چھوٹے قد کا بڑا گلوکار اور ننگے پیر گانے والی چھوٹی سی لڑکی۔


ناروے ملک تو چھوٹا سے ہے لیکن اس میں بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ ناروے کی موسیقی کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اب دوسرا بھی حاضر ہے۔ اس میں دو لوگوں کا ذکر ہے جن کے بغیر ناروے کی موسیقی پر بات کچھ ادھوری سی رہے گی۔

کرٹ ایریک نیلسن (Kurt Erik Nilsen- September 1978)

2003 کی بات ہے۔ ناروے کے ایک ریئلیٹی شو ”آیڈل“ میں پانچ فٹ چار انچ قد کا چوبیس سالہ نوجوان آڈیشن کے لیے آیا۔ پیشے کے لحاظ سے پلمبر تھا لیکن موسیقی کا شوق رکھتا تھا۔ شخصیت میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ چھوٹا قد، قدرے فربہ بدن، اور سامنے کے دو دانتوں میں بڑا سا خلا۔ اس نے اپنا لکھا ہوا انگریزی گیت گایا جس کی دھن بھی اس نے خود بنائی تھی۔ چار ججوں میں سے ایک نے کہا کہ اسے اپنے انگریزی کے تلفظ پر توجہ دینی چاہیے۔ تین جج اسے مقابلے میں آگے بھیجنے پر راضی تھے لیکن ایک نے انکار کیا اور کہا کہ وہ گاتا تو اچھا ہے لیکن اس میں پاپ اسٹار بننے والے کوئی آثار نہیں۔ کرٹ نیلسن نے اسے غلط ثابت کر دیا۔ وہ نا صرف ناروے میں یہ مقابلہ جیتا بلکہ ”ورلڈ آئیڈل“ مقابلہ بھی جیت گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے برگن شہر کا یہ پلمبر جو شوقیہ گاتا تھا ایک بین الاقوامی سطح کا گلوکار بن گیا۔


کرٹ کی ظاہری شخصیت کو لے کر بہت باتیں بنائی گیں۔ کہ اس کا حلیہ کسی طرح بھی پاپ اسٹار جیسا نہیں۔ اس کی شکل و صورت بھی معمولی ہے اور قد و کاٹھ بھی گیا گزرا ہے۔ پیشہ بھی کافی غیر رومنٹک ہے لیکن کرٹ کے ٹیلنٹ، لگن اور موسیقی سے محبت نے اسے ایک بڑے مقام تک پہنچا دیا۔ اور اب اس کے فینز لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ اس کے گیت اور البم ریکارڈ سیل کرتے ہیں۔ اور کرٹ اب ایک معمولی پلمبر نہیں، ایک بڑا گلوکار گیت نگار اور موسیقار ہے۔
2004 میں کرٹ نے ورلڈ آیئڈل مقابلے میں حصہ لیا۔ یہ مقابلہ گیارہ ملکوں کے ان آرٹسٹوں کے درمیان تھا جو اپنے اپنے ملکوں میں کامیاب رہے۔ رزلٹ ان گیارہ ملکوں کے ناظرین کے ووٹ پر مبنی تھا۔ ان ملکوں کے لوگ اپنے ملک کے آرٹسٹ کو ووٹ نہیں کر سکتے تھے۔ کرٹ نے مقابلے میں حصہ لینے والوں کو ایک کے بعد ایک کو شکست دی۔ سیمی فائنل میں پہنچا۔ پروگرام کے ججز بھی انٹرنیشنل شہرت رکھتے تھے۔ ان میں ایک جج جو آسٹریلیا سے تعلق رکھتا تھا اس نے یہ ریمارک دیا ”کرٹ تم بہت اچھا گاتے ہو۔ تمہاری آواز کسی فرشتے جیسی ہے لیکن تم خود ایک “ہوبیٹ” جیسے ہو۔ ہوبیٹ ایک خیالی مخلوق ہے جو چھوٹے قد کے لوگ تھے۔ جیسا کہ فلم “لارڈ آف دا رنگز” میں دکھائے گئے تھے۔ یہ سراسر توہین آمیز کلمات تھے لیکن کرٹ اسے برداشت کر گیا۔ لیکن اس سے بھی بدتر سایمن کوولز کے ریمارک تھے جو دل دکھانے والے تھے۔“ ہم نے بہت سے بد شکل لوگوں کو آرٹسٹ بننے کی اجازت دے دی ہے۔” لوگوں کی اکثریت نے ان ریمارکس کو سخت ناپسند کیا۔ کرٹ کو دانتوں کے بیچ خلا پر بھی مذاق سہنا پڑا۔ اس کی مسکراہٹ کو سوراخ والی مسکان کہا۔

یکم جنوری 2004 کی شب دنیا کے بیس ممالک کے گلوکار مقابلے میں آئے۔ سو ملین سے زیادہ ناظرین نے ”ورلڈ آیئڈل“ لائیو پروگرام دیکھا۔ ایک ملین سے اوپر ناروجیینز دل تھام کر ٹی وی اسکرین سے چپکے رہے۔ شو کے فیورٹ امریکہ کی کیلی کارسن اور برطانیہ کا ویل یونگ تھے۔ لیکن فائنل مقابلہ کرٹ اور کیلی کے درمیان ہوا۔ کرٹ نے یو ٹو کا مشہور گیت ”بیوٹی فل ڈے“ گایا اور سماں باندھ دیا۔ کرٹ نے کیلی کو پورے 9 پوائنٹس سے شکست دی جس پر خود کیلی بھی حیران اور غمزدہ نظر آئی۔ جب کرٹ کی جیت کا اعلان ہوا تو وہ بھی جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ اسے بمشکل یقین آ یا۔ وہ ٹھیک سے شکریہ بھی ادا نہ کر سکا۔ پھر اس نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا اور جی بھر کے رویا۔ اس کے بعد کرٹ نیلسن پر شہرت اور دولت کے دروازے کھل گئے۔ بڑے بڑے کانٹریکٹس ملے۔ سنگلز بھی اور البم بھی ریلیز کیں۔ نامور گلوکاروں نے اس کے ساتھ گیت گائے ان میں اسیائس گرلز کی ملینا سی، اور کنٹری میوزک کا بادشاہ ویلی نیلسن شامل ہیں۔ آج بھی کرٹ کی مقبولیت اسی طرح قائم ہے۔ اس کا گایا ہوا ایک گیت ”ہالے لویا“ مقبولیت کے نئے ریکارڈز بنا گیا۔


کرٹ اپنی ذاتی زندگی میں زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ 2005 میں وہ اپنی گیارہ سال کی پارٹنر سے جدا ہوا۔ دونوں کے دو بچے ہیں۔ 2006 میں نئی گرل فرینڈ کے ساتھ پیمان باندھے۔ اس سے ایک بیٹا ہوا۔ اسی سال دونوں نے شادی کرلی اور 2013 میں یہ شادی بھی ٹوٹ گئی۔ 41 سال کی عمر میں کرٹ نانا بن گیا جب اس کی 22 سالہ بیٹی ماں بنی۔

انجلینا جورڈن استار (Angelina Jordan Astar 10 January 2006)

سن 2014 میں ناروے ”ہیز ٹیلنٹ“ نامی شو میں سات سال کی ایک پیاری سی بچی سر پر پھولوں کا تاج پہنے ننگے پیر آئی۔ ”گلومی سنڈے“ گیت سنایا۔ اور ججز کو دنگ کر دیا۔ پروگرام نشر ہوا تو ناروے میں اس کی پہچان بن ہی گئی۔ اور یہ ویڈیو وائرل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دنیا میں بھی اس کی شہرت پھیل گئی۔ ناروے کے ایک چھوٹے سے شہر کی چھوٹی سی لڑکی نے دنیا بھر میں دھوم مچا گئی۔

انجلینا ابھی ڈیڑھ سال کی تھی جب اس نے اپنے گھر والوں کو یو ٹیوب پر ویٹنی ہیوسٹن کا گانا ”آئی ویل آلویز لو یو“ سنایا اور حیرت انگیز طور پر اس نے خود یو ٹیوب پر گانے کے پہلے چار حرف ٹائپ کرنا سیکھ لیا۔ اور اس گیت کو سنتی رہی۔ اور بار بار سنتی رہی۔ اور پھر گانے کے ساتھ خود بھی گانا شروع کر دیا۔ اس کی فیملی نے یہ اندازہ لگا لیا کہ انجلینا میں موسیقی کا زبردست ٹیلنٹ ہے۔ ذرا بڑی ہوئی تو اس نے جاز موسیقی میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ بڑے نامور گانے والوں کو سننا اور ان کے ساتھ خود بھی سر لگانے شروع کر دیے۔ سات سال کی عمر میں اس نے ایک اشتہار دیکھا جو ناروے کے ایک ٹیلنٹ شو کا تھا۔ انجلینا اس میں شرکت کرنا چاہتی تھی۔ اس کی ماں سارا آستر نے اس کی پوری حوصلہ افزائی کی۔ اس وقت اس کے سامنے کے دانت بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔ مقابلے میں بڑے بڑے فنکار تھے لیکن ان سب کو شکست دے کر وہ جیت گئی۔
اس کا فیمیلی بیک گراؤنڈ بڑا دلچسپ ہے۔ باپ گیری سویڈیش ہے۔ ماں نارویجین ہے اور ماں کی ماں ایرانی اور باپ جاپانی ہے۔ انجلینا ناروے میں پلی بڑھی۔ لوگ اس کی آواز کے شیدائی ہو گئے۔ اسے اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ پر پورا کنٹرول تھا۔ سر تال صحیح جگہ لگاتی۔ آواز میں درد و سوز اور مٹھاس بھی اپنی جگہ۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی چھوٹی سی شہزادی بن گئی۔ یو ٹیوب پر اس کی ویڈیوز آئیں تو ایک سو دس ملین لوگوں نے اسے دیکھا اور سنا۔ آٹھ سال کی عمر میں اس کی شہرت اور مقبولیت ایک زندہ حقیقت بن۔ پھر وہ اپنے والد کے پاس امریکہ پہنچ گئی۔ وہاں کئی ٹی وی چینلز پر لائیو پرفورم کیا۔

پریس میڈیا میں بھی اس چرچا ہوا۔ پیپلز میگزین، دا ٹایمز اور کئی دوسرے بڑے جریدوں میں اس کا نام چھپنے لگا۔ اس نے کئی چیریٹی پروگراموں میں بھی گایا۔ وہ بڑے بڑے اسٹیج پر پوری خوداعتمادی سے ننگے پیر کھڑی ہو کر پرفارم کرتی ہے۔ ننگے پیر کیوں؟ اس کے بارے میں بھی اس سوال ہوا۔ انجلینا کی نانی میری زمانی کا تعلق ایران سے ہے اور وہ ایک آرٹسٹ ہیں۔ انجلینا چھ سال کی تھی تو ایران میں اسے ایک بے گھر لڑکی ملی جس کے پیروں میں جوتے نہیں تھے۔ اس لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ انجلینا نے اپنے جوتے اسے دے دیے اور کہا اپنے خواب پورے کرنا۔ اپنی ویب سائٹ پر خود انجلینا نے لکھا کہ اس نے طے کر لیا اس وقت تک جب تک دنیا کے سارے بچوں کے پاس پہننے کو جوتے نہ ہوں گے وہ کبھی بھی جوتوں کے ساتھ پرفارم نہیں کرے گی۔ وہ اب بھی اس چھوٹی سی ایرانی لڑکی کو نہیں بھولی اور بقول خود اس کے وہ لڑکی اس کے دل کے قریب ہے۔
انجلینا نے اس لڑکی سے دوستی اس طرح نبھائی کہ 2015 میں ایک کتاب لکھی ”دو دلوں کے درمیان“ اس کتاب میں اس کی نانی کی بنائی تصاویر ہیں۔ اس وقت انجلینا کی عمر نو سال تھی اور اس طرح وہ ناروے کی کم عمر ترین مصنفہ بنی جس کی کتاب چھپی۔

Angelina Jordan – Norway – 2018

اس کے ساتھ وہ رفاہی کاموں کے لیے بھی مدد کرتی رہی۔ اس نے جرمنی کے ایک ادارے جو بچوں کی مدد کرتا ہے کے لیے 21 ملین کی مدد فراہم کی۔ 2014 میں جب ملالہ یوسفزئی اور کیلاش ساتیارتھی کو نوبل انعام ملا تو اس نے اوسلو میونسپل ہال میں ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انجلینا نے لویئس آرمسٹرانگ کا مشہور زمانہ نغمہ ”اٹس آ ونڈرفل ورلڈ“ گایا اور سماں باندھ دیا۔

2020 میں امریکہ کے ٹیلنٹ شو میں حصہ لیا۔ ججز دم بخود تھے کہ اس چھوٹی سی بچی میں موسیقی کی اتنی سمجھ بوجھ اور آواز پر اتنا کنٹرول کیسے آیا۔ اس نے کویئنز کا گانا ”بوہیمیان راپسودی“ جیسا مشکل گانا گایا۔ خود کویئنز گروپ نے اپنی ٹویٹ میں اسے سراہا۔ وہ پانچویں نمبر پر آئی۔ جیت تو نہ سکی لیکن دیکھنے والوں کو یاد رہ گئی۔

انجلینا ان دنوں امریکہ میں کیلیفورنیا میں رہ رہی ہے۔ جہاں اس کے والد آئل برانچ میں انجینیئر ہیں۔ وہ اپنے گیت خود لکھتی ہے خود ہی ان کی میوزک بناتی ہے اور اپنے یوٹیوب چینل پر ڈالتی ہے۔ دیکھے والوں کی تعداد کئی ملین سے آگے نکل گئی ہے۔ وہ پیانو، وائلن، بانسری اور گٹار بجا سکتی ہے۔ موسیقی سے جو فارغ وقت ملتا ہے اس میں مصوری کرتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے اب باہر نہیں جاتی لیکن جب بھی پرفورم کرتی ہے ننگے پیر اسٹیج پر جاتی ہے۔

2014 کے نوبل امن انعام  کنسرٹ میں ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستھیارتی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments