جھوٹا خواب: مسلمانوں کے ہاتھوں منگولوں کی شکست، ہلاکو خان کا قتل، اور سچ


ہلاکو خان نے سوچا بھی نہیں تھا کہ خلیفہ المعتصم با اللہ کی افواج بغداد سے باہر آ کر منگول فوج کا مقابلہ کرے گی۔ ہلاکو اور منگولوں کا جاسوسی کا نظام بہت عمدہ تھا لیکن کسی بھی ذرائع نے معتصم کی اس قسم کی تیاریوں کی خبر نہیں دی تھی۔ خلیفہ المعتصم کے جاسوس گزشتہ کئی سالوں سے منگولوں کی سرگرمیوں کی خبریں لا رہے تھے۔ 1251 عیسوی میں ہلاکو کے بھائی منگولوکی خان کی تاج پوشی کے موقع پر خلیفہ المعتصم کے شاہی وفد کے تحائف کو تو قبول کر لیا گیا تھا مگر منگولوں کے بادشاہ بڑے خان نے المعتصم کے حاضری کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ المعتصم نے حاضر ہونے سے انکار کر دیا تھا مگر ساتھ ساتھ منگولوں کی فوجی اور سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے قراقرم سے بغداد تک جاسوسی کا ایک جال بچھا دیا تھا کیونکہ اس بات کا اندیشہ تھا کہ منگول فوجیں ایران و عراق کی طرف ضرور آئیں گی۔

بہت جلد خلیفہ المعتصم جاسوسوں نے خبر دی تھی کہ منگول دو لاکھ سے زائد سپاہیوں کے ساتھ بغداد پر حملہ آور ہوں گے پھر دمشق کو تہس نہس کریں گے جس کے بعد قاہرہ کو برباد کریں گے، ان تینوں شہروں کو لوٹا جائے گا، مردوں کو قتل کر کے غلام بنایا جائے گا اور مسلمان عورتوں کو باندی، لونڈی بنا کر فروخت کر دیا جائے گا۔

ان خبروں کے ساتھ ہی معتصم با اللہ نے جنگ کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ شام کے مختلف علاقوں سے فوج میں بھرتی کی جا رہی تھی۔ مصر میں ملکہ شجر الدر کی حکومت تھی جو محلاتی سازشوں کے باوجود بہت اچھی حکمرانی کر رہی تھیں۔ معتصم با اللہ نے مصر میں ملکہ اور مملوکی کمانڈروں سے مل کر ایک فوج مصر میں بھی تیار کرلی تھی ساتھ ساتھ مسلم دنیا کے اکابرین کو فرداً فرداً آگاہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے دارالحکومت پر منگول حملہ کرنے والے ہیں اگر سب نے مل کر دفاع نہیں کیا تو بغداد تباہ ہو جائے گا۔ خلیفہ المعتصم قراقرم سے آنے والی خبروں سے مسلمان امراء کو مسلسل آگاہ کر رہے تھے۔

خلیفہ معتصم نے بغداد میں اکثریت رکھنے والی شیعہ آبادی کے مختلف سربراہان کو بلایا اور اپنے شیعہ وزیراعظم ابن الکامی کو ساتھ لے کر فوج میں ان کی شمولیت کو ممکن بنایا اور مسلم اتحاد کو منگولوں سے لڑنے کے لیے تیار کیا۔

ہلاکو خان جب اپنے فوجیوں کے ساتھ بغداد کے قریب پہنچا تو المعتصم کی فوج بغداد سے باہر جنگ کرنے کو تیار تھی، گھمسان کا رن پڑا اور تین دن کی شدید لڑائی کے بعد جب دمشق اور قاہرہ سے مزید تازہ کمک پہنچی تو منگول فوج کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

بھاگتی ہوئی ہلاکو خان کی فوج میں سے ہلاکو کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے بغداد کی مشرقی فصیل کے بڑے دروازے پر خلیفہ کے سامنے اس کے ساتھیوں کے ساتھ پیش کیا۔

خلیفہ معتصم با اللہ نے ہلاکو سمیت تمام سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دیا، ان کے سروں کو درختوں سے لٹکا دیا گیا۔ فتح کے بعد ہی وہ مزید فوج کے ساتھ بغداد شہر میں داخل ہوا۔ ہلاکو خان کی موت اور منگولوں کی شرمناک تباہی کا جشن دس دن تک منایا جاتا رہا۔

حقیقت کیا تھی؟

 منگو خان کی تاج پوشی میں ہونے والی بدمزگی کے بعد منگو خان  نے اپنے چھوٹے بھائی ہلاکو خان کو حکم دیا کہ بغداد کی طرف فوجی مہم کا آغاز کیا جائے اور ایران پہنچ کر خلیفہ المعتصم با اللہ کو بہ نفس نفیس آنے کا حکم دیا جائے اگر وہ نہ آئے تو بغداد پر حملہ کر کے اسے قتل کیا جائے اور بغداد کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔

قراقرم سے ایران تک منگولوں نے اسلامی چھوٹی موٹی ریاستوں کو تباہ کیا، ایران پہنچنے کے بعد ہلاکو خان نے دوبارہ سے معتصم با اللہ کو اطاعت قبول کرنے کا لکھا۔ معتصم با اللہ نے نہ تو ہلاکو خان کو جواب دیا اور نہ ہی جنگ کی تیاری کی اور نہ ہی بغداد کے دفاع کو مضبوط بننے کے لیے شہر کی فصیلوں پر کوئی کام کیا۔ وہ اس خام خیالی کا شکار تھا کہ عاقے مسلمان حکمران بغداد کی حفاظت کے لیے آ جائیں گے۔

ہلاکو خان نے اپنا سفر جاری رکھا اور پہاڑیوں پر واقع قلعہ الموت پہ حسن بدالصباح کی بنائی ہوئی سلطنت کو تباہ کر دیا جہاں کے خود کش حملہ آوروں نے قراقرم پہنچ کر منگول حکمرانوں پر حملے کیے تھے۔

منگولوں کی فوج آندھی طوفان کی طرح بغیر کسی مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے تیزی سے بغداد کی طرف سفر کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ 24 جنوری 1258 ء میں ہلاکو خان نے بغداد کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ہلاکو خان کی فوج میں ایک ہزار سے زائد چینی انجینئر تھے جنہوں نے شہر کی فصیل کو تباہ کرنے کا عمل شروع کیا۔ شہر میں نہروں کے نظام کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔

معتصم با اللہ نے قاہرہ کی ملکہ شجر الدر کے بارے میں مملوک امراء کو خط لکھا تھا ”اگر مصر میں کوئی مرد نہیں ہے تو ہم بغداد سے بھیج دیتے ہیں۔“ اس خط اور مسلم حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے قاہرہ اور دمشق کے کسی بھی حکمراں نے المعتصم کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔

فروری 1258 ء میں شہر کی فصیل گرنے کے بعد المعتصم کے نمائندوں اور بغداد کے شہریوں کی جانب سے ہلاکو خان کو صلح کی پیشکش کی گئی جسے اس نے مسترد کر دیا۔

فوجی حکمت عملی کے تحت تین دن تک منگول فوجیوں کو ہلاکو خان نے شہر میں گھسنے نہیں دیا جس کی وجہ سے شہر میں افراتفری کا سماں پیدا ہو گیا۔

روایت ہے کہ ہلاکو خان کی آمد سے قبل سنی اور شیعہ عالم دین فقہی اور شرعی بحث و مباحثہ میں مصروف تھے انہوں نے بھی ہلاکو خان اور منگولوں کی آمد پر کسی بھی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی تھی اور نہ ہی خلیفہ کو آنے والے خطرات کے بارے میں مشورے دیے تھے۔

ہلاکو خان نے اپنی عیسائی ماں اور بیوی کی وجہ سے بغداد میں رہنے والے تمام نسطوری عیسائیوں کی جان بخشی کا اعلان کیا اور فوجیوں کو حکم دیا کہ بغداد شہر کی 35 سے زیادہ لائبریریوں اور ہارون رشید کا بنایا ہوا بیت الحکمت مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، لاکھوں کتابیں جلادی گئیں یا انہیں دریائے فرات میں بہا دیا گیا۔

ہلاکو خان نے حکم دیا کہ بیمارستان کے نام سے بنے ہوئے تمام ہسپتالوں کو جلا دیا جائے۔ اپنے انجینئروں کو حکم دیا کہ شہر کے نہری نظام کو مکمل طور پر برباد کر دیا جائے۔

پہلے دن ہی بغداد کی دس لاکھ کی آبادی میں سے نوے ہزار شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ نو عمر لڑکیوں کو قید کر کے ان کی آبروریزی کی گئی انہیں غلامی میں لے لیا گیا یا انہیں بھی بچوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ یہ لوٹ مار قتل و غارت گری اور خواتین کی جبری آبروریزی کئی دنوں تک ہوتی رہی۔

ہلاکو خان کے حکم سے المعتصم با اللہ کو زندہ رکھا گیا تاکہ وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھے۔ اس کے تمام بچوں کو قتل کر دیا گیا، اس کی آرمینین غلام کنیز جس سے بچے کی پیدائش کے بعد اس نے نکاح کر لیا تھا کو اس کے سامنے قتل کر دیا گیا، اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کو ہلاکو خان نے اپنے حرم میں شامل کیا اور سب سے چھوٹے بیٹے کو منگولیا بھیج دیا گیا جو منگولیا میں ہی شادی کر کے آباد ہو گیا۔

منگولوں کی روایت کے مطابق بادشاہوں کے خون کو زمین پر نہیں گرایا جاتا تھا۔ قتل و غارت گری کے ساتویں دن ہلاکو خان نے شاہی محل سے حاصل ہونے والے چاندی سونے اور ہیروں کے ڈھیر کے سامنے المعتصم سے کہا کہ ”اگر تو نے اس دولت سے فوج بنائی ہوتی اور شہر کی فصیلوں کو مضبوط کیا ہوتا تو آج تو فاتح ہوتا۔“ اس نے حکم دیا کہ المعتصم کو ایک قالین میں لپیٹ دیا جائے اور قالین پر گھوڑے دوڑا کر اسے مار دیا جائے تاکہ خون قالین میں جذب ہو جائے اور مٹی پر نہ گرے۔ ہلاکوخان کے حکم پر عمل کیا گیا۔

ہلاکو خان نے بغداد شہر میں سڑنے والی لاشوں کی سڑانڈ کی وجہ سے اپنا عارضی ٹھکانہ بغداد سے باہر بنایا جہاں بیٹھ کر اس نے دمشق اور قاہرہ کی تباہی کی منصوبہ بندی شروع کردی۔

منگول افواج نے دمشق پر باآسانی قبضہ کر لیا اور دمشق کو بھی بغداد کی طرح سے تباہ برباد کر دیا گیا۔

ہلاکو خان نے بغداد میں عطا فلک جیوانی کو گورنر بنا کر شہر کا نظام اس کے سپرد کر دیا۔

ہلاکو خان دس ہزار جوانوں کی فوج منگول جرنیل کت بقا (قط بوغا) کی سپہ سالاری میں مصر فتح کرنے کی ذمہ داری دی اور قراقرم کی طرف روانہ ہو گیا۔

مصر کے حکمراں قطز  نے کت بقا کے بھیجے ہوئے وفد کے اراکین کو قتل کر کے ان کے سروں کو قاہرہ کے فصیل پر لٹکا دیا۔

قطز اپنے سپہ سالار جنرل بیبرس کے ساتھ فلسطین کے قریب عین جالوت کے مقام پر کت بقا کی افواج پر حملہ آور ہوا اور پہلی دفعہ منگولوں کو شکست ہوئی اور ان کی افواج کا شیرازہ بکھر گیا۔ عبن جالوت سے قاہرہ کی طرف واپسی پر سپہ سالار بیبرس  نے قطنر کو قتل کر دیا اور قاہرہ میں واپس آ کر اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

منگولوں کے ہاتھوں سے بغداد کی تباہی ایک ایسا واقعہ ہے جس نے اسلامی دنیا کے خلافت کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ بغداد کی لائبریریاں، ہسپتال، سرکاری عمارتیں نہری نظام تباہ کر دیے گئے۔ مسلمانوں کے خلیفہ اور علمائے وقت کی تنگ نظری اور ناعاقبت اندیشی نے ایک ایسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا جو علم و فضل اور عقل و دانش کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی۔ اس تباہی کے بعد صدیوں تک بغداد دوبارہ نہیں سنبھل سکا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments