نہ شکل نہ فیملی نہ اسٹیٹس



میرے سامنے والی کھڑکی میں
اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے

زہرہ جبیں نے حسب معمول ٹیپ ریکارڈر پر اونچی آواز میں یہ نغمہ چلایا ہوا تھا۔ آواز اتنی اونچی تھی کہ اس کا آنگن اور درمیان کی چھ فٹ کی گلی کو پھلانگتی رامس کے کمرے کی کھڑکی سے گزر کر دالان تک دندناتی گھس آئی تھی۔ ہر روز بلا ناغہ یہ نغمہ دن میں ایک بار تو ضرور ہی بجتا۔ بادی النظر میں تو یہی لگتا کہ زہرہ جبیں کو اس نغمے کی دھن پسند ہے، گائیکی لبھاتی ہے یا شاید شاعری کا ترنم اچھا لگتا ہے۔ لیکن ایک دن چھت پہ کھڑی ہوئی رفیعہ نے یہ راز جان لیا کہ زہرہ جبیں یہ گانا اس وقت چلاتی ہے جب چھوٹے بھیا زہرہ جبیں کے آنگن کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑے ہوتے ہیں۔

بظاہر وہ صحن میں لگے ہینڈ پمپ سے بالٹی بھر رہی ہوتی، یا بانس کی جھاڑو سے شڑاپ شڑاپ صحن دھو رہی ہوتی یا پھر سائبان تلے چولھے پر چڑھی ہانڈی میں ڈوئی چلا رہی ہوتی مگر دھیان سارا گھنگریالے بالوں والے پرکشش چھوٹے بھیا کی طرف ہوتا۔ کن انکھیوں سے وہ ان کی طرف دیکھتی جاتی۔ کبھی کوئی مسکراہٹ اچھال دیتی اور کبھی مبہم سا اشارہ کر دیتی۔ اس کے اشاروں کا چھوٹے بھیا کیا جواب دیتے ہیں رفیعہ دیکھ نہیں پائی۔ زہرہ جبیں کے زہرہ ہونے میں تو اختلاف کی گنجائش تھی مگر وہ قیامت کا سراپا ضرور رکھتی تھی۔

اور اس سے وہ خود بھی بخوبی آگاہ تھی۔ بغیر چاک کا تنگ قمیض اور ٹچ بٹن والی تنگ موری کی شلوار سے جسم کے پیچ و خم ایسے نمایاں ہوتے کہ رامس کا جوان دل دھڑکنا بھول جاتا۔ زہرہ جبیں اس نظریے کی قائل تھی کہ پردے کی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ مرد کی آنکھوں پر ہے یہ اور بات کہ مرد اس ذمہ داری کو اٹھانے پر کبھی راضی نہ ہوئے۔ یا شاید دو ڈھائی فیصد مرد نگاہوں پر قابو رکھ پاتے یوں۔ یہ دو ڈھائی فیصد مردوں کی نگہ بندی کا خیال بھی اسے ابا میاں کے بارے میں سوچ کر آیا تھا۔ اس کے آبا بڑے ہی شریف النفس آدمی تھے۔ نیچی نگاہ کیے گھر سے دکان اور دکان سے گھر۔ اور اسے یقین تھا کہ جوانی میں بھی وہ نگہ باز نہیں ہوں گے۔

رفیعہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ سن ہوگا یہی کوئی سولہ یا سترہ۔ دسویں پاس کر کے گیارہویں میں آئی تھی۔ وہ عام سے نقوش کی فربہی مائل گداز جسم کی مالک تھی۔ رنگت دبی ہوئی تھی اور قد میں بھی مار کھا گئی تھی۔ اس کی اماں اجلے رنگ کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں والی دلکش خاتون تھیں ابا اور بھائی بھی مردانہ وجاہت کا نمونہ تھے۔ پر اس نے نہ جانے آبا و اجداد کی کون سی پیڑھی کی جین ورثے میں پائیں تھی کہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر جب بھی خود کو دیکھتی تو جھنجھلا جاتی اسے لگتا آئینہ اسے منہ چڑاتا ہے۔ وہ اماں سے کہتی

”اماں میرا رنگ آپ جیسا گورا کیوں نہیں، میری آنکھیں بڑی کیوں نہیں اور میرے بال چھوٹے بھیا جیسے گھنگریالے کیوں نہیں۔“

اماں کا دل کٹ جاتا وہ اس کا دل رکھنے کو کہتیں

”اتنی پیاری تو ہے میری بیٹی اور تم نے وہ کہاوت نہیں سنی روپ کی روئے اور نصیب کی کھائے۔ بس نصیب اچھا ہونا چاہیے اور میری بیٹی کا نصیب تو شہزادیوں جیسا ہوگا دیکھنا تم۔“

اور رفیعہ اماں کی بات پر من و عن یقین کر لیتی۔ رات کو بستر پر لیٹ کر آنکھیں موندھتی تو ایک شہزادہ سبک خرام اس کے دربار میں زانوئے عشق تہ کرتا نظر آتا۔ جاگتی آنکھوں سے وہ اس شہزادے کو حقیقی دنیا میں کھوجتی رہتی۔ اور پھر ایک دن وہ شہزادہ سچ مچ اس کی زندگی میں آ گیا۔

نچلی منزل پر مردانہ بیٹھک تھی جس کا ایک دروازہ گھر کے اندر اور ایک باہر زہرہ کے گھر کے مقابل کھلتا تھا رفیعہ نے سنسان دوپہروں میں زہرہ کو گلی پھلانگ کر بیٹھک میں آتے دیکھا تھا۔ چھوٹے بھیا کے دوست آئے دن آ ٹپکتے۔ اماں گھر کے بنے ہوئے پکوان اور چائے کے پیالے ٹرے ہر رکھ کر اسے دیتیں وہ نیچے جاکر اندرونی دروازے کی کنڈی کھٹکھٹاتی۔ چھوٹے بھیا دروازہ نیم وا کر کے ٹرے اس سے لے لیتے۔ جب دوست چلے جاتے تو وہ جاکر برتن اٹھا لاتی۔

نیم وا دروازے سے ہمیشہ اسے ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا۔ جانے وہ اتفاق تھا یا وہ شخص جان بوجھ کر دروازے کے عین مقابل کرسی پر بیٹھتا تھا۔ وہ چھریرے بدن، سبک نقوش اور چمپئی رنگت والا نوجوان تھا۔ نیم وا دروازے سے پیدا چوکھٹے میں وہ کسی جاذب نظر تصویر کی طرح سمایا ہوا دکھتا۔ کئی بار رفیعہ کو گمان ہوا کہ یہی اس کے خوابوں کا شہزادہ ہے جو دراصل اس چوکھٹے میں قید ہے۔ وہ منتظر تھی کہ کب وہ اس چوکھٹے سے باہر آ کر اپنی گھوڑی پر بٹھا کر خوابوں کی نگری لے جائے گا۔ وہ انتظار میں رہتی کہ کب چھوٹے بھیا اسے آواز دیں اور وہ چائے کی ٹرے لے کر نیچے جائے، دروازہ نیم وا ہو اور وہ اسے دیکھے۔ کبھی کبھی اسے وہ آنکھیں برق مقناطیسی پیغام ارسال کرتی محسوس ہوتیں۔

اس روز وہ چائے پہنچا کر اوپر چھت پر چلی آئیں۔ تھوڑی دیر بعد زہرہ جبیں کے گھر سے کشور کمار کا مخصوص ریکارڈ بجنے کی آواز آئی تو اس نے سوچا چھوٹے بھیا دوستوں کو نمٹا کر کھڑکی پر آ گئے ہیں۔ لہذا وہ برتن اٹھانے نیچے بیٹھک میں چلی آئی۔ خالی پیالے ٹرے پر دھرے تھے اور ٹرے لکڑی کی چوکور میز پر تھی۔ اور میز کے ساتھ والی کرسی پر ’وہ‘ بیٹھا تھا۔

”اوہ آپ! میں سمجھی سب چلے گئے ہیں۔ میں برتن لینے آئے تھی“ لفظ اس کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہوئے۔
”جی سب چلے گئے ہیں۔ رامس اور میں ساتھ پڑھیں گے۔ رامس اوپر کتابیں لینے گیا ہے۔“ اس نے کہا

رفیعہ نے آگے بڑھ کر چائے کی ٹرے اٹھائی۔ آدھی آستین والا رفیعہ کا بازو اس کے بالوں بھرے بازو سے چھچھلتا ہوا سا ٹکرایا۔ اور گویا پانی کی بوند جلتے توے پر پڑ گئی ہو اور مستی میں رقص کناں ہو اور اس رقص میں ہر بن مو اس کا سنگی ہو۔ اور تب ہی اس پر منکشف ہوا کہ اس بے خودی میں وہ تنہا نہیں عزیز کے لب کے بیرونی گوشے کی پھڑپھڑاہٹ اور آنکھوں کی جامد پتلیاں ناطقے کی مرہون منت نہ تھیں۔ وہ دروازے کی جانب بڑھی تو جیسے کسی جادوئی منتر نے اسے جکڑ لیا۔ اس نے کہا

”تم بہت خوبصورت ہو،“

وہ بے یقینی سے پلٹی کیا یہ لفظ واقعی کہے گئے یا اس کے تصور کی بلند آہنگ خود کلامی ہے۔ اور اس سے پہلے کہ یقین اور گمان کے اس بھنور سے نکل پاتی چھوٹے بھیا کتابیں اٹھائے اندر آ گئے۔

”وہ میں برتن اٹھانے آئی تھی“
چھوٹے بھیا نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا اور درشت لہجے میں بولے۔
”چلو نکلو یہاں سے“

وہ ہمیشہ ہی بہت سخت گیر رویہ رکھتے تھے لیکن آج رفیعہ کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی وہ تو اس حسین لمس اور اس گمبھیر آواز کے سحر میں گم تھی۔ وہ دوڑتے ہوئے کمرے میں آئی اور بستر پر اوندھی پڑ گئی۔

”کیا کہا تھا اس نے، تم بہت خوب صورت ہو“

کیا وہ نابینا ہے کہ اسے خوبصورت کہتا ہے یا پھر ایک وہی دیدہ بینا رکھتا ہے جسے اس کی دل آویزی دکھائی دی ہے۔ وہ گنگناتی ہوئی اٹھی

”ہر کسی کے چہرے میں
رخ کے ایک حصے میں۔ اک ضیا سی ہوتی ہے ”
اور آئینے سے سوال کیا
”کیا میں خوب صورت ہوں“
اور آئینہ جو ہر بار منہ چڑاتا تھا آج مسکرا کر بولا
”تو اور کیا، بہت خوبصورت ہو“ اور پھر فضا کا ہر ذرہ گنگنایا
تم خوبصورت ہو، بہت خوبصورت ہو۔
_______________

عزیز اور چھوٹے بھیا بی کام کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ کئی بار چائے کا دور چلتا۔ تیز پتی والی کڑک چائے اور زیرے والے بسکٹ جست کی ٹرے میں رکھے رفیعہ سہج سہج زینہ اترتی۔ بیٹھک کی کنڈی بجاتی، چھوٹے بھیا دروازہ کھول کر ٹرے پکڑتے تو وہ جان بوجھ کر ٹرے کو آڑا کر دیتی تاکہ دروازے کا پٹ زیادہ کھولنا پڑے اور میز کے ساتھ والی کرسی پر براجمان محبوب کی دید سے سیری ہو۔ اور جونہی اس کی نظریں ملتیں اس کے جسم و جاں میں توانائی بھر جاتی۔

واپسی پر وہ کدکڑے لگاتی زینہ چڑھتی۔ اور سیدھی کمرے میں آئینے کے مقابل جاکر ٹھہرتی۔ اب اسے آئینے سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ائینے میں اسے ہیرے کی کنی سی چمکتی آنکھیں اور شبنم میں بھیگے شنگرفی لب دکھائی دیتے اور پس آئینہ کوئی اس سے کہ رہا ہوتا ”تم بہت خوبصورت ہو“ ، لیکن ایک خیال نے آس کے دل میں پھانس سی چبھو دی۔ امتحان تو ایک آدھ دن میں ختم ہو جائیں گے اسے تو دن میں کئی بار دیدار کی عادت پڑ گئی تھی۔

چھوٹے بھیا چائے کا کہنے آئے تو کہنے لگے ”کل آخری پیپر ہے اس کے بعد وہ اچھی طرح بیٹھک کی صفائی کردے۔ رفیعہ کا دل بجھ گیا۔ آج چائے میں دودھ پتی کے ساتھ چند قطرہ ہائے نمکین بھی شامل تھے۔ آج وہ سٹر پٹر کر کے زینہ اتری جیسے بمشکل خود کو گھسیٹ دہی یو۔ اس شام جب وہ چائے کے برتن دھونے لگی تو کپ اور پرچ کے بیچ تہ کیے ہوئے کاغذ کا پرزہ دکھائی دیا۔ محبت کی کہانیوں میں کاغذی رقعوں کی حکایتیں اس نے سن رکھی تھیں۔ اس نے جلدی سے کھول کر پڑھا۔ نہ محبت کے القاب نہ عشق کی وارفتگی حتیٰ کہ ’فقط تمہارا عزیز‘ ، بھی نہیں۔ بس بہت محتاط انداز میں ایک سطر لکھی ہوئی تھی“ پرسوں ساڑھے گیارہ بجے باغ جناح میں مل سکتی ہو؟ انتظار رہے گا ”۔

باغ جناح اس کے کالج سے سو قدم کے فاصلے پر تھا اصل مرحلہ پرنسپل سے ایگزٹ کی اجازت لینا تھا جس کے بغیر چوکیدار گیٹ کا کنڈا کھولنے پر کبھی راضی نہ ہوتا۔ آخر اس نے اپنی دوست فتحیا کو ہمراز بنایا۔ فتحیا نے پیٹ میں درد کا ایسا مکر کیا کہ خود رفیعہ کو گمان گزرا کہ سچ مچ میں درد اٹھ گیا۔ رفیعہ نے پرنسپل سے فتحیا کو اسپتال لے جانے کی اجازت مانگی اور پرنسپل کا اجازت نامہ دکھا کر دونوں سہیلیاں کالج سے نکل آئیں۔ اب ان کا رخ بائیں جانب باغ جناح کی طرف تھا۔ عزیز پھولوں کے کنج کے قریب اس کا منتظر تھا۔ بیتابی سے لپک کر اس کی طرف آیا

”ڈرتا تھا پتہ نہیں تمہارا رد عمل کیا ہوگا“
”مرد بھی ڈرتے ہیں کیا“
”ہاں! پہلی محبت کرتے ہوئے تو ڈر لگتا ہے“
”کیا واقعی پہلی محبت ہے“
”قسم سے“ اس نے اپنا آدم ایپل چھو کر کہا

محبت کی مدھ اسے پور پور بھگو گئی وہ یونہی دنیا و مافیہا سے بے خبر جانے کب تک باتیں کرتے رہے۔ بارے فتحیا نے آ کر یاد دلایا کہ گھر جانا ہے بھوک سے سچ مچ پیٹ میں درد ہو گیا ہے۔

محبت کی راہ پر اب واپسی کا کوئی موڑ نہیں تھا وہ عزیز کا ہاتھ تھامے سرپٹ دوڑتی چلی گئی۔ ملاقاتیں ہوتی رہیں اور پھر ایک دن چھوٹے بھیا نے اسے باغ جناح کے کنج میں عزیز کے ساتھ بیٹھے دیکھ لیا۔ انھوں نے رفیعہ کا بازو اس زور سے کھینچا گویا شانے سے الگ کردیں گے۔ اور گھسیٹتے ہوئے لے گئے جاتے جاتے عزیز سے صرف اتنا کہا ”آستین کے سانپ تجھ سے تو میں بعد میں نمٹتا ہوں۔ گھر پہنچ کر رامس نے کمر سے بیلٹ کھولی اور رفیعہ پر برسانی شروع کردی اماں کہتی رہ گئیں“ ارے ہوا کیا ہے۔ ”

”اس بے حیا سے پوچھو یہ باغ میں عزیز کے ساتھ کیا کر رہی تھی۔“
عشق نے رفیعہ میں بغاوت کی جرات رندانہ پیدا کردی تھی وہ چٹک کے بولی
”وہی جو تم بیٹھک میں زیرہ جبیں کے ساتھ کرتے ہو تمہیں اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں“

لیکن عقل ناداں کو یہ شعور کہاں تھا کہ سماج میں مرد و زن کے معیار ایک نہیں۔ تعزیر کے طور پر اس کا کالج جانا بند کر دیا گیا۔ رامس اس پر نگاہ رکھتا اور ذرا سے شبے پر دھنا دھن پیٹ ڈالتا۔

فتحیا عزیز کا پیغام لائی تھی اس نے لکھا تھا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کورٹ میرج کر لیں۔ ایک بار شادی ہو جائے تو گھر والوں کے پاس قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہوگا۔

رفیعہ اپنی زندگی میں کھلنے والے اس خوبصورت باب کو بند کرنے پر تیار نہیں تھی محبت کے سر چڑھتے نشے اور رامس کی مار پیٹ نے اس کے اندر بغاوت کا بارود بھر دیا تھا۔ اس نے اثبات میں جواب بھجوا دیا۔ فتحیا ہی تمام مراحل میں آلہ کار بنی۔ اور وہ قانوناً رفیعہ عزیز ہو گئی۔

اس کے نکاح کی خبر گھر بھر پر قیامت کی طرح ٹوٹی تھی ابا اور بڑے بھیا نے تو چپ سادھ لی تھی مگر رامس ایک بار پھر بیلٹ لے کر اس پر پل پڑا تھا۔ اخر بڑے بھیا نے اس کی گلو خلاصی کرائی اور رامس کو سمجھایا۔ تشدد کے بجائے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

حل کیا ہے طلاق دلواو بس۔ رامس بھنبھنایا۔

بڑے بھیا نے کہا عزیز سے کہو رخصتی کی تاریخ طے کرنے کے لئے اپنے گھر والوں کو بھیجے۔ رخصتی کے بعد وہ رفیعہ کو کراچی لے جائے۔ کراچی میں عزیز کے آبا کا شوروم تھا۔

شادی کی تقریبات معمول کی طرح ہوئیں مگر رفیعہ جانتی تھی کہ اس کے ساتھ بہت غیر معمولی ہونے جا رہا ہے۔ دنیا کو بتایا جائے گا وہ بیاہ کر غیر ملک گئی ہے اور کبھی اس گھر میں لوٹ کر نہ آ سکے گی۔ گاڑی اس کے نہر سے آگے بڑھی تو آنسو ٹوٹی ہوئی مالا کے موتیوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک رخساروں پر لڑھکتے چلے گئے۔

شادی کے ابتدائی دن بہت حسین تھے۔ لیکن پھر سب کچھ بدلنے لگا وہ ماں نہیں بن سکی تھی۔ حمل ٹھہرتا مگر اسقاط ہو جاتا۔ عزیز کی وارفتگی بیگانگی اور بیزاری میں بدلنے لگی۔ رات کو بہت دیر گئے گھر آتا وہ تنہا بیرائی بیرائی پھرتی۔ شکوہ کرنے پر کہتا کون سے گھر میں بچے ہیں جن کی کشش جلدی گھر لائے۔ اور وہ تڑپ کر کہتی میں، میری کشش کہاں گئی اور وہ کہتا مردوں پر اس طرح کے فیز آتے ہیں جب وہ بیوی سے اوبھ جاتے ہیں۔ ایسے

میں میکے بھیج دیا جاتا ہے اب اس کے میکے والوں نے در بند کر دیا ہے تو صبر کرے۔

اس دن شادی کی سالگرہ تھی۔ رفیعہ نے گھر کو عید کی طرح چمکایا سجایا تھا۔ دعوتی کھانا بنایا۔ کیک بیک کیا۔ کاہی رنگ کے موتیوں کے کام والا جوڑا پہنا۔ تاہم عزیز دیر گئے گھر آیا اور آنے کے بعد بھی لاونج میں بیٹھا کسی سے فون پر باتیں کرتا رہا۔ رات کے دو بج گئے وہ اٹھ کر گئی اور اسے یاد دلایا کہ شادی کی سالگرہ ہے لیکن وہ اسے نظر انداز کر کے فون پر لگا رہا۔ گفتگو سے اسے اندازہ ہوا کہ مخاطب کوئی لڑکی ہے رفیعہ آخر عورت تھی بھنا گئی اور اس کے ہاتھ سے فون چھین کر کہا ”شادی کی سالگرہ ہے اور آپ کسی طرح رافہ سے لگے ہوئے ہیں“ اور پھر وہ ہوا جس کا کبھی تصور بھی اس نے نہ کیا تھا

زناٹے دار چانٹا اس کا رخسار ادھیڑتا چلا گیا مغلظات عزیز کے منہ سے ابل رہی تھیں وہ اسے بالوں سے گھسیٹ کر بیڈروم تک لایا اور لاتوں اور تھپڑوں کی برسات کردی۔ رفیعہ صرف اتنا کہ سکی

”شادی کی سالگرہ کا یہ تحفہ“

ارے دماغ خراب ہو گیا تھا میرا۔ انکھوں میں ککروندے پڑ گئے تھے جو تجھ سے شادی کی۔ تیرے پاس نہ شکل تھی نہ فیملی نہ اسٹیٹس۔

رفیعہ صدمے سے گنگ تھی اس کے مضروب جسم سے درد کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں مگر اس سے کہیں زیادہ چاک کرتے عزیز کی زبان کے کچوکے تھے جس نے اس کی روح کو مجروح کر دیا تھا۔ وہ ہونٹوں سے بہتے خون کو دھونے باتھ روم میں آئی تو واش بیسن پر لگے آئینے نے اسے منہ چڑایا اور پس آئینہ کوئی بولا

تیرے پاس نہ شکل ہے نہ فیملی نہ اسٹیٹس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments