جوتے مفت ملیں گے

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


گاؤں کے میراثی و صحافی میں اور کچھ مشترک ہے کہ نہیں، ایک قدرِ مشترک البتہ ہے۔ دونوں کو ہر آن ایک تازہ قصہ چاہیے تاکہ ان کی روزی و ریٹنگ و قلم و زبان چلتے رہیں۔

مجبوری یہ ہے کہ اس ملک میں جس کے ہاتھ میں بھی مرئی و غیر مرئی اختیاری ڈنڈہ ہے وہ اب پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے گھمانے لگا ہے۔ چنانچہ صحافی ہو کہ میراثی بات کو قصہ بنائے بغیر رہنا بھی نہیں اور ایسے ڈھنگ سے کہنا ہے کہ جن تک پہنچنی ہے پہنچ جائے اور گریبان بھی سلامت رہے۔

ایسے ماحول میں شاعری استعارات و گریز کی چلمن کے پیچھے بیٹھ کر اور حالاتِ حاضرہ کا نثری بیانیہ پرانے قصوں کے گیلے کپڑے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ جو سمجھے اس کا بھی بھلا، نہ سمجھے اس کا بھی بھلا۔

مثلاً جہانگیر ترین دباؤ گروپ کے پورے قصے کو ہی دیکھ لیں۔ کیسے غبارے میں ہوا بھری گئی اور کیسے اس غبارے کو دھاگے سے باندھ کر ہوا میں بلند کیا گیا اور کنٹرولڈ بیانیہ دھواں دھاری سے ماحول بنا کر وزیرِاعظم اور پھر وزیرِاعلی پنجاب سے ملاقاتوں کے بعد اس غبارے کو احتیاط سے نیچے اتار کر تہہ کر کے آئندہ استعمال کے لیے رکھ چھوڑا گیا۔

جو جو رستم و سہراب فرنٹ و بیک ڈور ملاقاتوں کے بعد باہر نکلا اس نے یہی کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ بات کا بتنگڑ تو بس میڈیا نے بنایا ہے جو ہمیشہ سے بادل دیکھ کر گھڑے پھوڑنے پر آمادہ رہتا ہے، یہ جانے بغیر کہ بادل گرجنے والے ہیں یا برسنے والے۔

جب ہم بچے تھے تو کراچی میں تفریح کی بس دو معقول جگہیں تھیں: چڑیا گھر یا کلفٹن کا ساحل۔ ایک دن جانے ہم سب کو کیا بخار چڑھا کہ صبح سے ہی شور کرنا شروع کر دیا کہ آج تو کلفٹن جانا ہے۔

کیا ماموں کیا خالہ کیا نانی۔ شور مچا مچا کر سب کے کان بہرے کردیے۔ کلفٹن جانا ہے، نہیں لے جاؤ گے تو ہم کھانا نہیں کھائیں گے، خان لالہ کی دوکان سے گھر کا سودا نہیں لائیں گے، کوئی پانی بھی مانگے گا تو نہیں پلائیں گے، جب تک کلفٹن جا کر اونٹ پر نہیں بیٹھتے اور سمندر میں نہیں نہاتے۔

مسلسل شور میں نانا کی آنکھ کھل گئی جو صبح ہی صبح نوکری سے آنے کے بعد اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ وہ خمار آلودہ آنکھیں لیے بلی کی طرح دبے پاؤں سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ہمارے سر پر پہنچ گئے۔ ہاتھ میں ایک بید تھا جسے لہراتے ہوئے انھوں نے پوچھا ’ہاں صاحب کس کس کو اس وقت کلفٹن جانا ہے؟‘

ہم بچوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ’نہیں نانا ابو میں نہیں یہ ضد کر رہی تھی کلفٹن کی، نانا ابو یہ جھوٹ بول رہا ہے میں تو بالکل چپ تھی یہ چھوٹو زیادہ اچھل رہا تھا۔۔۔‘

نانا ابو خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اس کے بعد ہم بچوں نے کئی مہینے کلفٹن کا نام تک نہیں لیا۔

ایک اور واقعہ سن لیجیے جو پنجاب میں خاصا مشہور ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران جب محاذ پر سپاہیوں کا کال پڑنے لگا تو ہر ضلع کی انگریز انتظامیہ نے مقامی بااثر وفاداروں کی ڈیوٹی لگائی کہ اپنے اپنے علاقے سے صحت مند نوجوان بھرتی کے لیے بھیجیں۔ جو چوہدری جتنے زیادہ جوان بھرتی کے لیے پیش کرے گا اسے اسی تناسب سے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

ایک گاؤں کے نمبردار نے بھی جوانوں کو فوج میں بھرتی پر راغب کرنے کے لیے جمع کیا اور کہا کہ میں کل اسسٹنٹ کمشنر صاحب بہادر سے ملا تھا۔ ان کے سامنے میں نے شرط رکھی کہ میرے گھبرو جوان تب تک پیش نہیں ہوں گے جب تک آپ انھیں ڈائریکٹ لفٹین بھرتی نہیں کریں گے۔ صاحب بہادر نے میری حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ بات مان لی ہے۔ یہ خوشخبری سن کر بھرتی مرکز کے باہر نوجوانوں کی قطار لگ گئی۔

مگر جب حتمی لسٹ آئی تو ہر نوجوان کے نام کے آگے سپاہی لکھا ہوا تھا تو نوجوان بپھر گئے۔ انھوں نے نمبردار کا گھیراؤ کر لیا۔ نمبردار نے حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے کہا کہ تم سب اسی وقت میرے ساتھ صاحب بہادر کے دفتر چلو۔ انھوں نے وعدہ خلافی کی ہے۔

صاحب بہادر کے دفتر کے سامنے یہ جلوس دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔ نمبردار اندر گیا۔ گھنٹے بھر ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے باہر آیا اور نوجوانوں سے کہا کہ مبارک ہو، صاحب بہادر نے ہمارا مطالبہ مان لیا۔ شروع شروع میں تم سب کو بطور سپاہی فوجی تربیت دی جائے گی اور اگر تم نے محاز پر اچھی کارکردگی دکھائی تو پھر تم سب کو لفٹین بنا دیا جائے گا۔

مگر میں نے صاحب بہادر سے قسم اٹھوائی ہے کہ جب تک میرے لڑکے لفٹین نہیں بنتے تب تک انھیں صرف تنخواہ پر نہیں ٹرخایا جائے گا بلکہ راشن اور سالانہ چھٹی کے علاوہ نئی چمکتی وردیوں اور جوتوں کے دو دو جوڑے بھی مفت میں دیے جائیں گے اور ان چیزوں کے پیسے تنخواہ سے ہرگز نہیں کاٹے جائیں گے۔ بولو منظور ہے؟

سب نوجوانوں نے بیک آواز کہا منظور ہے۔ انھوں نے نمبردار کو کندھے پر اٹھایا اور ہنسی خوشی گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).