پر مسلط کرنا اُن کی ساکھ کو مزید داغ دار کردے۔ اس کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ پنجاب، جو کہ پاکستان کا نصف ہے، میں موثر اور صاف ستھری حکومت قائم کی جائے لیکن بنی گالا میں اس مطالبے کی شنوائی نہ ہوئی۔اسٹبلشمنٹ نے بہتر معاشی پالیسی کے لیے دباؤ ڈالا لیکن اسلام آباد کے طاقت کے ایوانوں میں یوٹرن، فیصلوں کی احمقانہ تبدیلی اور بے معانی اکھاڑ پچھاڑ جاری رہی۔ مزید یہ کہ عمران خان نے آرمی چیف کی عوامی سطح پر دی جانے والی تجویز کو مسترد کردیا۔ یہ تجویز خارجہ تعلقات کی جہت تبدیل کرنے،خاص طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانے کے ذیل میں تھی۔ اسے تمام اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل تھا۔

ان حالات میں شہباز شریف مسلم لیگ ن اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کے بیانیے کو آگے بڑھانے میں ”آزاد“ ہیں۔ وہ قدم آگے بڑھانے کے لیے نواز شریف سے مشور ہ کرنے لندن جانا چاہتے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ ن کے ترجمان، جیسا کہ شاہد حاقان عباسی اور محمد زبیر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی تردید کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو دوبارہ ساتھ ملا کر پی ڈی ایم کو بحال کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس دوران اسٹبلشمنٹ کے سدا بہار اثاثے، جہانگیر ترین کو پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں فارورڈ بلاک بنانے کی شہ دی گئی۔ اگر عمران خان نے اُن کی بات نہ مانی تو وہ وار کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم اس پیش رفت میں دو مشکلات حائل ہیں۔ پہلی مشکل یہ کہ نوازشریف اپنے مرکزی بیانیے پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ فوری طور پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے منتخب شدہ حکومت کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت چاہتے ہیں۔ عمران خان کی مجوزہ رخصتی کے بعد قائم ہونے والی وسط مدتی حکومت، نگران وزیر اعظم کا چناؤ اور تازہ انتخابات کے انعقاد پر بھی الجھن ہے۔ لیکن اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اسٹبلشمنٹ حکومت کی تبدیلی میں سنجیدہ ہو۔

دوسری، اسٹبلشمنٹ کو خوف ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد عمران خان اس کے لیے اُس سے کہیں بڑا درد سر ثابت ہوں گے جتنا اقتدار میں ہیں، خا ص طور پر اگر مسلم لیگ ن کے ساتھ کیا گیا مجوزہ بندوبست اعتماد کے دوطرفہ فقدان کا شکار ہوگیا۔ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ کے پیچھے کوئی جماعت کھڑی نہیں ہوگی۔ تاہم یہ خدشہ بلاجواز ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور ن لیگ کی قیادتیں آنے والے وقتوں میں ٹکراؤ کی طرف نہیں جائیں گی کیوں کہ ماضی میں ایسی پالیسیاں ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی تھیں۔ نیز عمران خان بھی اسٹبلشمنٹ پر حملہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے کیوں کہ ریکارڈ سامنے آجائے گا کہ اس نے کتنی محنت کرتے ہوئے عمران خان کو اقتدار تک پہنچایا اور پھر بے پناہ ناکامیوں کے باوجود اسے سہارا دیے رکھا۔ نیز پاکستانی بھی موجودہ حکومت کی تباہ کن کارکردگی نہیں بھولنے والے۔ اور پھر میڈیا نے بھی عمران خان کے ہاتھوں بے پناہ زک اٹھائی ہے۔ وہ بھی اپنے زخم بھولنے یا معاف کرنے کی جلدی میں نہیں۔ آخر میں، ریاست کے جو ادارے آج عمران خان کے حکم پر اپنی توپوں کا رخ سیاسی مخالفین کی طرف کیے ہوئے ہیں،و ہ حکومت تبدیل ہونے پر انہیں بھی نشانہ بنائیں گے۔ پھر انہیں جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگنا پڑے گا۔

اب بساط بچھ چکی۔ عمران خان ہٹ دھرم، مغرور، اناپرست اور نرگسیت کا شکار ہونے کی وجہ سے سمجھوتہ کرنے یا قدم پیچھے ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ان کی سیاسی خامیوں کی فہرست میں گزشتہ ازدواجی بندھن سے لفظ ”توہم پرستی“ بھی شامل ہوچکا ہے۔ لیکن ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ حقیقت پسند اور عملیت پسند سیاسی کھلاڑی ہیں۔ اس لیے امکان تو ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اب سیاسی نقشہ تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ خدا ہی جانتا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے نمائندوں کے مستحکم سیاسی بندوبست اور ٹھوس سماجی اور معاشی بہتری کے کتنے متمنی ہیں۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments