ضمیر کی عدالت


دیہات کی اس برانچ میں میری پوسٹنگ کا پہلا ہی مہینہ تھا کہ رات کو برانچ میں واردات ہو گئی۔ برانچ میں رات کو گارڈ نہیں ہوتا تھا۔ رات کو چور آئے اور انہوں نے گیس کٹر سے سٹرانگ روم کا دروازہ کاٹا اور پھر سیف کے تالے کاٹ کر سات لاکھ روپیہ لے اڑے۔ واردات کا پتہ صبح پتہ چلا۔ تھانہ میں رپورٹ کی، فوراً پولیس آ گئی۔ ضروری کارروائی کے بعد انہوں نے مجھے شام کر تھانے آنے کو کہا۔ چار بجے برانچ بند کر کے میں اور کیشیئر تھانہ پہنچے تو محرر نے ہمیں مجرموں کی طرح ایک طرف بٹھا دیا اور کہا کہ تھانیدار صاحب سو رہے ہیں، وہ جاگیں گے تو آپ سے بات کریں گے۔

تھانیدار پانچ بجے آیا، میری توقع کے برخلاف وہ ایک سمارٹ سا جوان انسپکٹر تھا، تنویر عالم نام تھا اس کا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو اس کا رویہ اچانک ہی تبدیل ہو گیا۔ وہ مودب ہو گیا، عملہ کے رویے پر مجھ سے معافی مانگی اور کہا کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ ہمیں سادات کی تعظیم کا درس دیا گیا ہے۔ بینک میں نقب زنی کے حالات و واقعات سن کر اس نے اسی وقت برانچ کا معائنہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہم تھانہ سے باہر نکلے تو وہ میرے ساتھ میری گاڑی میں بیٹھ گیا اور پولیس پارٹی کو تھانہ کی گاڑی میں بینک آنے کو کہا۔ بینک پہنچ کر اس نے بڑے سائنسی طریقے سے وقوعہ کا جائزہ لیا، سٹاف سے تفتیش کی۔ اس واردات کے مجرم تو پکڑے نہیں گئے لیکن تین چار دفعہ تھانے آنے جانے میں میری تنویر عالم سے دوستی ہو گئی۔ لیکن اس کی طرف سے ہمیشہ ادب و احترام کا رشتہ رہا۔

تنویر عالم کو کتابیں پڑھنے، خاص کر جاسوسی ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میرے پاس ان دنوں انگریزی ناولوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ وہ میرے پاس آتا، اپنی پسند کا ناول اٹھاتا اور چار پانچ دن میں پڑھ کر واپس کر دیتا اور دوسرا لے جاتا۔ اس بہانے ہماری اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ کہتے ہیں کہ پولیس کی دوستی اچھی نہیں ہوتی اور دشمنی تو ہوتی ہی بری ہے، لیکن میرا تجربہ اس سے بالکل مختلف تھا۔ میں چونکہ خود ایک ڈرپوک سا قانون کے مطابق چلنے والا بندہ تھا، اس لئے ہماری دوستی چلتی رہی۔

میں چونکہ اکیلا اس قصبے میں رہتا تھا، بچے شہر میں تھے، شام کو اگر کبھی میں فارغ ہوتا تو تھانہ چلا جاتا، جہاں اس سے مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہتی۔ اس برانچ میں مجھے ایک سال ہی ہوا تھا کہ تنویر عالم کی کسی اور تھانے میں ٹرانسفر ہو گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد میری پوسٹنگ بھی شہر میں ہو گئی۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔

میں بنک میں ترقی کرتے کرتے سینئر وائس پریزیڈنٹ بن کر ایک بڑے انتظامی عہدے پر فائز ہو گیا۔ ایک دن میرے سیکرٹری نے بتایا کہ تبلیغی جماعت کے کچھ افراد آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایک مذہبی خاندان اور بڑی گدی سے تعلق ہونے کے باوجود میرا اتنا زیادہ مذہبی نہیں تھا۔ اس دن خلاف معمول میں فارغ ہی بیٹھا تھا، کوئی خاص کام بھی نہیں تھا اس لئے میں نے اسے کہا کہ بلا لو۔ چار افراد کمرے میں آئے اور ان چار افراد میں انسپکٹر تنویر عالم کو دیکھ کر مجھے بہت حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی ہماری یہ ملاقات تقریباً ً پندرہ سال بعد ہو رہی تھی۔

میں نے گرم جوشی سے اسے گلے لگایا۔ ان سے تبلیغ کے بارے میں کچھ باتیں ہوئیں۔ میں نے شام کو ان کے ٹھکانے پر آنے کا وعدہ کر لیا۔ مجھے انسپکٹر کو تبلیغی جماعت میں دیکھ کر بہت حیرت ہوئی تھی۔ شام کو میں فارغ ہو کر ان کی مسجد میں چلا گیا۔ عشا ء کی نماز کے بعد درس سن کر فارغ ہوئے تو میں نے تنویر عالم سے کہا کہ چلو کہیں باہر کھانا کھاتے ہیں۔ ہم شہر کے ایک اوپن ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے اور پرانی باتیں کرنے لگے۔ کھانے کے دوران میں نے اس سے اس تبدیلی کے متعلق سوال کیا تو وہ کہنے لگا۔ شبیر بھائی بہت لمبی کہانی ہے۔

آپ سے آخری ملاقات کے کچھ دنوں بعد ہی میری پوسٹنگ دور دیہات کے ایک قصبے کے تھانہ میں ہو گئی تھی۔ اس قصبہ کے ساتھ ہی گاؤں میں ایک بہت بڑی گدی والے پیر صاحب کا آستانہ تھا۔ میں نے بھی ان کے آستانے پر احتراماً ً حاضری دی۔ پیر صاحب کو میرے آنے کا پتہ چلا تو مرید خاص کو بھیج کر مجھے اپنے حجرے میں بلایا۔ میں پیر صاحب کی اس نظر کرم پر بہت خوش ہوا۔ میرے دل میں ان کا احترام اور زیادہ ہو گیا۔ چھ سات ماہ بعد ایک دن اچانک ان کا مرید خاص تھانے میں آیا اور پیغام دیا کہ پیر صاحب فوراً مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ایک تفتیش میں مصروف تھا اس لئے تین چار گھنٹے بعد آنے کا کہا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ معاملہ نہایت اہم ہے اس لئے مجھے فوری بلایا ہے۔ میں تفتیش ادھوری چھوڑ کر پیر صاحب سے ملنے پہنچ گیا۔

پیر صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ بڑے پریشان لگ رہے تھے، فرمایا کہ ان کی عزت کا معاملہ ہے اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ بات باہر پھیلے جس سے علاقے میں ان کی بے عزتی ہو۔ اس کے لئے انھیں میری مدد درکار تھی۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ پیر صاحب کی بیٹی پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے میں پڑھتی تھی اور ہوسٹل میں رہتی تھی۔ ان کے بقول اس کے ایک ہم جماعت نے بھلا پھسلا کر اسے اغوا کر لیا تھا۔ مجھ سے انہوں نے التجا کی کہ رازداری کے ساتھ میں ان کی بیٹی کو برامد کر کے ان کے حوالے کروں جس پر وہ بہت شکر گزار ہوں گے۔

انہوں نے ایک بڑی رقم بھی میرے حوالے کرنی چاہی جو میں نے بصد شکریہ ان کو واپس کر دی۔ ان سے وعدہ کیا کہ پیر صاحب کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گا۔ عموماً ایسے کیسوں میں ہم پرچہ درج کرنے کی بجائے ایک سادہ درخواست گھر والوں کی طرف سے لے لیتے ہیں اور برامدگی کے بعد پرچہ درج کرتے ہیں۔ لڑکیوں کے اغوا میں عموماً ًکوشش یہ ہوتی ہے کہ جلد سے جلد لڑکی کو برامد کیا جائے تا کہ انھیں عدالت جانے یا نکاح وغیرہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

دوسرے دن میں نے پنجاب یونیورسٹی میں جا کر دونوں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کیں۔ لڑکے کا تعلق آزاد کشمیر کے سرحدی علاقہ سے تھا۔ وہاں پر قانونی طور پر چھاپا مارنے اور لڑکی کی برامدگی کے لئے وہاں کی مقامی پولیس کی موجودگی اور آزاد کشمیر اور پنجاب پولیس کے اعلی حکام کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے پیر صاحب کی مدد سے تین پرائیویٹ گاڑیوں کا بندوبست کر کے سول کپڑوں میں پولیس کے جوانوں کے ساتھ لڑکے کے گاؤں میں چھاپا مارا۔

چھوٹا سا گاؤں تھا۔ لڑکے کا خاندان ایک متوسط طبقے کا شریف سا گھرانا تھا۔ پولیس اور پھر پنجاب پولیس کا وہ کیا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لڑکا پیر صاحب کی بیٹی کو ساتھ لے کر ایک دن پہلے ہی اپنے گاؤں پہنچا تھا۔ ہم نے دونوں کو پکڑ کر گاڑیوں میں بٹھایا اور کسی کو خبر ہونے سے پہلے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ ان دنوں وہاں موبائل فون تو کیا لینڈ لائن فون بھی نہیں تھا جس سے کسی کو اطلاع ہوتی۔

لڑکی کو میں نے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور لڑکے کو ایک دوسری گاڑی میں۔ واپسی کے سارے رستے پیر صاحب کی بیٹی روتی رہی۔ وہ بار بار مجھے کہتی۔ تھانیدار صاحب۔ میں بالغ ہوں، پڑھی لکھی ہوں، میں اپنا فیصلہ خود کر سکتی ہیں، ہم نے نکاح کر لیا ہے۔ لڑکا اتنا امیر نہیں ہے لیکن بہت شریف خاندان کا ہے اور خود بھی بہت شریف ہے، میں اپنی مرضی سے اس کے ساتھ آئی ہوں، میں اس کے ساتھ خوش رہوں گی۔ وہ بار بار مجھے اللہ کا واسطہ دے رہی تھی کہ میں اسے والدین کے پاس نہ لے کر جاؤں۔

میرا باپ اور میرے بھائی مجھے مار دیں گے۔ وہ لڑکے کو بھی مار دیں گے۔ میرے گھر والے میری شادی اپنے ایک بدمعاش اور آوارہ بھتیجے سے کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے وہ اور اس کے طور طریقے پسند نہیں ہے۔ میں خاندان کی پہلی لڑکی ہوں، جو یونیورسٹی میں پڑھی ہے۔ آپ کو اپنے پیاروں کا واسطہ آپ مجھے گھر لے جانے کی بجائے کسی عدالت میں پیش کریں۔ لیکن میری آنکھوں پر پیر صاحب کی عقیدت کی پٹی بندھی ہوئی تھی اس لئے میں نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا۔

پیر صاحب کے گاؤں پہنچ کر میں نے ان کی بیٹی کو ان کے حوالے کر دیا۔ پیر صاحب نے میرا بہت شکریہ ادا کیا، پھرا یک خطیر رقم مجھے پیش کی جو میں نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دی اور تھانے لوٹ آیا۔ لڑکے کو تھانے میں تفتیشی کے حوالے کیا جس نے اس کو اچھی طرح سمجھایا کہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بچاؤ۔ اپنی بہنوں کی عزت کو سنبھالو۔ یہ بڑی گدی والے لوگ ہیں، تم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لڑکا شریف اور دلیر تھا، اپنی بات سے ہٹنا اپنی بے عزتی خیال کرتا تھا اس لئے مار کھانے کے باوجود وہ اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا۔

دوسرے دن شام کو میرے تفتیشی نے مجھے بتایا کہ پیر صاحب کی بیٹی اتفاقاً اپنی حویلی کے کنویں میں گر کر ہلاک ہو گئی ہے۔ میں صبح آستانہ پر گیا تو وہاں کہرام سا مچا ہوا تھا۔ علاقہ کے معززین کے علاوہ پیر صاحب کے بہت سے مرید جمع تھے۔ پیر صاحب نے مجھے بتایا کہ بیٹی حویلی میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ اتفاقا کنویں میں گر گئی۔ ہمارے نکالنے تک وہ ڈوب کر فوت ہو گئی ہے۔ میں نے ان سے تعزیت کی۔ میں اس خیال میں تھا کہ کون باپ اپنی بیٹی کی جان لے سکتا ہے۔

دوسرے دن میں نے لڑکے کو بلایا اور اسے لڑکی کے بارے میں بتایا تو وہ رونے لگا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ گھر والوں نے اسے مار ڈالا۔ میں نے اسے پھر زندگی کی اونچ نیچ سمجھائی۔ اپنے تفتیشی سے کہا کہ اس کے ساتھ ایک سپاہی بھیجو اور اسے کشمیر والی گاڑی پر بٹھا آؤ۔ اس کے تین چار ماہ بعد اس قصبہ کے تھانہ سے میرا تبادلہ شہر میں ہو گیا۔ میں اس واقعہ کو بھول بھال گیا۔

ایک دن میں سویا ہوا تھا کہ وہ لڑکی میرے خواب میں آئی۔ اس کے بال کھلے تھے اور چہرا وحشت زدہ تھا۔ وہ روتی ہوئی مجھے کہنے لگی تم نے مجھے مروا دیا۔ میری موت کے ذمہ دار تم ہو۔ میری اچانک آنکھ کھل گئی اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سردی کے باوجود میرا جسم پسینے پسینے ہو گیا۔ دماغ کے کسی کونے سے وہ سارا واقعہ ایک دم میرے ذہن میں تازہ ہو گیا۔ رات کو پھر مجھے نیند نہیں آئی۔ اگلا دن مصروفیت میں گزرا لیکن جیسے ہی رات کو سونے کے لئے آنکھیں بند کیں تو ایک دم اس لڑکی کا خیال آ گیا، پھر رات بھر نیند نہیں آئی۔

پھر یہ روزانہ ہی ہونے لگا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں سونے کے لئے لیٹتا، جیسے ہی آنکھیں بند کرتا تو اس کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس واقعہ کو بھول جاؤں۔ بار بار مجھے یہ خیال آتا کہ اگر میں لڑکی کو عدالت میں پیش کرتا تو شاید اس کی جان بچ جاتی اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگتا۔ میں نفسیاتی مریض بن گیا تھا۔ میری شادی ہونے والی تھی جو رک گئی اور پھر آہستہ آہستہ بات ختم ہو گئی۔

میں نے نوکری چھوڑ دی۔ سکون دل کے لئے مختلف درباروں پر جا کر حاضری دی، لیکن دل کو سکون نہیں ملا۔ ساری ساری رات عبادت میں گزاری۔ اب چند سال سے تبلیغ میں جگہ جگہ گھومتا ہوں لیکن سکون پھر بھی نہیں ہے۔ دن تو گزر جاتا ہے لیکن اکثر رات سوتے وقت جب بھی کبھی اس کا معصوم سا وحشت زدہ چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے، نیند اڑ جاتی ہے اور ساری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔

تنویر عالم باتیں کرتے کرتے میرے سامنے رو دیا اور مجھے کہا شاہ جی میرے لئے دعا کریں۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ سچے دل سے توبہ کر و اللہ سکون دل عنایت کرے گا۔ باتوں میں رات بھیگ چلی تھی۔ ہم وہاں سے اٹھے، میں نے اسے مسجد کے باہر اتارا۔ پھر کبھی اس سے رابطہ نہیں ہوا۔ اس کا ضمیر جاگ گیا تھا، اسے اپنی زیادتی نظر آتی تھی جس نے اس کا اندر جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی جو اپنی زندگی جینا چاہتی تھی۔ خاندانی روایات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں لیکن ہم بے حس ہیں سب کچھ بھول کر اپنی کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments