محبوب کی مہندی، گلشن کا کاروبار اور 3.9 فیصد شرح نمو


ہمارے مدیر محترم کو محبوب کی مہندی کے ذکر سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آج ہم لکھنو کی سیاحت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ گلشن کے کاروبار سے خائف ہونے کا اندیشہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس شعبے میں تو برادر بزرگ ایاز امیر نے گویا اپنا اجارہ ہی قائم نہیں کیا، چام کا سکہ بھی جاری کر دیا۔ آج معیشت کا کچھ ذکر رہے گا۔ خدائے سخن میر سے بہرصورت مفر نہیں۔ جن بلاؤں کو میر سنتے تھے / ان کو اس روزگار میں دیکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ جمعہ کو قومی اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں حالیہ مہینوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اقتصادی شرح نمو کا تخمینہ لگایا گیا۔ اس اجلاس سے یہ خوشخبری برآمد ہوئی کہ مالی برس 2020۔ 21 کے دوران قومی معیشت کی شرح نمو 3.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ ما را از ایں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود۔

رواں مالی برس کے آغاز پر خود حکومت نے جی ڈی پی میں شرح نمو کا ہدف 2.1 فیصد مقرر کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک نے رجائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی معیشت میں تین فیصد ترقی کی پیش گوئی کی تھی۔ ہماری معیشت کے کیف و کم پر کچھ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی بوجوہ نظر رکھنا ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ تھا کہ اس برس پاکستان کی معیشت دو فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی جب کہ ورلڈ بینک کا تخمینہ تھا کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو اس سال ایک سے ڈیڑھ فیصد رہے گی۔ گزشتہ ماہ وفاقی کابینہ نے عالمی معاشی اداروں کو باضابطہ طور پر مطلع کیا تھا کہ رواں برس ہماری معاشی نمو کی شرح 2.9 فی صد رہے گی۔ اب یہ جو 3.9 فیصد شرح نمو کا کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا فضا میں بلند ہوا ہے، اس سے ایک سوال کھڑا ہو گیا ہے۔

15 اپریل کو یعنی صرف پانچ ہفتے قبل وزیر اعظم نے ہمیں اپنا چوتھا وزیر خزانہ عطا کیا تھا۔ اسد عمر، حفیظ شیخ (حال سکنہ نامعلوم) اور حماد اظہر کے بعد شوکت ترین کی رونمائی ہوئی تھی جنہوں نے چھوٹتے ہی گزشتہ معاشی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اہم معاشی تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا۔ اب اگر معیشت کی شاخ پر ایسے سبز پتے نظر آ رہے ہیں تو اس کا سہرا تو حفیظ شیخ کی پالیسیوں کے سر بندھنا چاہیے اور بالواسطہ طور پر آئی ایم ایف کے تجویز کردہ نسخے کی حذاقت پر ایمان لانا چاہیے۔ تو شوکت ترین کی مجوزہ تبدیلیوں کی کیا ضرورت رہی۔ دوسری طرف ملک کے کم از کم چار جید ماہرین معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان، حفیظ پاشا، قیصر بنگالی اور اکبر زیدی نے رائے ظاہر کی ہے کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ معاشی ترقی کا تخمینہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ غالب امکان یہ ہے کہ اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے حکومت کی معاشی ساکھ کو سہارا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک خطرناک اشارہ ہے۔ ان امید افزا اعلانات کی روشنی میں عالمی مالیاتی اداروں کو ان پالیسیوں پر اصرار کرنے کا جواز مل جائے گا جن سے عام آدمی کی کمر پہلے سے دوہری ہو رہی ہے۔ یہ امر زیادہ تشویش ناک ہے کہ اگر یہ اعداد و شمار واقعی مبالغہ آمیز ہیں تو ان کی روشنی میں طے پانے والے آئندہ معاشی اقدامات کی بنیاد ہی مفقود ہو گی اور ناکامی نوشتہ دیوار۔

آئیے دیکھیں کہ حکومت نے اس حیران کن تخمینے کی کیا وجوہات بیان کی ہیں۔ عمران خان، اسد عمر اور حماد اظہر کے ٹویٹ تو اشتہاری اعلانات ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے صنعتی اداروں کو بینک قرضوں میں کلیدی رعایات دیں، تعمیراتی شعبے، آٹوموببل اور سیمنٹ کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام رہا۔ ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ کورونا کے جوار بھاٹے میں بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں ہماری ٹیکسٹائل صنعت فائدے میں رہی۔ فیصلہ کن معاملہ یہ رہا کہ گندم اور گنے کی فصلیں بہت اچھی رہیں۔ کچھ حلقوں میں گندم کے کسی نئے بیج کا چرچا ہے لیکن شواہد کے مطابق گندم کے تین روایتی بیج فیصل آباد 2008، اکبر 2019 اور فخر بھکر ہی بوئے گئے ہیں۔ اس برس ایک کروڑ 60 لاکھ ایکڑ کی بجائے قریب چار لاکھ ایکڑ زیادہ رقبے پر گندم بوئی گئی۔ موزوں موسمیاتی حالات کے باعث ہماری فصل اس برس پیلا (Yellow Rust) سے محفوظ رہی۔ اوسط فی ایکڑ پیداوار 30۔ 35 من فی ایکڑ کی بجائے 40 سے 45 من فی ایکڑ رہی ہے۔ 1800 روپے فی من کی سرکاری قیمت کے مقابلے پر گندم کھلی منڈی میں 2000 سے 2200 روپے فی من فروخت ہو رہی ہے۔ دوسری طرف کپاس کا زیر کاشت رقبہ کم ہوا ہے اور فصل بھی اچھی نہیں اٹھی۔ گویا ٹیکسٹائل کی بنیادی صنعت کو درآمدات کی ضرورت پیش آئے گی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ عام آدمی نے اس برس ماضی کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ اخراجات کیے ہیں۔ موجودہ حکومت میں 50 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں اور کل بے روزگار آبادی دو کروڑ ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کم از کم 11 فیصد اضافے کے باعث عوام کے اخراجات بڑھے ہیں لیکن انہیں اپنا معیار زندگی نیچے لا کر بنیادی ضروریات پر خرچ کرنا پڑا ہے۔ اور اب ایک بنیادی معاشی حقیقت کا بیان، زراعت پر انحصار کرنے والے ملک کی معیشت ہمیشہ غیر یقینی موسمی حالات اور عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے تابع رہتی ہے۔ اگر اس برس گندم کی فصل میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے تو ماضی میں گندم کی پیداوار میں 48.8 % ( 1968 ) ، 13 % ( 1973 اور 1976 ) ، 18 % ( 1979، 1986 اور 2000 ) کا اضافہ بھی مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ مجموعی معیشت اور فی کس آمدنی میں مستحکم اضافے کے لئے تعلیم اور صنعتی ترقی کو قومی ترجیح قرار دیجئے۔ موسمی تغیرات اور اعداد و شمار کا الٹ پھیر تو محبوب کے دست مرمریں پر دزد حنا کی تحریر ہے، اس سے گلشن کا کاروبار نہیں چلتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments