اینٹی سامراج اللہ بخش سومرو نصاب سے غائب کیوں؟


علم شناسی اور علمی استعماریت کا آپس میں گہرا ربط ہے، ان دونوں عناصر کو بروئے کار لا کر یورپی افضلیت کے علمی تصورات پر یقین کرنے کے لیے قائل کیا جاتا ہے، انھی تصورات کے تحت بیسویں صدی کے وسط میں ہی گلوبل ویسٹرنائزیشن کی بالادستی قائم ہوئی۔ نوآبادیاتی عہد میں مغربی بیانیہ کے تناظر میں مخصوص عالمی تاریخ تشکیل کی گئی اور بعد ازاں پوسٹ کالونیل ریاستی ڈھانچوں میں یورپی افضلیت کے تصور کو رائج رکھنے کے لیے مخصوص نصابات مرتب ہوئے، یہ نصابات بنیادی طور پر حاکم و محکوم، متمدن و غیر متمدن اور مخصوص تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے معاون ہیں۔

دوسری عالمی جنگ درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے برپا کی گئی اور گریٹ گیم کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کی طرز پر نیا عالمی منظر نامہ تشکیل کرایا گیا۔ یہی وہ عہد تھا جب عالمی نوآبادیاتی طاقت برطانیہ کو نیو ورلڈ آرڈر کے خالق امریکا کے سامنے سرینڈر کرنا پڑا اور اپنی نوآبادیات سے دستبردار ہونے کے لیے معاہدہ اٹلانٹک پر، برطانیہ نے دستخط کیے۔

معاہدہ اٹلانٹک نے برصغیر کے نئے نقشہ کی راہ ہموار کی، یعنی تقسیم ہند۔ عالمی جنگ کے دوران ہی مسلم لیگ نے اس تقسیم کا تصور پیش کیا، چنانچہ اس تصور نے نیو ورلڈ آرڈر کو آکسیجن فراہم کی۔ گریٹ گیم کے تحت، امریکا و برطانیہ نے اپنے حریف ملک روس کو تزویراتی مرکزہ بنا کر نئی سرحدیں تشکیل دینے کا عملی منصوبہ بنایا۔ نئی کالونیاں بنانے کے اس منصوبہ پر برصغیر کی آزادی پسند تحریکوں نے بھانپ لیا اور اس خطہ کو مستقبل میں استعماریت کے بیس کیمپ بننے کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ آوازیں دراصل، رد استعماریت، رد نو آبادیات اور بفر ریاستوں کی تشکیل کے خلاف تھیں۔

سترہویں صدی کی اقتصادی طاقت رکھنے والے برصغیر کے معاشی وسائل ہڑپ کرنے کے بعد جب ملک لاغر کر دیا گیا تو اس کے حصے بخرے کرنے کے منصوبہ کو تقویت دینے کے لیے مقامی گروہ بندی کی گئی۔ ایک قرار داد کی بنیاد پر، برطانوی استعمار نے خطے کی تقسیم کا فیصلہ صادر کر دیا لیکن اس قرار داد کے خلاف ہندستان کی متعدد مسلم جماعتوں کے اجتماع میں تقسیم ہند کے تصور کو مسترد کرنے والی قرار داد کو دبا دیا گیا۔ تقسیم ہند کے تصور کو کانگریس سے بھی پہلے آزاد مسلم کانفرنس نے مسترد کر دیا تھا، یہ کانفرنس قرار داد لاہور کے خلاف چار ہفتوں بعد ہی دہلی میں منعقد ہوئی۔ وزیر اعظم سندھ اللہ بخش سومرو نے تقسیم ہند کے تفرقہ انگریز منصوبہ کے خلاف، اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس میں سات مسلم تنظیموں اور ممتاز محب وطن مسلمان رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ آزاد مسلم کانفرنس نے اسی وقت واضح کر دیا تھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس سے علیحدہ ان کا اپنا وجود ہے۔

اس کانفرنس میں آل انڈیا جمعیت العلماء، آل انڈیا مومن کانفرنس، آل انڈیا مجلس احرار، آل انڈیا شیعہ پولیٹیکل کانفرنس، خدائی خدمت گار، بنگال کرشک پروجھا پارٹی، آل انڈیا مسلم پارلیمانی بورڈ، انجمن وطن بلوچستان، آل انڈیا مسلم مجلس اور جمعیت اہلحدیث، متحدہ صوبہ، بہار، وسطی صوبہ، پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد، مدراس، اڑیسہ، بنگال، ملابار، بلوچستان، دہلی، آسام، راجستھان، کشمیر، حیدرآباد اور متعدد مقامی ریاستوں کے باضابطہ طور پر منتخب نمائندوں کے 1400 وفود شریک ہوئے اور ایک لاکھ افراد کا اجتماع ہوا۔

اس کانفرنس میں جہاں نام ور افراد نے اپنی تقریریں پیش کیں، وہیں اللہ بخش سومرو کے خطبہ نے استعماری حربوں کا پردہ چاک کر دیا۔ یہ خطبہ ہندستان کی تقسیم کے تباہ کن نتائج اور مسلم لیگ کے تصور قومیت کو رد کرنے پر مبنی تھا۔ اس خطبہ کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے، اللہ بخش سومرو نے اپنے خطاب میں کہا:

”ہمارے عقائد جو بھی ہیں، ہمیں اپنے وطن میں مکمل ہم آہنگی کی فضا میں مل جل کر رہنا چاہیے، ہمارے تعلقات مشترکہ خاندان کی طرز پر ہونے چاہیں، جس میں تمام افراد اپنے عقیدوں کے اعتبار سے رہنے کے لیے آزاد ہیں، جس میں سبھی مشترکہ املاک کے مساوی فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہیں“

اللہ بخش سومرو نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ برطانوی حکمران، ہندستان کی آزادی پر مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں :

برطانیہ پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہندستان کو ایک خود مختار، مکمل طور پر آزاد ریاست کی حیثیت سے رہنے کا حق ہے، ہندستان اپنے آئین کی تشکیل کا خواہاں ہے، برطانیہ کامل آزادی کے لیے ہندستانی باشندوں کی راہ میں رکاوٹ مت بنے، جلد یا بدیر، ہندستان کی اس عظیم ترین تہذیب کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ برطانیہ کی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی میں مسلم لیگ کو شراکت دار ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مسلم لیگ کی غیر دانش مندانہ طرز عمل کے باعث، ہندستان کو ڈومینین حیثیت دینے کے لیے تاخیر کرے گا۔

اللہ بخش سومرو کا ماننا تھا کہ نیو ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کے لیے دوسری عالمی جنگ ہوئی، انھوں نے کہا کہ انسانیت کی سوچ رکھنے والے حق پرست نازی ازم اور جارحیت پسندوں کو انسانی آزادی و تہذیب کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں، یہ جنگ دنیا میں مطلق العنان تصورات کے عروج اور عالمی سفاکیت کو بڑھائے گی۔ انھوں نے تقسیم ہند کے لیگی تصور پر اپنے خطبہ میں کہا یہ مسلمانوں کی خدمت نہیں، بلکہ حکمرانی، نتیجہ خیز تعاون کے نام پر تسلط، مشترکہ خوش حالی اور مادی فوائد کی سطح کی عمومی بلندی نہیں بلکہ لاکھوں حامیوں کی قیمت پر چند افراد کی افزودگی کا باعث ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ حقیقت پسندی اور خود اعتمادی کا ذرا سا بھی احساس رکھنے والا کوئی بھی مسلمان ایک لمحہ کے لئے برداشت نہیں کر سکتا ہے کہ اسے سیاسی قربانی کا بکرا بنایا جائے، اور برے نتائج کو اپنے اور آنے والی نسل کے سیاسی و مادی مستقبل کو تباہ کرے۔ مستند طریقے سے، اس طرح کے اجتماع کے ذریعے سے مسلم لیگ کی تجویز کو فوری طور پر مسترد نہیں کیا گیا تو اس کا حساب چکانا پڑے گا، جس سے ہندستانیوں کو مسلم اور غیر مسلم دنیا میں لامحدود نقصان پہنچے گا۔

انھوں نے اپنے خطبہ میں مسلم لیگ کے ہندستانی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کے دعویٰ کو بھی مسترد کر دیا، اور پاکستان کے نقشہ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ:

”سات صوبوں میں کانگریس کی حکومت کے پاس نمائندگی کا مکمل حق تھا، عوامی جلسوں سے ماوراء، مسلم لیگ کو ہندستانی مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے کیا سندیں موجود ہیں؟ مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کو جانچنے کا واحد راستہ یہ ہوگا کہ لیگ نے لاہور میں جس پالیسی (قرار داد پاکستان) کا اعلان کیا ہے، اس کے جملہ پہلوؤں پر، لیگ کو مختلف علاقوں میں رائے شماری کے لیے بھیجا جائے، جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، انھیں اس منصوبہ سے سخت نقصان ہوگا، اور ایک ایسی خود مختار ریاست کی پیشن گوئی ہے جس میں ایک کروڑ نفوس پر مشتمل پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچ مسلمان ہیں جبکہ ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلہ پر ریاست کے دوسرے حصہ میں اڑھائی کروڑ بنگالی اور آسامی مسلمان ہیں“

مشرقی پاکستان کی تقدیر پر اللہ بخش کے پیشن گوئی پر غور کریں جب انہوں نے کہا:

شمال مشرقی پاکستان دس گنا عمدہ اور سو گنا خطرناک ہے، شمال مغربی پاکستان یا پنجاب کے تصور میں کم از کم طاقت ور روس، مسلمان ہمسایہ ممالک اور افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا امکان موجود ہے لیکن بنگال اور آسام دفاعی نقطہ سے کم زور اور سنگرودھ پاکستان ہوگا، جس کے پاس مضبوط ساکھ کی مارشل ریس نہیں ہے، اسے پڑوسی ملک کو اپنے ساتھ جذب کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

انھوں نے دو قومی نظریہ کے حامیوں کو اپنے دلائل سے یوں مسترد کیا:

ہندستان کے نو کروڑ مسلمانوں کی اکثریت یہاں کے باشندوں کی اولاد ہے جو اس دھرتی کے سپوت ہیں جو ڈراویڈین و آریائیوں سے جدا نہیں ہیں اور انھیں اس مشترکہ سرزمین کے ابتدائی آبادکاروں میں شمار ہونے کا اتنا ہی حق ہے، ایک ہی وطن کے لوگوں سے مختلف عقیدوں کی بناء پر ان کی قومی شناخت کو ختم نہیں کیا جاسکتا، دنیا کی الگ الگ قومیتوں اور ثقافتوں میں بھی اسلام کا عقیدہ پایا جاتا ہے، یہی اسلام کی عالمگیریت ہے۔

اللہ بخش سومرو فرقہ پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کرنے کے حق میں تھے، اس کانفرنس کے دوران انھوں نے کہا بہتر ہے کہ فرقہ پرستوں کو پنجرے میں ڈال دیا جائے تاکہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کی تسبیح نہ پھیلائیں۔

انھوں نے دو قومی نظریہ کو حیرت انگیز اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ تاریخ اور ورثہ پر روشنی ڈالی:

مسلمان، ہندو اور دیگر لوگ، ہندستانی کی حیثیت سے اس زمین پر آباد ہیں اور اپنے مادر وطن کی مادی اور تہذیبی خزانوں کے ہر ایک انچ پر فخر کرتے ہیں۔ ہندو، مسلمان یا دیگر افراد کو پورے ہندستان یا کسی خاص حصہ پر خصوصی ملکیت کا حق تصور کرنا شیطانی غلطی ہے، یہ ملک ناقابل تقسیم، ایک وفاق اور ملک کے تمام باشندوں کو یکساں ہے، یہاں کا ناقابل تسخیر ورثہ دیگر ہندستانیوں اور مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ وہ لوگ جو ہندستانی مسلمانوں کے لیے کچھ طبقوں کے لیے الگ وطن کی بات کرتے ہیں، اگر وہ اس کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ خود کو ہندستانی شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔

اب تک، ہندستانی مسلمانوں کی اکثریت جو ہندستان کے ہر حصہ میں رہتے ہیں، اور جنھیں ملک میں اپنی پسند سے کہیں بھی رہنے کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے، وہ یقینی طور پر، بغض پر مبنی اس خود کشی کی تجویز (قرار داد پاکستان ) کو مسترد کر دیں گے اور ہندستانی شہریوں کے اپنے پورے وطن کی آزادی کے حق پر قائم رہیں گے۔

اپنے خطاب میں انھوں نے مزید کہا:

یہاں کی اکثریت، ہندو یا دیگر مذاہب، ان علاقوں میں جہاں ایک مسلمان بھی رہتا ہے یا کسی بھی جگہ کاروبار کرنے کا انتخاب کرتا ہے، اسے کبھی بھی یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ دوسرے تمام ہندستانی شہریوں کو حاصل شدہ حقوق سے محروم کرے اور ظاہر ہے کہ ہر ایک ہندو اور ہر دوسرے ہندوستانی کو مساوی شہریت کے ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے یہاں تک کہ اگر وہ ہندوستان میں کہیں بھی لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان صرف ایک ہی ہو جائے۔

ہم ہندوؤں اور اپنے ملک کے دوسرے باشندوں کے ساتھ پورے ملک میں ہر شعبے میں اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اپنے منصفانہ تقاضوں کی پیمائش کے مساوی شراکت دار ہیں، اس زمین پر کوئی طاقت غیر دانش مندانہ مصنوعی جذبات کی بناء پر ہمیں اس قومی سوچ سے جدا نہیں کر سکتی۔ کسی بھی طاقت کو ہندستانی مسلمانوں کے ان کے منصفانہ حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی جرات نہیں ہوگی، ہندستانی ہونے کے ناتے ہمارے مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں اور اپنے حقوق و ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ جو حضرات یہاں جمع ہیں، مجھے اعتماد ہے اور ہمیں اتفاق ہے کہ ہمارے ملک کو دنیا میں ایک آزاد اور بلند مقام ملنا چاہیے اور ہم سب پر عزم ہیں کہ بغیر کسی مزید تاخیر کے اس مقصد کو حاصل ہوتا دیکھیں گے۔

اپنے خطاب میں، اللہ بخش سومرو نے مشترکہ ہندوستانی ثقافت کا مضبوط الفاظ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں دفاع کیا:

جب وہ مسلم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو وہ مشترکہ ثقافت کو بھول جاتے ہیں جس کا اثر ہندوؤں اور مسلمانوں کے پچھلے ہزار سال یا اس سے زیادہ عرصے سے تشکیل پا رہا ہے اور جس میں ہندستان میں ایک قسم کی ثقافت اور تہذیب پیدا ہوئی ہے جس کی تشکیل میں فعال شراکت دار ہونے کی بناء پر مسلمان فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب یہ تہذیب و ثقافت مصنوعی ریاستیں بنا کر الگ الگ علاقوں میں تقسیم نہیں کی جا سکتی۔ فن اور ادب، فن تعمیر اور موسیقی، تاریخ اور فلسفہ اور ہندستان کے نظام کے لئے، مسلمان ایک ہزار سال سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، ان کا مربوط، جامع اور ہم آہنگی ثقافت میں حصہ ہے جو تہذیب کی اقسام میں انفرادیت اور دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے تصور سے تہذیب کو ایک تباہ کن نقصان ہوگا اگر یہ تجویز کیا گیا کہ یہ سب کچھ ہندوستان کے دو کونوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس سے سوائے کھنڈرات اور ملبہ کے سواء کچھ نہیں بچے گا، تقسیم ہند کی ایسی تجویز شکست خوردہ ذہنیت سے ہی نکل سکتی ہے۔ نہیں، حضرات، پورا ہند ہماری مادر وطن ہے اور زندگی کے ہر ممکنہ حصول میں ہم ملک کے باشندوں کی حیثیت سے ملک کے دوسرے باشندوں کے ساتھ مشترکہ شراکت دار ہیں۔ ملک کی آزادی کے لیے فرسودہ اور شکست خوردہ جذبات ہمیں اپنے نکتہ نظر کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔

اس کانفرنس کے بعد ، اللہ بخش سومرو اور برطانوی حکام کے درمیان تنازعہ بڑھ گیا اگرچہ اس تنازعہ کی بنیاد برطانوی پارلیمان میں سر ونسٹن چرچل کی کی تقریر تھی جس میں انھوں نے ہندستان کی آزادی کی تحریکوں سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے تو 19 ستمبر 1942 ء میں اللہ بخش سومرو نے وائسرائے لنلتگھو کو برطانوی اعزازات واپس کر دیے اور ایک طویل خط وائسرائے کے نام لکھا۔ اللہ بخش کے اس فیصلے پر برطانوی حکام نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور گورنر سندھ ہیو ڈاؤ نے اللہ بخش کی حکومت یہ کہہ کر ختم کر دی کہ وہ گورنر کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اللہ بخش کی حکومت ختم کرنے کا معاملہ ہاؤس آف کامنز میں اٹھایا گیا اور گورنر کے فیصلہ کی مذمت کی گئی۔

اللہ بخش سومرو کی اتحاد پارٹی (جس کا پہلا نام پیپلز پارٹی سندھ تھا) کی حکومت ختم ہونے کے ایک سال بعد 14 مئی کو انھیں قتل کرا دیا گیا، یوں ہندستان کے گولڈن برین کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا اور سندھ میں مسلم لیگ کی راہ ہموار ہو گئی۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ گورنر نے مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کی مشترکہ حکومت بنا دی چنانچہ اللہ بخش سومرو کی اینٹی فرقہ واریت سیاست کی جگہ مسلم لیگی سیاسی تصورات رائج کیے گئے۔

تقسیم ہند کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد نے اس کے منفی نتائج اور پاکستان کے مستقبل کا جو نقشہ دہلی کی جامع مسجد میں کھینچا تھا یہی نقشہ سات برس قبل اللہ بخش سومرو نے آزاد مسلم کانفرنس میں پیش کیا۔ تقسیم ہند کے نتائج تو آج اس خطہ کی عوام کے سامنے ہیں، ہندوستان میں ہندوتوا اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کا راج ہے۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے جس معاہدہ اٹلانٹک کے تحت اس خطہ کی تقسیم کو ناگزیر سمجھا اس کا حل ہمیں رد نوآبادیات پر مبنی تصورات میں تلاش کرنا ہوگا۔ میری رائے میں، خطبہ الہ آباد سے چھ سال برس قبل جبکہ قرار داد لاہور سے سولہ برس قبل، مولانا عبید اللہ سندھی نے اس خطے کے تمام مسائل کا حل سروراجیہ منشور میں پیش کر دیا تھا، یہ سروراجیہ منشور ہی اس خطہ کی کامل آزادی اور ترقی کی ضمانت ہے، یہ سروراجیہ منشور کیا ہے اس پر آئندہ کالم لکھوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments