علامہ مشرقی ، ’تذکرہ‘ اور نوبل پرائز !


\"khizerبہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ برسوں پہلے 1924ءمیں علامہ عنایت اللہ مشرقی صاحب کو 36سال کی عمر میں اپنی کتاب \” تذکرہ \” پر نوبل پرائز کے لئے نامزد کیا گیا تھا – لیکن نوبل کمیٹی نے شرط یہ رکھی تھی کہ علامہ صاحب اس کتاب کا کسی یورپی زبان میں ترجمہ کروائیں- مگر علامہ مشرقی نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح وہ نوبل پرائز نہ حاصل کر سکے – تذکرہ کتاب میں علامہ صاحب نے قران اور قدرت کے قوانین کا سائنسی تجزیہ کیا ہے – اس کتاب کا ترجمہ نہ کروانے کی ان کی کیا توجیح ہو گی یہ سمجھ نہیں آتی – کیونکہ وہ نہ صرف روایتی ملا نہ تھے بلکہ ان کے بہت خلاف تھے
علامہ عنایت مشرقی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے – ایک بہت بڑے ریاضی دان کے علاوہ وہ سیاسی ، سماجی اور مذہبی سکالر بھی تھے – انگلستان میں اپنی تعلیم کے دوران کیمبرج یونیورسٹی میں ان کی دوستی سر جین جونز اور سر نیوٹن جیسے بڑے سائنسدانوں سے ہوئی – جنہیں علامہ صاحب نے اسلام اور اپنے پیغمبر صلعم کے بارے میں آگاہ کیا – اور شنید ہے انہوں نے اسلامی کتب کے مطالعہ کے بعد علامہ صاحب سے جنگ کے دوران قید ہونے والی خواتین سے سلوک پر سوال اٹھایا – جس پر علامہ بہت پریشان ہوے اور کچھ عرصہ تعلیمی سلسلے کو منقطع کر کے قران اور حدیث کے مطالعہ میں اپنے آپ کو غرق کر لیا – اس کے بعد ہی انہوں نے تذکرہ اور ملا کا غلط مذہب نامی کتب لکھیں – اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حدیثوں میں جنگی قیدی خواتین سے جس سلوک کا ذکر ملتا ہے کہ انہیں اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکتا ہے قران میں ایسے سلوک کا \"enayat\"ذکر ہر گز نہیں ہے – اللہ نے تو صاف کہا ہے کہ قیدی خواتین کو جزیہ لے کر دشمنوں کے حوالے کر دیں – اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکاری ہوں تو صلح رحمی کرتے ہوے بغیر جزیہ کے دشمن کو ان کی خواتین واپس کر دیں ۔ ہمارے سیدی مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں حدیث والے ورژن کو ہی مستند لکھا ہے اور اس سلوک کی انتہائی بھیانک شکل کا مظاہرہ آجکل داعش کے جنگی جنونی کر رہے ہیں
علامہ مشرقی صاحب صرف 25سال کی عمر میں کالج پرنسپل بن گئے تھے اور 29 سال کی عمر میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکریٹری بن گے تھے – بعد میں انہیں کئی بڑے عہدے آفر ہوے جیسے افغانستان کی سفارت مگر انہوں نے ایسی کسی آفر کو قبول نہیں کیا بلکہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر 1930ءمیں خاکسار تحریک کی داغ بیل ڈالی – اس تحریک کا بنیادی مقصد غریب عوام کی بلاتفریق مذہب و فرقہ خدمت کرنا تھا – اس تحریک کیلئے کئی دفعہ وہ جیل بھی گئے۔ وہ انڈیا کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے اور اسے انگریزوں کی سازش قرار دیتے تھے – علامہ مشرقی نے 1956ءمیں منٹو پارک میں پیش گوئی کی تھی کہ اگر مشرقی پاکستان کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو یہ علیحدہ ہو جائے گا اور ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments