آنکھیں ملتا صوفی۔ ریحان اقبال


آپ اسے صوفی کہہ لیں، سست اور آرام پرست سمجھ لیں، بے ضرر سا ذرہ سمجھ لیں، اصول پسند نظریاتی مان لیں یا فلسفوں میں الجھا ہوا مذہبی تصور کر لیں۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کی سمجھ کا پاس رکھے گا اور آپ ہمیشہ اسے وہی سمجھتے رہیں گے جو آپ سمجھ رہیں ہیں۔ وہ اتنا کثیر الجہت نہیں کہ یہ سب خوبیاں خود میں رکھتا ہو مگر وہ اتنا وسیع المزاج ضرور ہے کہ آپ ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہیں۔ اس کے لئے خوش گوار گفتگو کرنا یا مباحثہ کا حصہ بننا تو آسان ہے مگر تعلق بنانا یا تعلق بننے کی بات آتے ہی اس کی فرد شناسی اور مزاج کی یک سوئی کے پیمانے جاگ جاتے ہیں۔ اسی لئے بہت سے جاننے والوں میں ان کے دوست کم اور بے تکلف تو بس مذاق کی بات لگتے ہیں۔

اکثر لوگوں کو وہ ہمہ وقت نیند میں لگتے ہیں اور انہیں بظاہر یہ تو نہیں لگتا کہ جناب نے کچھ پی پلا رکھا ہے مگر یا تو وہ ان کی راتوں کی مصروفیات کے بارے میں تشویش کا شکار ہوتے ہیں یا پھر ان کے بظاہر عمومی بے پرواہ رویے پر نالاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تشویش کی کھوج مشکل یوں ہے کہ یا تو آنکھوں کے آگے عینک براجمان ہوتی ہے اور اگر عینک نہ ہو تو آنکھیں ویسے ہی بند ملتی ہیں۔

استاد تو وہ تاریخ کے ہیں، مشاغل ادبی ہیں اور دلچسپی فلسفہ اور مذہب میں زیادہ لیتے ہیں۔ جسم سے زیادہ خیال دماغ کا رکھتے ہیں مگر فکر مند زیادہ جسم کے متعلق نظر آتے ہیں۔ مطالعے کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ زیادہ تر کتابوں کے جائزے پر ہی اکتفا کیے دیتے ہیں اور جو بہت کم واقعی پڑھتے ہیں تو کتاب کی حالت قابل رحم حد تک کر چھوڑتے ہیں۔ اگر پڑھتے پڑھتے نیند آ جائے تو آنکھ کھلتے ہی کچھ صفحے پلٹ لیتے ہیں اس گمان میں کہ درمیانی صفحے نیند میں ہی گیان دے چکے۔ کچھ عرصہ بینک کار رہے ہیں تو تصور کر لیجیے کہ نوٹوں کہ ساتھ کیا کیا جاتا ہو گا۔

میری ان سے پہلی ملاقات خواجہ ٹی سٹال (گول باغ) پر ہوئی۔ ان دنوں عمران ازفر اردو اکادمی کے سیکرٹری تھے اور پنجاب کالج میں اردو کے لیکچرر تھے۔ انہوں نے اکادمی آتے رہنے کی ہدایت کی اور یوں ہر جمعہ ان سے ملاقات ہونے لگی۔ شخصیت میں جاذبیت تو تھی ہی۔ ماتھا کچھ تو واقعی چوڑا ہے کچھ بالوں نے اتر کر کمال کر دیا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور اکثر مرجھائی رہتی ہیں۔ جسم ہرا بھرا، توند کچھ باہر اور چہرے کے دونوں اطراف سے خسخسی بال بڑھتے بڑھتے تھوڑی پر داڑھی نما سی شکل بنائے دیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے یہ یونانی حکیموں کی اکیسویں صدی میں واپسی ریحان اقبال کے ہی روپ میں تھی۔

معاملے کی ابتداء ایک امتحان سے ہوئی جب ایک دن انہوں نے خواجہ ٹی سٹال پر مجھ سے فزکس کا امتحان لینا شروع کر دیا۔ میں میٹرک کے بعد آرٹس کے مضامین پڑھانا چاہتا تھا۔ گھر والوں نے کہا یہ تو راجن پور میں بھی پڑھے جا سکتے ہیں، ملتان جانے کی ضرورت نہیں۔ بس پھر راجن پور سے نکلنے کی خاطر میں نے ایف ایس سی کو قبول کیا۔ قبول بھی یوں کیا کہ پہلی ہی ٹرم میں کیمسٹری میں فیل ہو گیا۔ اب گھر والے مرتے کیا نا کرتے۔ میرے رونے دھونے کے بعد انہوں نے کیمسٹری کی جگہ کمپیوٹر سائنسز رکھنے کی اجازت دے دی اور میں جنرل سائنس گروپ میں آ گیا۔

اب فزکس کے امتحان میں تو کیا پاس ہوتا البتہ میری شرمندگی سے متاثر ہو کر وہ مجھ سے کچھ بے تکلف ہو گئے۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک اور حملہ ہوا اور اب کی بار وہ فکشن کے مطالعہ کے ہتھیاروں سے لیز تھے۔ پہلے تو آئندہ ان سے نا ملنے کا فیصلہ کیا مگر دوسرے ہی لمحے اٹیکنگ پوزیشن حاوی ہوئی اور ان کے اگلے امتحان سے پہلے بہت سارا (ویسے یہ بہت سارا بھی ایک دعویٰ ہی ہے ) فکشن پڑھ ڈالا۔ ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہے جو سپرنگ کو دبا دبا کر اس کی فورس بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے ہر بار نکما کہہ کر خوش آمدید کرتے ہوئے کنوں میں دھکیل دیا اور میں ہر بار کنویں سے کچھ نکال باہر لایا۔

پہلا شوق مجھے شعر کہنے کا پڑا تھا اور ریحان اقبال اس سچائی کی کھوج کا سبب بنے کہ شعر کہنا میرے بس کا کام نہیں تو نثر میں قسمت آزمانے چل پڑا۔ پہلے نثر پارے پر ان کا یہ گلہ دور ہو گیا کہ کیا لغت سے قافیے نکال کر شعر بناتے رہتے ہو۔ اگلی باری نثر کی روانی اور تاثر سے اطمینان کی تھی۔ جو آج بھی چل رہی ہے۔

یونی ورسٹی کے دنوں میں کبھی تعلیمی سرگرمیوں کے بعد اور کبھی ان سے اطمینان نہ پا کر میں اکثر ان کے شعبے کا رخ کرتا۔ کبھی وہ کمرے میں موجود ہی نہ ہوتے اور کبھی سوئے ہوئے پائے جاتے تو دروازے کو ویسے ہی وا کر کے واپسی کا رخ کرتا۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوتیں تو میری لاٹری نکل آتی۔ کمرہ ان کا کمرہ کیا ہے پوری ایک دنیا ہے، جو بے ترتیب کتابوں کی کھچڑی تو ہے ہی۔ جنہیں وہ متضاد رویوں کو محبت سے جوڑنے کے لئے شلف میں دائیں بائیں یا اوپر نیچے رکھ چھوڑتے ہیں۔ رستم (یہ واحد رستم ہے جو کئی بار کی دعوت پر حاضر ہوتا ہے وگرنہ پرانے والے تو الامان) کی آسانی کی خاطر چائے کا سامان ہمیشہ میز پر کھلا رہتا ہے۔ مبادا چائے کا ملنا جاتا نہ رہے۔ کبھی موزے بکھرے نظر آتے ہیں اور کبھی چلغوزوں کے کھلے تھیلے۔ کھلی کتابیں حوالے دینے کے لئے میز پر موجود نہیں ہوتیں بلکہ جب جس کی طرف طبیعت مائل ہوئی کچھ صفحے پڑھ لئے۔ تو ذرا سوچئے خلجیوں کے ساتھ، غدر کا مقدمہ اور نازیؤں کا کمبینیشن اور شاہ ولی کے ساتھ فوکو اور بدھا کو مل ملا کر پڑھنا کیسی درگت بناتا ہو گا۔

بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بعد اگر ریحان اقبال اور مجھ میں کچھ مشترک رہا تو وہ توند کے بڑھنے اور ہاضمے کو ٹھیک رکھنے کی فکر ہے۔ اور ان دونوں ہی پریشانیوں پر کیا کیا نہ نسخے اور ٹوٹکے زیر بحث رہے۔ وہ بیک وقت چٹخورے اور میٹھورے (میٹھا پسند کرنے والا) ہیں۔ دونوں ذائقوں کی حس ایسا جداگانہ کام کرتی ہے کہ بہت ساری چیزیں تجرباتی طور پر نوش فرمائی جاتی ہیں۔ مگر پھر بھی توند اور ہاضمے کی فکر میں وہ سیر کرتے ہیں اور سیر کیا کرتے ہیں جسم کے مسام کھولنے اور انہیں نمکین کرنے کی کوئی ریاضت ہوتی ہے۔ زکریا یونی ورسٹی کے کیمپس سے کئی بار میں ان کے ساتھ پیدل چھ نمبر تک آیا ہوں۔ اب بھی سوچوں تو ٹانگوں کے پٹھے معانی تلافی پر اتر آئیں اور وہ آج بھی شاید یہ سیر کرتے ہو گے۔ میں تو اب شادی شدہ ہوں۔

اچھی بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں نہ تو جبر کے قائل ہیں اور نہ ہی کسی بات پر با ضد نظر آتے ہیں اگر کسی مسلے پر توجہ بھی دلانی ہو تو بس یوں سرسری سے کرید دیتے ہیں لیکن اس ہلکی سی چٹکی میں ایک ایسی چنگاری پنہاں ہے کہ دوسرا بندہ ہاتھ تو دور بازؤ اور نا جانے کیا کیا دھو کر اس معمے کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ ایسا ہی وہ سماجی اور ثقافتی الجھنوں پر بحث کے لئے کرتے ہیں۔

میں اگر اپنی زندگی کی حسین شاموں کو حساب میں لاؤں تو ان کے ساتھ کیمپس کی چہل قدمی کی شا میں یقیناً اس کا حصہ ہو گی مگر میرے حافظے کے دریا میں مسلسل وہ جملہ ارتعاش کا باعث بنتا ہے جب ان کے لہجے میں تنبیہ تھی اور انہوں نے کہا تھا ”دوڑ جا! میرے ساتھ لگ کر تجھے بھی مشکل ہو گی۔ پہلے ایک مشکل میں ہے۔ فرار ہو جا!“ میں بوجھل قدموں سے فرار ہوا تھا اور پھر ایک مدت ملاقات کے پرہیز میں گزری۔ اس کے بعد وہ شا میں نصیب نہیں ہوئی۔

ریحان بھائی نے سماجی ترقی اور معاش کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی مقصود تھی۔ ترقی کی دوڑ میں وہ کبھی نہیں تھے۔ اور اگر ہم انہیں اس دوڑ میں فرض بھی کر لیں تووہ دور کی ایک لائن میں موجوں میں چلتے اپنے حریفوں کو شرارتی نظروں سے دوڑنے پر مزید مائل کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ ہاں جہاں اصول (اصول بھی ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ سماجی اصولوں کو وہ تعلقات کی شرط سمجھتے ہیں ) پر بات آئی تو انہوں نے اپنی خامشی کے اصولوں سے ایسی سیسہ پلائی دیوار کھڑی کی کہ ملی میٹر، سینٹی میٹر تک کی گنجائش نہ باقی رہی۔ یہ کمال انہیں کے پاس موجود ہے۔ جب تک میں کیمپس آتا جاتا رہا میں نے بغور یہ کمال دیکھا۔

ان کی ڈاکٹریٹ جس طرح اور جس سبب ادھوری رہی وہ ہمارے تعلیمی نظام اور اس پر قابض پروفیسروں پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشان چھوڑ رکھتی ہے۔ ایسا نظام جہاں ایک پولٹری فارم کی طرح گنے چنے دنوں میں تعلیم یافتہ چوزے تیار ہوتے ہیں۔ ریحان اقبال اسی نظام میں رہتے ہوئے اس کا حصہ نہیں بنے اور مسلسل نقصان اٹھاتے رہے۔ وہ اس نظام میں فٹ نہیں کیونکہ وہ روبوٹ کی بجائے انسان کی طرح تعلیمی اور تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے دوست اس بات پر نہ صرف ان سے خفا رہتے ہیں بلکہ وہ اکثر اس رویے کو سستی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ نہ تو نظام اور نہ ہی رویوں کو بدلنے کے لئے ان کے ہاں کبھی کسی انقلابی خیال نے جنم تک نہیں لیا۔

ہاں البتہ بین بین چلنے کا ہنر وہ جانتے ہیں۔ دونوں طرف کے کناروں پر ٹھہر کر گفتگو کرنے یا دلیل دینے، دونوں کے وہ قائل نہیں۔ یہ وہ مابعد جدید رویہ ہرگز نہیں جس کے تحت جس کنارے سے مفاد پورا ہوتا ہو اسے کھینچ کر مرکز میں لے آؤ، بلکہ یہ متشدد رویوں کو رام کرنے والی رمز ہے۔ اگر کوئی کنارے پر ہی رکے رہنے کی ضد میں ہے تو میں نے دیکھا انہوں نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کیسے سماجی رابطوں پر بمعہ احباب و خیالات لعنت بھیج چھوڑی۔

یونی ورسٹی کے دنوں میں جب ہم دوست ذکرین لیٹریری فورم چلایا کرتے تھے اور اس کے ہفتہ وار اجلاس منعقد کرتے تھے تو آہستہ آہستہ سب دوست ساحر، نیر، مدھر، منور یونی ورسٹی سے ڈگریاں لے کر ہوا ہوئے، ان دنوں ریحان بھائی نے نہ صرف فورم کو چلانے اور برقرار رکھنے کا حوصلہ دیا بلکہ جب ہم نے کتابی سلسلے ’موزیک‘ کی ابتدا کی اور طے پایا کہ یونی ورسٹی کے پروفیسر صاحبان سے اس کی اشاعت کے لئے مالی تعاون لیں گے، اور پھر ہم ہر دفتر سے خالی ہاتھ لوٹتے تب ریحان اقبال اور فرخ حماد ہی اس قبیل میں چمکنے والے ستارے تھے۔ وگرنہ باقی اساتذہ تو ترقی پانے کی امید میں تخلیقی و تدبیری مقالہ جات کے معاوضوں اور مطلوبات کے لئے کریڈٹ کارڈ چلا رہے تھے۔

یہ ان کی معاطفت تھی کہ طلبہ کی تخلیقات کو اہم جانا۔ ریحان کا اقبال بلند ہووووو۔ ویسے تو عجب مخمصہ ہے یہ ریحان اقبال کی بجائے، ریحان غالب بھی تو ہو سکتے تھے، چلو غالب نہیں مومن کی خوشبو ہونے تک تو بات چلی ہی جاتی۔ مگر یہ خوشبو ڈھکی چھپی ہے۔ ملتان میں افسانے کے انتخاب ’کہانی کے سب رنگ‘ کے وقت بڑے حیلوں بہانوں سے ان کا افسانہ ’ایک رات کی کہانی‘ نکلوانے میں کامیاب ہوا تھا۔ ایسی کامیابی تو پھر میرے نصیب میں بھی نہیں آئی۔

میرا ملتان چھوڑنا کسی اور کو راس آیا ہو یا نہیں ریحان اقبال کو ضرور آیا۔ شا میں تو خیر قصہ ہوئی۔ ایک دفعہ ملتان جانا ہوا تو ان کی شادی ہو چکی تھی، اگلی دفعہ کار خرید چکے تھے، تیسری دفعہ ملا تو ان کی گود میں ان کا بیٹا تھا۔ مجھے اگلی ملاقات سے زیادہ اگلے دھماکے کا انتظار ہے۔ اب تو ان سے ملاقاتیں ملتان آرٹس فورم کے سالانہ جشن پر ہی ہوتیں ہیں اور مجھے سالوں پرانی راکھ ہوا میں بکھری نظر آتی ہے جسے وہ ایک پھونک مار کر اپنے روایتی انداز میں پوچھتے ہیں : ”ہاں بھئی کہاں ہے تو نکمے!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments