ڈاکٹر اوسکر وورز کی یاد میں


پچھلے دنوں جب جولیا نے مجھے بتایا کہ اوسی (جن کا مکمل نام ڈاکٹر اوسکر ووز تھا) اس دنیا میں نہیں رہے تو مجھے یوں لگا جیسے میری فیملی کا ایک اہم فرد اور بزرگ دنیا سے چل بسا ہو۔ ہم بہت دن تک بہت اداس رہے۔ جولیا نے اوسی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے دعوت نامہ بھیجا تھا مگر میں اپنی آسٹرین فیملی کے اس دکھ میں ذاتی طور پر شریک نہیں ہو سکا تھا۔ مگر تب ہی نم آنکھوں کے ساتھ یہ ضرور سوچا تھا کہ کسی دن اوسی کی یاد میں لکھوں گا اور ”ہم سب“ میں شائع کر کے اپنے ہم وطنوں کو بتاؤں گا کہ محبت کسی سرحد، رنگ، نسل، مذہب یا قومیت کی پابند نہیں ہوتی، بلکہ محبت صرف محبت ہوتی ہے۔

اوسی امریکہ سے فزکس میں پی ایچ ڈی تھے اور یونیورسٹی آف انزبروک (آسٹریا) کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔ وہ جولیا (میری پی ایچ ڈی سپروائزر) کے والد اور کیرن کے شوہر تھے مگر میرے لیے ایک محسن اور رہنما تھے۔ 84 سال کی بھر پور زندگی گزارنے کے بعد کینسر کا شکار ہو کر فوت ہوئے۔ الحمدللہ کیرن حیات ہیں اور ابھی کورونا سے صحت یاب ہوئی ہیں۔ حالانکہ کیرن آج سے چار سال قبل ہی کہتی تھیں کہ میں نے 78 برس کی بہت اچھی زندگی گزار لی ہے اور میں مرنے کے لیے بالکل تیار ہوں۔ مگر تب اوسی کی روزانہ ورزش کی عادت دیکھ کر ایسا گماں نہیں ہوتا تھا کہ اوسی کیرن سے قبل ہی دنیا چھوڑ جائیں گے، اور جو موت کی راہ دیکھ رہی ہیں وہ کورونا سے بھی نبرد آزما ہوجائیں گی۔

دو برس قبل جولیا نے بتایا کہ اوسی کو معدہ کا کینسر ہوا ہے اور وہ کیمو تھیراپی کروا رہے ہیں تب بھی حیرت ہوئی کہ وہ کس طرح 82 برس کی عمر میں نہ صرف کیمو کے لیے تیار ہوئے بلکہ مکمل ٹریٹمنٹ تک زندہ بھی رہے۔ یہ ان کی مضبوط قوت ارادی اور میڈیکل سائنس پر اعتماد کا مظہر تھا۔

انزبروک کے پہاڑوں کے باسی اوسی کو جب پہلی بار پتہ چلا کہ جولیا کو ویانا میں ایک پاکستانی سٹوڈنٹ ملا ہے تو انہوں نے صرف اس وجہ سے مجھ سے ملنے کی خواہش کی کہ وہ پاکستان کے بلندوبالا پہاڑوں سے نہ صرف بہت متاثر تھے بلکہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے ساتھ ان کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ انہوں نے پہلی میٹنگ میں ہی بتایا کہ کس طرح نانگا پربت سے اترتے ہوئے ان کے ڈاکٹر دوست کو ہنگامی حالت پیش آئی اور پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹرز نے معمولی فیس لے کر ریسکیو کر کے پہلے اسکردو اور پھر پمز اسلام آباد منتقل کر کے اس کی جان بچائی اور اس سفر اور قیام کے دوران پاکستان کے لذیذ آم زیادہ کھا لینے سے اوسی کا بھی معدہ خراب ہو گیا تھا۔ اوسی نے 1974 میں لاہور کا بھی دورہ کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے پاکستان کے دوروں کی بہت سی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں بھی دکھائیں۔

کیوں کہ آسٹریا میں میرا پی ایچ ڈی پروگرام جائنٹ تھا تو مجھے کورس ورک کے دوران ہر مہینے انزبروک جا کر مہنگے داموں ہوٹل میں رہنا پڑتا تھا۔ جب اوسی کو یہ بات پتا چلی تو انہوں نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کی آفر کی۔ پہلے تو میں کافی ہچکچایا مگر پھر جولیا نے زور دیا تو یہ آفر قبول کرلی۔ مجھے ڈر تھا کہ ایسا نا ہو کہ میری سپروائیزر کے والدین کو میری کوئی بات بری لگ جائے اور میری پی ایچ ڈی ہی کسی خطرے کا شکار ہو جائے۔

مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اوسی نے مجھے کرسمس ڈے پر گھر آنے کی دعوت دی۔ میں نے پہلے سے یہ سن رکھا تھا کہ آسٹرینز کرسمس ڈے صرف اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں ہی مناتے ہیں اور اس دن نا تو یہ خود کہیں مہمان بن کر جاتے ہیں اور نا ہی کسی کو اپنے گھر بلاتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک دوست کو یہ بات بتائی تو اس نے کہا یار تم خوش قسمت ہو کہ وہ لوگ تمہیں اپنی فیملی سمجھ رہے ہیں۔ وہ سارا دن میں نے پھر اوسی اور کیرن کے ساتھ گزارا۔ انہوں نے مجھے واپسی پر تحفے بھی دیے۔ تب سے میں نے کورس ورک کے لیے ان کے گھر رہنا شروع کر دیا اور میری زندگی میں لرننگ کا ایک نیا موڑ آیا۔ مجھے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی تھی کہ میں اسی کمرے میں رہتا تھا جو بچپن سے جولیا کا کمرہ تھا۔

کیرن، اوسی اور میں آپس میں بہت سی باتیں کرتے تھے۔ انہیں پاکستان کے متعلق بہت سی معلومات تھیں۔ کیرن کی دلچسپی کے ٹاپکس اوسی سے مختلف تھے۔ اس لیے میں طوالت سے بچنے کے لیے خود کو صرف ان باتوں تک محدود رکھتا ہوں جو میں نے ایک اوسط پاکستانی بزرگ اور اوسی میں مختلف محسوس کیں۔ ویسے بھی کیرن کا ذکر کرنے کو یہ بلاگ بہت ہی کم جگہ ہے۔

اوسی زیادہ باتونی نہیں تھے مگر اپنے اصولوں کے بہت پکے تھے۔ ایک سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے ایتھلیٹ بھی تھے۔ پہاڑوں پر چڑھنا اور روزانہ ورزش کرنا ان کا معمول تھا۔ میں نے ان کو ناشتہ کی ٹیبل سے رات سونے تک ایک خاص روٹین یکسوئی کے ساتھ فالو کرتے دیکھا تھا۔ وہ روزانہ اخبار اور اچھی اور معیاری کتاب ضرور پڑھتے تھے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ کی کتاب بھی انہوں نے جرمن زبان میں مکمل پڑھی اور میرے ساتھ تفصیل سے ڈسکس بھی کی۔ تب ہی پہلی بار اوسی نے مجھے سمجھایا کہ انفرادی طور پر لوگ اہم نہیں ہوتے، بلکہ نظریہ یا مائنڈ سیٹ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس لیے لوگوں کی بجائے ہمیشہ نظریہ کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔

اوسی اکثر کہتے تھے کہ پانی بہت قیمتی اور نایاب چیز ہے، اسے استعمال کرنے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ اوسی مجھے یا کیرن کو برتن نہیں دھونے دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ کاغذ کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ دودھ کے خالی ڈبوں کو بہت سلیقے سے ترتیب لگا کر دوبارہ استعمال کے ڈرم میں ڈال کر آتے تھے۔ کچن میں ایسی چیزوں کو الگ رکھتے جن کو پراسیس کر کے دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کچن کے استعمال کے لیے زیادہ تر چیزیں چھوٹے کسانوں سے براہ راست خرید کر لاتے تھے تاکہ لوکل لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔

اوسی اپنی بیوی کیرن کا بہت خیال رکھتے تھے اور سیر و سیاحت دونوں کا مشترک شوق تھا۔ کیرن کے کولہوں کی سرجری ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ نیچے بیٹھ کر اپنے جوتوں کے تسمے خود نہیں باندھ سکتی تھیں تو یہ ڈیوٹی گھر کے اندر اور باہر ہر جگہ اوسی سر انجام دیتے تھے۔ دونوں نے کچن اور گھر کے تمام کام بانٹ رکھے تھے۔ بیٹھ کر کرنے والے سب کام اوسی کرتے تھے۔ برتن دھونے کے علاوہ کھڑے ہو کر کرنے والے سب کام کیرن کرتی تھیں۔

کیرن کی صحت زیادہ ٹھیک نہیں رہتی تھی، مگر ریٹائرمنٹ کے باوجود اوسی ان کو ہر سیزن میں کہیں نا کہیں چھٹیاں گزارنے ضر لے کر جاتے تھے۔ مگر آئس لینڈ کے دورہ پر کیرن کو ساتھ نہ لے جا سکنے کا اوسی کو افسوس تھا۔ پھر بھی اکیلے صرف اس لیے چلے گئے کہ یہ ان کا اک خواب تھا۔ واپس آ کر کئی دن تک ہمارے ساتھ آئس لینڈ کی باتیں کرتے رہے۔

اوسی کو اپنے بچوں جولیا اور الرخ سے بہت پیار تھا۔ الرخ انز بروک میں ہی رہتے ہیں۔ وہ اکثر کیرن اوسی سے ملنے آتے تو اوسی اور الرخ جرمن زبان میں دیر تک باتیں کرتے رہتے اور کیرن کتاب پڑھتی رہتیں یا ٹیلی ویژن دیکھتی رہتی تھیں۔ جولیا کے ساتھ تقریباً روزانہ ٹیلیفون پر بات کرتے تھے۔ جولیا کی پولینڈ کی ایک کانفرنس میں تقریر کی ویڈیو اوسی نے کئی بار دیکھی اور میرے سامنے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے جولیا پر بہت فخر محسوس ہوتا ہے، تم خوش قسمت ہو کہ جولیا کے شاگرد ہو۔ وقت نے پھر ثابت کیا کہ میں واقعی بہت خوش قسمت تھا۔

میری شادی کے بعد اوسی نے مجھے اور میری بیوی کو چھٹیاں گزارنے کے لیے انزبروک بلایا۔ اس دوران ملک شام سے بہت سے مہاجرین بھی آسٹریا میں آ گئے اور اوسی اور کیرن مہاجرین کی مدد والی تنظیم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ جس روز ہم چاروں نے سیر کو جانا تھا تو گاڑی میں ایک سیٹ خالی تھی۔ اوسی کو کیرن نے جرمن زبان میں مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم کسی مہاجر بچی کو بھی کیمپ سے ساتھ سیر پر ساتھ لے جائیں۔ مگر اوسی نے جواب دیا کہ ایسا صرف تبھی ممکن ہے اگر ہمارے مہمانوں کو اعتراض نہیں ہو۔

اوسی نے پھر مجھ سے اور عائشہ سے الگ الگ پوچھا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم شامی بچی لانہ کو بھی ساتھ لے جائیں۔ ہمیں سرے سے کوئی اعتراض نہیں تھا اس لیے اس دورہ میں لانہ اور الرخ کا پالتو کتا فن بھی ہمارے ساتھ تھے۔ بلاشبہ ہم سب نے اکٹھے بہت انجوائے کیا تھا۔ اوسی نے ہم سے صرف اس لیے پوچھا تھا کہ ہمارا ان کے ساتھ یہ پروگرام بہت پہلے طے ہوا تھا اور ایسا نہ ہو کہ ہمیں لانہ کی موجودگی میں پرائیویسی کا کوئی پرابلم ہو۔ اس صورتحال کا پاکستانی بزرگوں کے ساتھ موازنہ اور تجزیہ آپ خود کر بہتر سکتے ہیں۔

اوسی زندگی کے تقریباً ہر پہلو پر تفصیل سے بات کر سکتے تھے۔ تاریخ، حالات حاضرہ، سیاست، انفارمیشن ٹیکنالوجی، موسم اور جسمانی صحت کی باتیں زیادہ شوق سے کرتے تھے۔ پاکستانی بزرگوں کے برعکس ان میں سننے اور برداشت کرنے کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ اس وقت تک جواب نہیں دیتے تھے جب تک دوسرا اپنی بات مکمل نہیں کر لیتا تھا۔ امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے اور کئی برس وہاں گزارنے کے باوجود وہاں کے کلچر اور سیاست کے منفی پہلوؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

ایک سیاح ہونے کے ناتے تقریباً ہر قسمی کھانا شوق سے کھاتے تھے۔ میں نے بھی ان کو پاکستانی کھانوں میں سے قورمہ اور بریانی کئی بار بنا کر کھلائی تھی جو انھیں بہت پسند تھی۔ وہ اور کیرن بھی مجھے مختلف آسٹرین کھانے بنا کے کھلاتے اور ریسیپی کی تفصیل بھی بتاتے تھے جو میں بہت جلد بھول جاتا تھا۔ مجھ سے بھی وہ پاکستانی کھانوں کے اتنے ہی تفصیلی تجزیہ کی امید کرتے تھے جو مجھ سے نہیں ہو پاتا تھا۔ اس لیے میں اکثر کہ دیتا تھا کہ بریانی میں بہت سی دیسی جڑی بوٹیاں ڈلتی ہیں، جو شان یا نیشنل کے پیکٹ میں پیس کر کمپنی نے ہی ڈالی ہوتی ہیں۔

اوسی کو میں نے اس دن بے حد رنجیدہ دیکھا جب انہوں نے ٹیلی ویژن پر یہ خبر سنی کہ پاکستان کے شہر لاہور کی عدالت کے احاطہ میں میں بھائیوں نے سگی بہن کو عزت کے نام پر اینٹون سے مار کر قتل کر دیا۔ اوسی بار بار یہ کہتے کوئی بھائی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ اس روز جب میں یونیورسٹی سے واپس آیا تو ہم آپس میں بہت کم بات کر سکے تھے۔

کورس ورک ختم ہو جانے کے بعد میرا انزبروک آنا جانا کم ہو گیا تھا مگر اوسی میری پراگرس بارے اکثر جولیا سے پوچھتے رہتے تھے۔ اور کبھی کبھار ہماری فون پر بات بھی ہو جاتی تھی۔ کسی خاص دن پر ان کی طرف سے پوسٹ کارڈ بھی موصول ہو جاتا تھا۔ مگر چھ برس کے طویل تعلق میں انہوں نے میری ذات، ملک، مذہب یا کلچر پر کبھی تنقید یا اعتراض نہیں کیا اور نا ہی کسی قسم کی تبلیغ کی۔ وہ بے حد کھلے دل اور دماغ کے عظیم انسان تھے۔ وہ اس کرہ ارض کو انسانوں کے لیے عزت نفس کے ساتھ رہنے کی پر سکون جگہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا اور ماننا تھا کہ سائنس کی مدد سے ایسا ممکن ہے، کیوں کہ سائنس بہت دلچسپ اور سحر انگیز ہے۔ اوسی کی موت سے میں اپنی زندگی میں ایک نفیس اور با اصول انسان کی کمی ہمیشہ محسوس کرتا رہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments