”او آئی سی“ ۔ ”فیر کتھے گئی سی“


ہم نے جب پہلی بار ”او آئی سی“ کا نام سنا تو سمجھے یہ پنجابی کا کوئی نعرہ ہے، ایک شخص نعرہ لگاتا ہوگا ”او آئی سی“ جواب میں لوگ کہتے ہوں گے ”فیر کتھے گئی سی۔“ (وہ آئی تھی، پھر کدھر گئی تھی) ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہے کہ ”او“ آخر ہے کون جو ”آئی سی“ اور ”کہاں آئی سی“ ، ”کیوں آئی سی“ ، ”کب آئی سی۔“ آخر یہ عقدہ کھلا کہ یہ کوئی نعرہ نہیں بلکہ مسلم ممالک کی تنظیم ہے۔ یہ سننے کے بعد جب ہم نے اس تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا تو سوچا اس کا نام ”او آئی سی“ کے بجائے پنجابی ہی میں ”سانوں کی“ ، ”مٹی پاؤ“ یا ”او کوئی نہیں“ ہونا چاہیے تھا۔

اب جاکر یہ معلوم ہوا کہ بھیا یہ پنجابی کا او آئی سی نہیں انگریزی کا OIC ہے، جو ”آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن“ (Organisation of Islamic Cooperation) کا مخفف ہے۔ یہ جان کر یہ بھی جانا کہ یہ تنظیم مسلمانوں کے مفادات تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ تو ہماری جان میں جان آئی کہ دنیا میں ایک تنظیم ہے جو چپکے چپکے سب سے چھپ کے ہم مسلمانوں کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔ ہمیں یقین ہیں کہ ہماری طرح آپ بھی اس تنظیم سے لاعلم ہوں گے، افسوس کی بات ہے، ایک تنظیم خاموشی سے آپ مسلمانوں مفادات کے لیے کام کر رہی ہے اور آپ کو اس کی خبر ہی نہیں۔ چلیے ہم آپ کے علم میں اضافہ کیے دیتے ہیں۔

تو صاحب! یہ جو تنظیم ہے یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن یا ”تنظیم تعاون اسلامی“ جیسا کے نام سے ظاہر ہے تعاون کے لیے وجود میں آئی۔ کس سے تعاون کے لیے؟ یہ معاملہ صیغہ راز میں ہے۔ گمان ہے کہ اسے مسلم ممالک کے باہمی تعاون کے لیے قائم کیا گیا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ محض تعاون کے لیے اتنی بڑی تنظیم بنانے کی کیا ضرورت تھی، اس سے مراد مالی تعاون ہے تو یہ ایک کمیٹی بنا کر یا کمیٹی ڈال کر بھی کیا جاسکتا تھا، بس یہ مسئلہ ہوتا کہ کوئی ریاست مصر ہوجاتی کہ ”خالہ پہلی کمیٹی میں لوں گی“ یا سعودی عرب کے فرماں روا کا مطالبہ ہوتا، ”لڑکے کی شادی ہونے والی ہے، یمن پر حملہ بھی کرنا ہے، خرچہ ہی خرچہ، پہلی کمیٹی مجھے دینا“ دوسری طرف ایران کا اصرار ہوتا، ”حوثیوں کو میزائل دینا ہیں، شام میں لڑاکے بھیجنا ہیں، اخراجات ہی اخراجات، پہلی کمیٹی مجھے ہی دو۔“ ایسا ہوتا بھی تو کیا تھا یہ مسئلہ قرعہ اندازی کے ذریعے حل ہوجاتا۔

بہ ہر حال، جو ہونا تھا ہو گیا۔

یوں تو مسلمانوں پر سے برا وقت جاتا ہی نہیں لیکن جب یہ زیادہ برا ہو کر آتا ہے تو او آئی سی ایک عدد اجلاس ضرور منعقد کرتی ہے اور بھیے یہ اجلاس بلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی عام سی دعوت ہے کہ کہہ دیا ”منگل کو ننھے کی ختنہ ہے، خوشی میں کھانا کھلا ریا ہوں، دیکھیو بھولیو متی جرور آئیو“ یا محلے کی کوئی میٹنگ ہے کہ گھر گھر پرچہ پہنچ گیا، ”محلے میں کتوں کی بہتات اور کتوں کے کاٹنے کے واقعات کے پیش نظر رات آٹھ بجے ببن بھائی (وضاحت: نگینہ قیامت کے والد صاحب نہیں انور باؤلے کے ابا ببن) کے گھر میٹنگ بلائی گئی ہے (دوسری وضاحت: کتوں کی نہیں اہل محلہ کی) سب اہل محلہ ٹیم پر آ جائیں اور نہ آئیں تو کتوں کا کتا پن برداشت کرتے رہیں ہماری بلا سے“ اور اس بلاوے اور پرچے پر لوگ پہنچ گئے۔

او آئی سی کے اجلاس کے لیے پہلے سوچا جاتا ہے، خوب غور کیا جاتا ہے، پھر باہمی مشورے ہوتے ہیں کہ اجلاس ابھی بلائیں یا اس بھی برے وقت کا انتظار کریں؟ بلائیں تو سب کو بلائیں یا فلاں فلاں ریاست کو رہنے دیں کیوں کہ اس کے حکم راں کی پھوپھو کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی تو ہمیں پوچھا تک نہیں تھا۔ پھر جب فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اجلاس بلانا ہے تو چائے پانی، خاطر مدارات کی تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔ پھر رابطے کیے جاتے ہیں۔

کوئی حکم راں کہتا ہے بھئی فلاں تاریخ کو اجلاس مت رکھنا میں نہیں آ پاؤں گا، آپا کی بارات ہے، کوئی جواب دیتا ہے ”ٹھیک ہے آ جاؤں گا، مگر کھانے میں کیا ہوگا“ کہیں سے جواب آتا ہے، ”پوچھ کر بتائیں گے۔“ بالآخر او آئی سی کے تمام رکن ممالک اجلاس پر تیار اور آنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو کہیں جاکر اجلاس طلب کیا جاتا ہے، اور تنظیم کے رکن ممالک کو کچھ یوں دعوت دی جاتی ہے، ”آپ جانتے ہی ہیں کہ موئے اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کر دیا ہے، اب دنیا بھر کے مسلمان پھیل گئے ہیں اور بہت چراند کر رہے ہیں کہ مسلم حکم راں کچھ نہیں کر رہے۔ تو ایسا ہے کہ کہیں مل بیٹھتے ہیں، مذمت وزمت کر لیں گے، بہت دنوں سے ملے بھی نہیں، گپ شب بھی ہو جائے گی۔“ اس دعوت پر اجلاس منعقد ہوتا ہے، جس میں سارے رکن ممالک مل جل کر جو قرارداد منظور کرتے ہیں اس کے الفاظ کچھ بھی ہوں مفہوم یہ ہوتا ہے :

”یہ اجلاس مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی بہت زور سے مذمت کرتا ہے۔ اگر اسرائیل نے اپنی ظالمانہ کارروائیاں بند نہ کیں نا تو ہم اور زور سے مذمت کریں گے، اور کوسنے دے دے کر اسے پریشان کردیں گے۔ شرافت کی زبان سمجھتا ہی نہیں بدتمیز۔ دیکھو بھائی اسرائیل! غزہ پر اپنے حملے فوری بند کردو، دیکھو بیٹا! تم حملے کرتے کرتے تھک گئے ہو گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑتے لڑتے بیمار ہو جاؤ۔ بہت کھیل لیے، بس اب گھر جاؤ، شاباش، اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔ اور دیکھو! آئندہ حملے دو تین سال بعد کرنا، ہم جلدی جلدی اجلاس نہیں بلا سکتے، بہت وقت اور پیسہ ضائع ہوجاتا ہے یار، کچھ تو خیال کرو۔“

ایسی قراردادوں پر یہ حکم راں سینہ پھلا کر داد بھی وصول کرنا چاہتے ہیں۔

او آئی سی کی بابت مسلمانوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ مصیبت کے وقت مسلمانوں کے کام آئے گی۔ اس غلط فہمی کا سبب تنظیم کے نام میں موجود حرف ”آئی“ ہے۔ چناں چہ کشمیر ہو یا فلسطین، عراق ہو یا افغانستان، چیچنیا ہو یا بوسنیا، شام ہو یا عراق، جب اور جہاں مسلمان مارے جا رہے ہوں امت مسلمہ امید باندھ لیتی ہے کہ او آئی سی بس اب آئی۔ جب وہ نہیں آتی تو شور مچاتے ہیں اور برہم ہو جاتے ہیں کہ دہائی ہے دہائی تو کیوں نہ آئی۔

یہ کہنا غلط ہوگا کہ او آئی سی مشکل وقت میں نہیں آتی، وہ آتی تو ہے لیکن ”جائے وقوعہ“ پر نہیں بلکہ دور دور یعنی پنجاب کے بس کنڈیکٹروں کی زبان میں ”باہروں بار“ اجلاس کر کے واپس چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اتنا بھی نہ آتی تب بھی اس پر غصہ کرنے کا کوئی جواز نہیں، ہم نے بتایا تو او آئی سی مسلمانوں کے مسئلے حل کرنے کے لیے نہیں تعاون کے لیے بنی ہے اور جن سے تعاون کے لیے بنی ہے ان سے پورا تعاون کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments