بنتے بگڑتے دائروں کے درمیاں


کچھ برس قبل برادر مکرم ظفر محمود کے افسانوں کا مجموعہ ’دائروں کے درمیاں‘شائع ہوا تھا۔ ظفر صاحب کے سفر حیات میں عہدوں اور مناصب کا ذکر سوئے ادب کا مضمون ہے کہ عہدے کسی انسان کا مقام متعین نہیں کرتے، فرد البتہ اپنے کردار سے کسی منصب کو توقیر بخشنے کا اختیار رکھتا ہے۔ آزادی موہوم کی سات دہائیوں میں کوڑیوں چیف سیکرٹری اور وفاقی سیکرٹری گزرے ہوں گے۔ شیخ محمد اکرم کی ژرف نگاہی کا ثانی کون ہو گا جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ دستاویز کر دی۔ شیخ منظور الٰہی جیسی دلکشا نثر کتنوں کے حصے میں آئی۔ مختار مسعود جیسا لکھنے والا کہاں سے ڈھونڈیں گے جس نے وسعت مشاہدہ کو کشاد نظر سے مہمیز کر کے اردو نثر کا آئینہ صیقل کر دیا۔ ابھی ہمارے ہم عصر برادر عرفان جاوید کی تیسری کتاب ’عجائب خانہ‘ شائع ہوئی ہے۔ سبحان اللہ! دقیق موضوعات پر کیا قاموسی گرفت ہے۔ جواہر کا کوئی پارکھ ہو تو یہ کتاب نصاب کے اعلیٰ ترین درجوں کا حصہ ہونی چاہیے۔ شاید صحرائے تعصب کی تنگی چشم حسود کا کچھ درماں ہو سکے۔

ظفر محمود کے مجموعے ’دائروں کے درمیاں‘ کا ذکر تھا۔ ظفر صاحب نے اقتدار کی غلام گردشوں میں چالیس برس کے مشاہدات کو سادہ و پرکار کہانیوں کے دائروں میں بیان کر دیا ہے۔ دائرہ تکمیل کا استعارہ ہے بشرطیکہ 360 زاویوں میں ہر نقطے پر درست سمت کا التزام کیا جائے۔ راہ شوق میں صرف ایک غلط قدم سے دائرہ مختل ہو جاتا ہے، مرکزے سے ایک ڈگری کا انحراف ریاضی کی زبان میں لامحدود کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔ یہ تو رہی دائرے کی ایک تشریح۔ سماجی ارتقا کے زاویے سے دیکھیں تو دائرے کا سفر کوہلو کے بیل کی لاحاصلی سے بھی نسبت رکھتا ہے۔ قوموں کے سفر میں چکردار زینوں جیسا ارتفاع درکار ہوتا ہے۔ تاریخ کا ایک مرحلہ مکمل ہونے پر ترقی کے اشاریوں کا ایک منزل اوپر اٹھنا لازم ہے ورنہ دائروں کے مسافر غبارِ راہ میں گم ہو جاتے ہیں۔ قیاس ہے کہ آپ جیسے زیرک پڑھنے والوں کو خیال آتا ہو گا کہ یہ شخص روزمرہ سیاست پر رائے دینے بیٹھتا ہے تو شعر و ادب اور تاریخ کی بھول بھلیوں میں کیوں جا نکلتا ہے۔ عزیزو، اس کے دو سبب ہیں۔ ایک تو یہ کہ گردوپیش کی کثافت کے پیش لفظ میں اثبات کے بیان سے اپنا وضو قائم کرتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ آپ ہم، حتمی تجزیے میں، گوشت پوست کے پتلے ہی ہیں نا! مسائل کو گرہ دیں تو لہو رستا ہے پوروں سے۔ درویش فرد کی درماندگی اور سفر کی رائیگانی کی حکایت کہنے سے پہلے آپ کی گود میں امید کا ہمکتا ہوا بچہ ڈال دیتا ہے۔ پابلو نیرودا نے شاعر کا منصب بیان کرتے ہوئے کہا تھا،

Give me silence, water, hope.

وطن عزیز کی تازہ خبر یہ ہے کہ آٹھواں دائرہ بننے سے پہلے بگڑ گیا ہے۔ 1958 تک کی پاکوبی پہلا دائرہ تھا۔ دوسرا دائرہ 1971 کے تاوان پر ختم ہوا۔ تیسرے دائرے میں ساڑھے پانچ برس کی نیم جمہوری آزمائش تھی۔ چوتھا دائرہ بستی لال کمال کی فضاؤں میں جل بجھا۔ پانچواں دائرہ اکتوبر 99 میں نشٹ ہوا۔ چھٹا دائرہ اگست 2008 تک محیط تھا۔ ساتویں دائرے کی پخت و پز 25 جولائی 2018 پر منتج ہوئی۔ بام حرم کے طیور خبر لائے تھے کہ صاحبان ذی وقار نے 2028 تک کی بساط مرتب کر رکھی ہے۔ چرخ ناہنجار کا برا ہو کہ تیسرا برس مکمل ہوتے ہوتے مہروں کی ترتیب میں تزلزل آ گیا ہے۔ برسوں کی تربیت سے پروردہ خوش رنگ کبوتر بے بال و پر طائر ثابت ہوا۔ معیشت کی بدھیا بیٹھ گئی۔ دو کروڑ شہری بے روزگار ہو گئے۔ مہنگائی نے دوہرے ہندسے کو جا لیا۔ ترقیاتی منصوبوں کا کیا ذکر، روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا دوبھر ہو گیا۔ انتظامی بندوبست مفلوج ہو گیا۔ احتساب کی مستعار بندوق رنجک چاٹ گئی۔ پورس کے ہاتھی اپنی ہی صفوں کو روند رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی دلدل میں اتر گئی۔ افغانستان کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ کشمیر پر داخلی اتفاق رائے کے لالے پڑے ہیں۔ ہزار چاؤ سے سامری کا جو بچھڑا نخاس سے گھر لائے تھے، اس کا رنگ روپ دھوپ کی سہار رکھتا ہے اور نہ بارش کی برداشت۔ نتیجہ یہ کہ دس سالہ کھیل تو رہا ایک طرف، 2023 کی افراتفری میں بیک وقت بہت سے آم پال میں لگا دیے ہیں۔ لطف یہ کہ ایک بھی دانہ باہم پیوند کی سرشت نہیں رکھتا، جنگلی جھاڑ جھنکاڑ ہے۔

ایک صاحب کشف ہماری زمین پر اترے تھے۔ برسوں صحافیوں کو موروثی سیاست کی خامیاں سمجھاتے رہے، جمہوری مفاہمت کو مک مکا کی اصطلاح بخشی۔ گزشتہ آمریت کے عطا کردہ این آر او کو عدالت عظمیٰ نے منسوخ کر دیا تھا۔ مگر انگریزی کے یہ تین حرف اہل سیاست کے گلے کا طوق بنا دیے۔ نمائندہ سیاسی حکومتوں کو چور اور گرہ کٹ کی باریاں بتاتے رہے۔ لطف یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں جو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے، چور اور لٹیرے سیاست دان بندھے ہاتھوں کے باوجود ایک کے بعد ایک بازی جیت رہے ہیں۔ ایک صاحب کو نااہل قرار دے کر تڑی پار کیا تھا، وہ سمندر پار بیٹھے ملکی سیاست کی صورت گری کر رہے ہیں۔ دوسرے صاحب کو کرپشن کا استعارہ بنایا تھا، وہ بیمار بوڑھا قومی سیاست کی نکیل تھامے بیٹھا ہے۔ دائروں کے بناؤ بگاڑ میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس ملک کے دستور میں لکھا ہے کہ اس قوم کی سمت متعین کرنا عوام کے نمائندوں کا کام ہے۔ عوام کے حقیقی نمائندے شفاف انتخابی عمل ہی سے طے پا سکتے ہیں۔ عقبی دروازوں پر دبے قدموں کی آہٹ وہ از کار رفتہ کھیل ہے جس نے قوم کی ساکھ برباد کر رکھی ہے۔ عوام کا معاشی اور تمدنی امکان تباہ کر دیا ہے۔ دائرے بنانے کا شوق ایسا ہی فراواں ہے تو کوہلو کے بیل کی نظر بند مشق کی بجائے قوم کی اجتماعی فراست پر بھروسہ کیجئے۔ اس ملک کے عوام نام نہاد ریاستی اور خود کاشتہ سیاسی قیادت سے کہیں بہتر سیاسی شعور رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments