شیخوپورہ کی سیاست اور ”غدار“ جاوید لطیف


شیخوپورہ پانچ لاکھ تیس ہزار کی آبادی پر مشتمل پاکستان کا سولہواں بڑا شہر ہے۔ ضلع کی آبادی چونتیس لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ یہ شہر شہنشاہ جہانگیر نے آباد کیا۔ اس سے پہلے اس علاقے کو مقامی جٹ برادری کی نسبت سے ’ورک گڑھ‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں مغل بادشاہ اکبر کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی زمینداروں نے جن کی قیادت باغی سانول شہید کا پوتا اور فرید شہید کا بیٹا دلا بھٹی کر رہا تھا، ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ایسی زبردست مزاحمت دکھائی کہ اکبر کو اپنا دارالحکومت پندرہ سال کے لئے لاہور منتقل کرنا پڑا اور وہ پھر بھی انہیں شکست نہ دے سکا۔

شہنشاہ اکبر نے دلا بھٹی کو جو کہ جہانگیر کا ہم عمر اور رضائی بھائی بھی تھا، مذاکرات اور صلح کے بہانے دھوکے سے بلا کر گرفتار کیا اور بعد میں ( 1599 ) اس بہادر کو تیس سال کی عمر میں دلی دروازے کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد جہانگیر شکار کے لئے شاہی فوج سمیت ادھر قیام کرتا رہا۔ بہانہ شکار کا اور اصل مقصد اس علاقے کی حفاظت کرنا تھا۔ کچھ سال بعد اس نے شیخوپورہ شہر ( 1607 ) بسایا، پھر قلعہ کی بنیاد رکھی ( 1619 ) اور مستقل فوج تعینات کر دی۔

مغل حکومت کے کمزور ہوتے ہی بھٹیوں نے اس علاقے میں دوبارہ سر اٹھا لیا اور رنجیت سنگھ کو اس علاقے پر قبضہ کرنے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب انگریز حکومت قائم ہوئی تو راوی اور چناب کے درمیان ”رچنا دوآب“ تمام علاقے کو ایک ہی ضلع میں سمو دیا گیا جس کا ہیڈکوارٹر پہلے پہل شیخوپورہ ہی تھا۔ پھر سیالکوٹ اور گوجرانوالہ دو اضلاع بنائے گئے۔ جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے بعد ان اضلاع میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ دوردراز کے شہروں اور دیہاتوں میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزٹ آف انڈیا میں ان کا خصوصی طور پر ذکر ہے۔ 1919 میں اس کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔

تقسیم ہند میں یہ ضلع بہت بری طرح متاثر ہوا۔ اس کا سیالکوٹ سے لاہور تک کا وسیع علاقہ کراس بارڈر ہجرت میں بری طرح تباہ ہوا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں لٹے پٹے مہاجر ادھر آ کر آباد ہوئے۔ حکومت سے ہاتھ ملا کر کچھ مقامی افسران اور سیاسی راہنماؤں نے ان مہاجرین کی آبادکاری میں خوب لوٹ مار کی۔ عوام ان کو پنج پیاروں کے نام سے پکارتی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد جب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1970 میں پہلے الیکشن ہوئے تو شیخوپورہ کا باغیانہ رویہ ان کے نتائج میں بھی منعکس تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ مسلم لیگ کنونشن اور قیوم لیگ کے محمد حسین چٹھہ، منظور حسین اور عبدالطیف جیسے بڑے بڑے نام، عام ورکرز سے شکست کھا گئے۔ بھٹو صاحب خود بھی اتنے پر امید نہیں تھے۔ کمپنی باغ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے امیدوار آڑھتی چوہدری ممتاز کو جسے غلہ تولنے والے کام کی نسبت سے لوگ ’ممتاز تولا‘ کہہ کر پکارتے تھے، مخاطب کر کے کہا تھا کہ اگر تم محمد حسین چٹھہ کو ہرا دو تو تمہیں وزیر بنا دوں گا۔

اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ کنونشن لیگ کا پرانا سیاستدان تولے سے آدھے ووٹ ہی حاصل سکا۔ قومی اسمبلی کی چاروں سیٹیں پیپلز پارٹی کے چوہدری ممتاز، حامد یاسین، چوہدری اقبال اور رائے شہادت علی جیت گئے۔ سب سیٹوں پر جیت کا فرق پچاس فیصد سے زائد ہی تھا۔ وعدہ کے عین مطابق چوہدری ممتاز احمد کو خوراک و زراعت کا وزیر بنا بھی دیا گیا۔

صوبائی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ سیٹیں پیپلز پارٹی اور دو آزاد امیدواروں نے جیتیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان دونوں پر پی پی پی کا کوئی امیدوار موجود ہی نہیں تھا۔ خانقاہ ڈوگراں کی سیٹ پر یہ حالت تھی کہ 41000 ہزار ووٹ کے مقابلے میں کوئی امیدوار ایک ہزار کے ہندسے کو چھو بھی نہ سکا۔

1988 کے الیکشن میں بھی شیخوپورہ کو پنجاب کا لاڑکانہ کہا گیا۔ قومی اسمبلی کی پانچوں سیٹیں پیپلز پارٹی جیت گئی۔ پنجاب اسمبلی کی گیارہ میں سے صرف دو سیٹوں پر سرکاری سرپرستی والی آئی جے آئی کے امیدوار کامیاب ہو سکے۔

اسٹیبلشمنٹ کے لیڈرز، ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیا الحق کی سیاست کے خلاف عوام کی بغاوت کا یہ منہ بولتا ثبوت تھا۔

سب جانتے ہیں 2002 کے الیکشن بہت ہی کنٹرولڈ تھے۔ امیدوار کے کاغذات جمع کروانے سے رزلٹ تک، ہر کام میں انتظامیہ کی مداخلت موجود تھی۔ بی اے پاس کی شرط کی وجہ سے مسلم لیگ نون کے جاوید لطیف جیسے بڑے بڑے نام باہر بٹھا دیے گئے۔ پرویز مشرف و پرویزالٰہی کے حامی میٹرک پاس امیدوار حکومتی مدد کے ساتھ ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کر رہے تھے۔ بھر پور کوشش کے باوجود مشرف لیگ ( مسلم لیگ قاف) کے سربراہ میاں اظہر اپنی سیٹ بھی نہ جیت گئے۔

تمام اقسام کی دھاندلیوں کے باوجود نون لیگ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیراعلیٰ کے قریبی دوست کے خلاف پہلی بار الیکشن لڑنے والے سجاد حیدر گجر ایک ایسی سیٹ جیت گئے جس پر اکثر آزاد امیدوار ہی کامیاب ہوتے تھے۔ جاوید لطیف والی سیٹ پر اسٹیبلشمنٹ کے پیارے، پولیس افسروں کے امیدوار صرف پانچ ہزار سے جیت سکے۔

2008 اور اس کے بعد والے دونوں الیکشن مسلم لیگ (ن) کے جاوید لطیف لمبی اکثریت سے اس سیٹ کو جیت رہے ہیں۔

مغلیہ دور سے لے کر اب تک شیخوپورہ کی سیاست ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ مخالف رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں کے معاشی، سماجی اور معاشرتی حالات ہیں۔ یہاں بڑے بڑے زمیندار نہیں ہوتے۔ صرف چند ایکڑوں والے کسان ملتے ہیں۔ صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد اسی فیصد سے زیادہ ہے۔ بہت سے لوگ لاہور میں سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں کرتے ہیں۔ لوگ شریف بندے کو ووٹ دیں، نہ دیں، بدمعاش کو ووٹ نہیں دیتے۔ یہاں کے لوگ کسی کی چودھراہٹ نہیں مانتے۔ ملکی اور مقامی سطح پر زبردستی و زیادتی کرنے والوں کو الیکشن میں الٹا دیتے ہیں۔ بہت بڑے بڑے نام ایک دو الیکشن کے بعد بے نام ہو جاتے ہیں۔

شیخو پورہ شہر کا لیڈر جاوید لطیف مسلم لیگ (ن) کے غداران وطن میں ایک نیا اضافہ ہے اور اس ناکردہ جرم کی غیر علانیہ سزا بھی بھگت رہا ہے۔ اس الزام کے بعد حلقہ میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکڈ ویڈیو اس کو عوام میں ایک طاقتور نظریاتی ورکر کے طور پر مقبول کر گئی ہے۔ پارٹی کے وہ لیڈر جو دھڑے بندی کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں، ان کی اور مریم نواز کی اس کے گھر آمد اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اعلیٰ قیادت کا بھی وہی موقف ہے جس کی وجہ سے جاوید لطیف زیرعتاب ہے۔

وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ پنجاب طاقت اور لالچ کے سامنے جھکتا ہے انہیں ستر کے بعد عمومی اور 1997 کے بعد خصوصی طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ دلا بھٹی اس علاقے کا رہنے والا تھا۔ وہ دلا جس کی پھانسی پرایک ایسا شعر بھی ملتا ہے جو کہ شاہ حسین سے منسوب ہے اگرچہ یہ ان کی طرز ہی نہیں لیکن وہ حسب حال ہے اور آج کے فتویٰ لگانے والوں کو بھی غور سے پڑھنا چاہیے۔

میں ڈھانواں دلی دے کنگرے، نالے کراں لہور تباہ نی
سنے اکبر بنھاں بیگماں، پانواں پنڈی والے راہ نی۔
(ڈھانواں، توڑ دوں، گرا دوں۔ کنگرے، کلس، تاج۔ بنھاں، قید کرلوں۔ پانواں، اس راستے پر روانہ کردوں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments