احساسات کا لفظیاتی مصور


دو یوم قبل میں قلم تھامے اپنی یادوں کی ڈائری کھولے بیٹھا تھا اور میرے ارد گرد کئی کاغذ بکھرے پڑے تھے۔ لفظ کے معنی اور مفہوم کی کھوج نے مجھے لکھنے کی ایسی عادت ڈالی کہ میں حروف سے الفاظ جوڑتا رہتا ہوں۔ دنیا میرے لیے ایک رنگین پہیلی ہے جو فلک سے زمین تک کسی پینٹینگ کی صورت میں اپنا دامن پھیلائے آویزاں ہے۔ اسی دوران بادل گھر گھر آنے لگے اور سورج بدلیوں میں چھپ گیا، شاید دور کہیں بارش بھی ہوئی تھی۔ کچھ دیر کے لیے موسم کا لطف لیا، جو ایک پری زاد کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان سے نوشہرہ تک کو اپنی بانہوں میں بھر رہا تھا۔

ایک ہاتھ میں سید المشروب کی پیالی اور دوسرے ہاتھ میں احسان اللہ لاشاری کا خلوص دل کے ساتھ عطا کردہ پہلا افسانوی مجموعہ ”آب مرگ“ ۔ جیسے ہی پہلے افسانے ”سنگ تراش“ کی قرات شروع کی تو منظر نگاری نے حصار میں ایسا جکڑا کہ یاد ہی نہیں رہا کہ کب چائے کی پیالی کو میز پہ رکھا اور کب دونوں ہاتھوں سے ”آب مرگ“ کو تھاما۔ ”سنگ تراش“ میں سطر در سطر اشاروں و استعاروں کی مدد سے احسان اللہ لاشاری نے ایسا زمینی و حقیقی بیانیہ تیار کیا، جس کی روش پر منافرت، عدم توازن اور شدت پسندی کا ایک ایسا بت کدہ پورے قد سے ایستادہ کیا جو تضادات اور معنی خیزی کے ایسے سمندر میں قاری کے وجدان کو مرکز سے مرکز گریز کی جانب لے جاتا ہے جہاں لفظیاتی اور معنیاتی جہت عطا ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن کی محرکات، متھ کے تجزیے اور زندگی کی بے ثباتی کے بلیغ اشارے ملتے ہیں۔

”آب مرگ“ میں موجود افسانے ”سنگ تراش، آب مرگ، آخ تھو، مصنف، بوڑھا برگد“ پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ احسان اللہ لاشاری دنیا کے ان لکھاریوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی تحریریں اس حد تک ان کی ہیں کہ ان کے محض ہاتھ استعمال ہوئے ہیں اور کسی نادیدہ غیر انسانی قوت نے مصنف کے ہاتھوں کو جنبش دے دے کر صفحہ قرطاس پر کچھ رقم کر ڈالا ہے۔ یعنی دوران تحریر مصنف اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہوتا۔ میں اس مظہر کی توجیہہ یوں کرتا ہوں کہ غالباً یہ مصنف کے لاشعور یا تحت الشعور کی رو ہیں جو اس کے شعور کو پھلانگتی ہوئی بلاواسطہ کاغذ پر اپنے نقوش ثبت کر جاتی ہیں۔ یہ خالصتاً مراقباتی عمل کی دین ہے کیونکہ باہر کی دنیا کا مشاہدہ تو آنکھیں کرتی ہیں جبکہ داخلی دنیا کا مشاہدہ روح کرتی ہے۔

” آب مرگ“ پڑھنے کے بعد کہیں سے بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ احسان اللہ لاشاری افسانوی ادب میں نووارد ہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ایک منجھے ہوئے، پختہ اور وسیب کے نمائندہ افسانہ نگار کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا۔ وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی، فطرت، وقت، سازشیں، محرومیاں، دہشت گردی، محبت، انسان اور جنس کے مختلف پہلوؤں کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے سارے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے تجربات و مشاہدات کو کہانیوں کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار فعال اور متحرک ہیں۔ انہوں نے علامتی، تجریدی اور بیانیہ افسانے لکھے ہیں اور انہوں نے کہیں کہانی کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ وہ افسانے میں کہانی کو اہم سمجھتے ہیں۔ واقعی احسان اللہ لاشاری نے اپنے تمام افسانوں میں کردار سازی اور مکالمہ نگاری کی فنی پختگی کا عمدہ نمونہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فن افسانہ نگاری پر اپنی دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ اگرچہ انہوں نے بہت کم افسانے لکھے ہیں لیکن ان کا تخلیقی سرمایہ اردو کے افسانوی ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔

”آب مرگ“ کے افسانے جہاں ایک طرف زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس پیش کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ان میں سیاست، ذہنی پسماندگی، انسانی بے راہ روی، طبقاتی نظام اور معاشرے کے اوپر بھرپور طنز بھی ملتا ہے۔ ہم جو خود کو اس مہذب دنیا کے باسی تصور کرتے ہیں، حقیقتاً اپنے نفس کے غلام ہو کر آج بھی اسی دور میں جی رہے ہیں جہاں اعلیٰ و ادنیٰ کی ظالمانہ تفریق اور انسانی رشتوں کی پامالی عام بات تھی۔ سماج کے ان رستے ہوئے ناسوروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں احسان اللہ لاشاری نے اپنے تخیلات کو لفظی پیکر عطا کرتے ہوئے اپنے احساسات اور واردات قلبی کی شکل میں صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ یہی ان کے فن کا کمال ہے جو کہ قاری کی روح کو تپتے صحرا پر ننگے پیر رقص کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان کے تمام افسانوں کا اختتام اتنا افسانوی ہے کہ کہانی کاغذ پر ختم ہوتے ہی قاری کے ذہن میں فلم کے طور پر چلنا شروع ہو جاتی ہے۔

احسان اللہ لاشاری کا پہلا افسانوی مجموعہ سوچ و فکر کے نئے زاویوں کو چھوتا ہوا قاری کو کتاب رکھنے کے بعد بھی دل و دماغ میں اس کے اثرات کو محسوس کرتے رہنے پر آمادہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ احسان اللہ لاشاری کا ہی فن ہے کہ اپنے افسانوں کے ذریعے ہمیں بدبودار معاشرے کی کڑوی سچائیاں یوں محسوس کرواتے ہیں جیسے زہر میں شہد گھول کر پلایا جا رہا ہو کہ اس کی کڑواہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ امید ہے کہ منفرد افسانوں پر مشتمل یہ مجموعہ ادبی ذوق کے حاملین کو ادب کی راکھ میں چھپی چند نئی چنگاریوں سے آشنا کروانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

”آب مرگ“ میں موجود افسانے ایسے ہیں جنہیں ایک بار پڑھنے پر طمانیت محسوس نہیں ہوتی بلکہ انھیں بار بار پڑھنے کا من کرتا ہے اور ہر بار ان کا موضوع دل و دماغ کے کئی بند ابواب کو کھولتا چلا جاتا ہے۔ مصنف اپنے پہلے افسانے میں لکھتے ہیں ”بیٹا میں جانتا ہوں یہ صرف ایک فن ہے جو کائنات کے سب سے بڑے فنکار نے تمہیں بخشا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments