گورنر جنرل ملک غلام محمد اور مس بورل


وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ میں جہاں درد دل رکھنے والے سیاست دانوں کی کمی نہیں ہے وہاں پر ایسے سیاست دانوں کی بھی بہتات ہے جن کی رنگین مزاجی کے قصے زبان زد عام رہے اور آج بھی لوگ ان قصوں کو چٹخارے لے کر سنتے اور سناتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کے کردار کا فرق جاننا ہوتو اس کی واضح مثال امریکی صدر کلنٹن اور مونیکا کا وہ کیس ہے جس میں دنیا کے طاقتور ترین ملک کے صدر کو جھوٹ بولنے پر قوم سے معافی مانگنی پڑی تب جا کر اس کی جان خلاصی ہوئی جبکہ ہمارے ہاں سیاست دانوں کے معاشقوں کے قصوں سے بھرپور پارلیمنٹ سے بازار حسن تک جیسی کتابیں چھپ گئیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نا رینگی۔

ہماری سیاسی تاریخ میں ایک ایسا کردار گورنر جنرل ملک غلام محمد بھی گزرے ہیں۔ فالج زدہ یہ حاکم بولنے اور چلنے پھرنے سے معذور تھا مگر اس معذوری میں بھی ان کے دل کی دھڑکنیں کسی نوجوان دل کی دھڑکنوں سے زیادہ تیز تھیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امور چلانے کے لیے اس معذور شخص کو ایسے ترجمان کی ضرورت تھی جو ان کی غوں غاں کو لفظوں میں بیان کرسکے اور اس کے لیے ان کا انتخاب مس بورل تھیں جو امریکن اور سوئس محبتوں کے ملاپ کا نتیجہ تھیں لہذا ان کا خوبصورت ہونا لازم تھا۔

تو گورنر جنرل ملک غلام محمد کی اس معذوری کی حالت میں بھی آشفتہ سری نہیں گئی اور انہوں نے مس بورل کو ایک رات ڈنر پر مدعو کر لیا۔ مس بورل اس ڈنر میں اپنی بوڑھی والدہ کے ساتھ شریک ہوئیں۔ اور یہ بات ایکسیلنسی کو بہت ناگوار گزری کہ ان کی والدہ ان کے ساتھ کیوں ہیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مس بورل تنہا ڈنر میں شریک ہوں۔ لہذا گورنر جنرل صاحب نے اس پر اپنی خفگی کا اظہار کیا اور مس بورل کی والدہ کے ساتھ مناسب رویہ نہیں رکھا۔ جس پر نرم و نازک دل والی مس بورل کے لیے یہ بات کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ ڈنر بدمزگی پر اختتام پذیر ہو گیا

اگلے دن مس بورل ایک فائل لے کر گورنر جنرل کے پاس گئیں تو ان کا موڈ بہت خراب تھا۔ گورنر جنرل صاحب کو مس بورل کا روپ چنداں پسند نہیں آیا۔ کیونکہ رسم عاشقی ہے کہ محبوب کو ہر وقت ہنستے مسکراتے رہنا چاہیے۔ لہذا گورنر جنرل نے کہا کہ وہ مسکراتے ہوئے ان کے سامنے آیا کریں وگرنہ مت آیا کریں۔ مس بورل جیسی نازک اندام حسینہ کے لئے رات کا واقعہ ہی تکلیف دہ تھا اوپر سے یہ شرط تو وہ بے چاری شدت غم سے رونے لگیں اور جاتے جاتے غصے میں فائل فرش پر پھینک کر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کر گئیں

اب یہ کسی گلی محلے کا عاشق تو تھا نہیں جو کبوتر کے ہاتھ معافی نامہ بھیجتا یا کسی دربار پر جاکر منت مانگ کر دیے جلاتا یہ تو اسلامی جمہوریہ کے گورنر جنرل تھے ایک مطلق العنان حاکم۔ لہذا ایک اہلکار کو طلب کیا گیا۔ اہلکار نے جب فائل فرش پر پڑی دیکھی تو اس کو اٹھانے کی کوشش کی اور اسی دوران اس اہلکار کے سر پر ٹائم پیس دے مارا اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کو مت اٹھاو کیونکہ محبوب کی فائلوں کو محبوب ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔

ڈرے سہمے اہلکار کے ذمہ کام لگایا گیا کہ وہ مس بورل کے پاس جائیں اور ان کو راضی کریں کہ وہ مسکراتے ہوئے فائل ایکسیلنسی گورنر جنرل کے حضور پیش کریں۔ کسی اہلکار کے لیے اس عظیم کام کے بجا لانے سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو سکتا تھا۔ ایک ایسا عظم فرض جس سے گورنر جنرل کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آنی تھی۔ لہذا اہلکار نے مس بورل کو راضی کر لیا اور مس بورل کی حالت بھی ماہی بے آب جیسی ہی تھی۔ گویا وہ بھی اس طرح کے کسی مشورے کی منتظر تھیں کہ کوئی ان کو سمجھائے اور وہ ایک بار پھر مسکراتے ہوئے فائل گورنر جنرل کے حضور پیش کریں۔

مس بورل بنیادی طور پر ایک نرم دل اور غمگسار طبعیت کی مالک تھیں اور گورنر جنرل ملک غلام محمد کی معذوری کی سبب مس بورل کو ان سے ایک خاص ہمدردی تھی۔ اور اس انس اور ہمدردی کے سبب مس بورل ہی وہ واحد خاتون تھیں جن کو ایکسیلنسی کی ہر بات سمجھ میں آتی تھی۔ جب بھی کسی کو کوئی بات سمجھانا ہوتی تو گورنر مس بورل کی طرف دیکھ کر غوں غاں کرتے اور وہ بڑی وضاحت کے ساتھ ایکسیلنسی کی بات سامنے والے کے گوش گزار کر دیتی تھیں۔ یہ بھی توجہ طلب بات ہے کہ ہمارے گورنر جنرل کی بات عام پاکستانی نہیں سمجھ سکتے تھے مگر ایک امریکن خاتون با آسانی سمجھ جاتی تھیں۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ہمارے حاکموں کی بات امریکن کو جلدی سمجھ آجاتی ہیں بلکہ بسا اوقات وہ ہمیں بھی سمجھا دیتے ہیں کہ ہمارے حاکم کیا کہنا چاہ رہے ہیں

قصہ کوتاہ مس بورل راضی ہو گئیں اور فوری طور پر گورنر جنرل کے آفس کی طرف چل پڑیں اور آفس میں داخل ہوتے ہی مس بورل نے ایک ہنسی کا فوارہ چھوڑا اور فائل فرش سے اٹھا کر مسکراتے ہوئے گورنر جنرل کے حضور پیش کردی۔ مس بورل کا مسکرانا تھا کہ مملکت کے طول و عرض میں جیسے شادیانے بج اٹھے ہوں۔ مس بورل کے چہرے پر ہنسی دیکھ گورنر جنرل ایک بچے کی طرح کھل اٹھے اور مارے خوشی سے ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگی۔ جس کو مس بورل نے نہایت ادا سے نیپکن سے صاف کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ مس بورل کو نیپکن کے استعمال پر کافی مہارت تھی۔

تو یہ تھے گورنر جنرل ملک غلام محمد اور ان کی ترجمان خاص مس بورل کے مابین ناراضگی اور راضی نامہ کی داستان۔ ویسے ہم نے حاکم کم اور عاشق زیادہ مسلط کیے ہیں۔ ہر عہد میں جسمانی نا سہی ذہنی معذور بہرحال حاکم رہے ہیں جو کبھی امریکہ سے تو کبھی امریکی ڈالروں کے عوض جہاد سے عشق فرماتے رہے۔ ہر عہد میں حکمرانوں کی رال ٹپکتی رہی ہے بس فرق اتنا ہے کہ رال کو نیپکن سے صاف کرنے کے لیے مس بورل کا کردار بدلتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments