دھاندلی، پاکباز ووٹنگ مشینیں اور دست ہنر مند


علامہ اقبالؒ نے کہا تھا؎
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

سال ہا سال سے عوامی رائے کا تعین ہمارے لیے ایک نہ حل ہونے والا مسئلہ کیوں بن گیا ہے؟ انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ انگلیاں کیوں اٹھتی ہیں؟ نتائج کیوں نا معتبر ٹھہرتے ہیں؟ ووٹر کو کیوں یقین نہیں ہوتا کہ اس کا ووٹ واقعی اس کے پسندیدہ امیدوار کے حق میں گنا جائے گا؟ تمام تر حفاظتی تدابیر اور ناکہ بندیوں کے باوجود انتخابات کی ساکھ کیوں قائم نہیں ہو رہی؟ برسوں سے ہم ان گنجلک سوالوں کی گرہیں کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں ’جن کا واضح اور غیر مبہم جواب ذرا سی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا طفل مکتب بھی جانتا ہے۔ علامہ کے شعر کا پہلا مصرع قومی سطح کے اسی بے مثل ”تجاہل عارفانہ“ کی ترجمانی کرتا ہے۔

برسوں کے سفر رائیگاں کے بعد آج کل ہم ایک اور سراب کی طرف لپک رہے ہیں۔ اس کا نام ہے ”الیکٹرانک ووٹنگ مشین“ (ای وی ایم) ۔ وزیراعظم عمران خان نے مشینی انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی کے تدارک کا شافی اور حتمی حل قرار دیا ہے۔ قومی تاریخ کے تمام انتخابات کو داغدار قرار دیتے ہوئے خان صاحب نے صرف 1970 ء کے انتخابات کو ہر پہلو سے آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دیا ہے۔ عمومی تاثر بھی یہی ہے لیکن دو آرا بہر حال موجود ہیں۔ بحث سے گریز کرتے ہوئے وزیراعظم کے بیان کو مبنی بر صداقت مان لیں تو دیکھنا چاہیے کہ اس وقت ہمارے انتخابی عمل میں ایسی کون سی معصوم و پاکیزہ روح دوڑ رہی تھی کہ نہ کوئی غبار اٹھا، نہ کوئی تلاطم بپا ہوا، نہ کوئی دھند چھائی؟

سنہ 1970 کے انتخابات تو بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر قومی سطح کا پہلا تجربہ تھے۔ ان حفاظتی تدابیر کا تصور تک نہ تھا جو آج قلعہ بندیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ انتخابی فہرستیں دس برس قبل، 1961 ء کی مردم شماری کی بنیاد پر بنیں۔ یہ فہرستیں کا تب صاحبان کی ہاتھ کی لکھی اور غلطیوں سے پر تھیں۔ انہیں بازار کے عام چھاپہ خانوں میں طبع کیا گیا تھا۔ ووٹر کے پاس اپنی شناخت کی کوئی دستاویز نہ تھی۔ شناختی کارڈ کا سلسلہ بہت بعد میں شروع ہوا۔ کسی ووٹر کی تصویر فہرست کا حصہ نہ تھی کہ تب نادرا نے جنم نہیں لیا تھا۔ گنتی کا سارا عمل شخصی اور دستی تھا۔ ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ ترسیل نتائج کا برقی نظام (آر ٹی ایس) بروئے کار آتا۔ نہ موبائل فون تھے کہ نتائج کی فوری فراہمی ممکن ہوتی۔ نوزائیدہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ لمبے تھے نہ دانت تیز۔ انتخابی عمل کا سارا ڈھانچہ غیر تربیت یافتہ عملے اور درمیانے درجے کے سرکاری اہلکاروں پر مشتمل تھا۔ مواصلات کے تیز رفتار ذرائع ناپید تھے۔ پولنگ سٹاف کو سرکاری سواری بھی میسر نہ تھی۔ کہیں بجلی تھی ’کہیں لالٹینوں کی روشنی میں ووٹ گنے جا رہے تھے۔ پی ٹی وی کے سوا رنگا رنگ چینلز کا نگارخانہ بھی نہ تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود 7 دسمبر کو منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کا منظرنامہ 8 دسمبر کی شام تک واضح ہو چکا تھا۔

بچے کھچے پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا ناقوس 1977 ء میں بجا۔ 1970 ء کے برعکس یہ انتخابات ’1973 کے آئین کے بعد جمہوری حکومت کے زیر اہتمام منعقد ہوئے۔ انہیں دھاندلی کا شکار قرار دیا گیا۔ ذمہ داری حکمران جماعت بلکہ براہ راست وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سر آئی۔ کسی طرف سے جنرل ضیاء الحق یا معروف معنوں میں ”اسٹیبلشمنٹ“ پر مداخلت بے جا کا الزام نہ لگا۔ منصفانہ انتخابات کے نتائج یحییٰ خان نے نہ مانے اور ملک ٹوٹ گیا۔ غیر منصفانہ انتخابات کے نتائج اپوزیشن نے نہ مانے۔ ایک عوامی تحریک اٹھی جو حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی بہا لے گئی۔ اندھی طاقت کے زور پر عوامی رائے کو کچلنے والی مہمات ہوں یا نیک مقاصد کے لئے بپا ہونے والی تحریکیں، ساحلوں کے اندر بہنے والا منظم دھارا نہیں، سیلاب کا منہ زور ریلا ہوتی ہیں۔ ریلوں کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ تند خو ہوائیں انہیں کن راستوں پر ڈال دیں گی۔ پہلے انتخابات کے بعد طاقت آزمائی، سقوط ڈھاکہ کی رسوائی دے گئی۔ دوسرے انتخابات کے بعد عوامی معرکہ آرائی، گیارہ سالہ آمریت کی شب طویل میں ڈھل گئی۔

پھر دھاندلی کے الزامات کی برکھا برستی ہی چلی گئی۔ ہر انتخابی مشق کے بعد ہم لنگر لنگوٹ کس کے، دھاندلی کے مرض کہن کی چارہ گری کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جہاں جہاں سے کسی ڈاکٹر، حکیم، وید، سنیاسی کا نسخہ ہاتھ لگا، آزما ڈالا۔ ہر نام کی ویکسین کی کئی کئی خوراکیں لگوا لیں، لیکن دھاندلی کا سخت جان وائرس، اپنی جون بدلتا اور توانا ہوتا گیا۔ بنگلہ دیش نے غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے نگران حکومت کا تصور دیا۔ ہم نے کہا: بس یہی نسخہ کیمیا ہے۔ بنگلہ دیش تو 2011 میں اس تجربے سے تائب ہو گیا۔ اب وہاں برسر اقتدار حکومت (سیاسی جماعت) ہی الیکشن کراتی ہے۔ یہی نظام ساری دنیا میں رائج ہے۔

ہم نے نگرانی کے نظام میں نئے پھول ستارے ٹانکے۔ پیچ در پیچ قانون سازی کی۔ آئین تک بدل ڈالا۔ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کی لغت کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے تابدار ہیرے تلاش کیے ۔ ان ہیروں نے رنگا رنگ موتیوں کی مالائیں پرو کر اپنی کابینائیں بنا لیں۔ اعلیٰ عہدوں کی مراعات اور جاہ و جلال سے فیض یاب ہوئے۔ دھاندلی نہ رکی۔ تب نادرا کی مشینی فہرستوں کو ضروری قرار دیا گیا۔ دھاندلی نہ رکی۔ مشینی انتخابی فہرستوں میں نام اور شناختی کارڈ کے علاوہ تصویر بھی لگا دی گئی۔ دھاندلی نہ رکی۔ حکم ہوا کہ ہر ووٹر اپنا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہمراہ لائے۔ دھاندلی نہ رکی۔ پولنگ سٹیشنوں پر پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج تعینات ہو گئی۔ دھاندلی نہ رکی۔ ہم نے ایک زیرک اور نیک نام ریٹائرڈ جج کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیا۔ دھاندلی نہ رکی۔ ہم نے جامع انتخابی اصلاحات پر مشتمل الیکشن ایکٹ نافذ کر دیا۔ دھاندلی نہ رکی۔ ہم نے انتخابی نتائج کی فوری ترسیل کو انسانی ہاتھ کی کرتب کاری سے محفوظ کرنے کے لئے آر ٹی ایس ایجاد کر لیا۔

سنہ 2018 ء میں نتائج مرتب ہونے کے اولین مرحلے میں ہی آر ٹی ایس کی نبضیں ڈوب گئیں۔ دھاندلی نہ رکی۔ ہم نے حکم دیا کہ نتیجہ مرتب ہوتے ہی پریذائیڈنگ افسر اپنے سیل فون سے فارم 45 کی تصویر لے کر متعلقہ ریٹرننگ افسر کو بھجوائیں۔ ڈسکہ میں اس کا پہلا تجربہ ہوا تو گہری دھند نے آ لیا۔ درجنوں پریذائیڈنگ افسران گھپ اندھیرے میں بھٹک گئے۔ معجزاتی طور پر وہ سب ایک طلسماتی فارم ہاؤس اور اگلی صبح اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ دھاندلی نہ رکی۔ مختصر یہ کہ ووٹ کی حرمت کے لئے تعمیر کیا جانے والا ہر قلعہ، کسی اور کا مورچہ بن گیا۔ اپنی تسکین قلب کے لئے وضع کیا گیا ہر فارمولہ کسی اور کے لئے ہتھیار بن گیا۔ دھاندلی صرف اس وقت رکی جب ”دست ہنر کار“ نے ایسا چاہا۔

انتخابات کی بے چہرگی اور نتائج کی بے اعتباری کا راز، سب پہ آشکار ہے۔ ہم نہ جانے کیوں بھانت بھانت کی دو اؤں، ویکسینوں، معجونوں، خمیروں اور کشتوں کے جنجال میں پڑے ہیں۔ روس کے مرد آہن جوزف سٹالن سے منسوب کوئی ایک صدی پرانا قول ہے :

The people who cast the votes don’t decide an election, the people who counts the votes do.

”انتخابات کا فیصلہ ووٹ ڈالنے والے عوام نہیں، ووٹوں کی گنتی کرنے والے افراد کرتے ہیں“ ۔ کسی اور کا ہے یا نہیں، کم از کم ہمارا مسئلہ یہی ہے۔ تازہ ترین آشوب آرزو کا نام ہے ”مشینی ووٹنگ“ ۔ بصد شوق یہ بھی آزما لیں لیکن مت بھولیں کہ مشین اپنی تمام تر پارسائی، پاکبازی اور پاک دامانی کے باوجود سر شام اپنی بے حرمتی کا ماتم کرتی دکھائی دے گی۔ اس لیے کہ
”سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے“
عرفان صدیقی صاحب کی خصوصی ارسال کردہ تحریر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments