امریکی آمد مبارک یا بہت بڑا عذاب؟


دو تین دنوں سے خبریں گردش میں ہے کہ مبینہ طور پر امریکہ کو فاٹا کے مختلف علاقوں میں اڈے دیے جا رہے ہیں یا دیے جا چکے ہیں۔ ہمارے ہاں فاٹا میں آج کل عقل والوں کی اتنی بھرمار ہو گئی ہے کہ خود اپنا آپ کافی حقیر سا محسوس ہونے لگتا ہے لیکن جو لوگ امریکی آمد کو مبارک سمجھ رہے ہیں ان کے عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہم جیسے لوگ جو عملی طور پر اپنے وطن کا حصہ ہیں ان کے لیے ممکنہ امریکی آمد بہت بڑا عذاب ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈالر کی ریل پیل بہت سے لوگوں کی زندگیاں چھین لیں گی جیسے کہ نائن الیون کے بعد سے ایک تجربہ ہو چکا ہے، اسی طرح پشتونوں کے لیے امریکہ سے زیادہ خطرناک ملا ازم ہے جن کی تربیت صرف اتنی ہے کہ آپ نے فلسطین اور کشمیر کے مظالم کو رونا ہے اور افغانستان کو دھونا ہے اور ایسے میں جب امریکی یہاں ہوں گے تو ان امریکیوں کو روکنے کے لیے ریاست کے پاس واحد ہتھیار یہی ملا رہ جاتے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ ان کی لگام مکمل طور پر چھوڑ دی جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو پشتون علاقہ بالعموم اور فاٹا بالخصوص سو سال مزید پیچھے چلا جائے گا۔

امریکی یہاں رہیں گے تو چنے بیچنے کے لیے نہیں بیٹھیں گے ان کے پاس طاقت سوچ اور ٹیکنالوجی سب چیزیں موجود ہیں دوسری طرف سازشی چالیں ان کی تاریخ کا حصہ ہیں یہ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں فساد برپا کر کے چلے جاتے ہیں۔ افغانستان میں اتنا کام کرنے کے باوجود بہت سے ایسے واقعات کے حوالے سے باتیں سامنے آتی رہیں کہ امریکہ افغانستان میں مبینہ طور پر دہشت گردی کو سپورٹ کرتا پایا گیا اسی طرح سابق افغان صدر حامد کرزئی اپنے دور حکومت سے کہتے آئے ہیں کہ امریکی افغانستان میں بدامنی پھیلانے کا حصہ ہیں، حامد کرزئی کے جرمنی کے جریدے کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں بھی وہی خیالات تھے اور زور دے کر کہا کہ امریکہ پرامن افغانستان کے حق میں نہیں اور اسی عدم استحکام کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اگر افغانستان کو مستحکم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تو پاکستان کو کیسے مستحکم ہونے دے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت پاکستان سخت اقتصادی مشکلات کا شکار ہے لیکن جس طرح کے حالات بنے ہیں کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارا کچھ بھی ایک ٹریپ تھا جو بڑے منظم انداز میں کیا گیا اور ہم بطور ریاست پھنستے اور دھنستے جا رہے ہیں، نکلنے کی کوئی راہ بھی نظر نہیں آ رہی۔ اگر غور سے حالات کا مشاہدہ کیا جائے تو ہماری پوزیشن اس سے زیادہ خراب ہے جو نظر آ رہی ہے۔

ایک طرف چین کو راضی رکھنا ہے دوسری طرف خطے کے دیگر ممالک بھی فریق بن چکے ہیں سعودی تو ہمارے مالک بنے پھرتے ہیں اور اقتصادی حالت یہ ہے کہ ہمیں اسی سمت میں جانا ہی جانا ہے جو یہ طاقتیں چاہتی ہیں۔ سب سے خطرناک پہلو اس سارے عمل کا یہ ہے کہ ہماری موجودہ قیادت ان حالات کو سنبھالنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ ساتھ یہ کہ ذمہ داران پشتونوں کے احتجاج کو سمجھنے کے بجائے ان لوگوں کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جو اپنے دکھوں کا حل چاہتے ہیں اور ایک نارمل زندگی گزارنے کے متمنی ہیں۔

تو ایسے میں جب یہ نیا کھیل شروع ہو گا اور یہ سارے عوامل مل جائیں گے تو کیا ان علاقوں کے لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچے گا؟ اور پھر جب ان حالات کا ممکنہ ردعمل لوگوں کی طرف سے آئے گا وہ دن بدن سخت ہوتا جائے گا نفرتیں بڑھتی جائیں گی اور شکوک و شبہات کے شکار ذمہ داران کے سوچ کے عین مطابق حالات سامنے آئیں گے تو کیا ہم وہی چاہتے ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ امریکہ افغانستان میں موجودہ سیٹ اپ کو مکمل طور پر ختم کرے گا اور ایسے میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان نفرت کے اس ماحول کو مزید ایندھن ملے گا، ابھی بھی افغان صدر اشرف غنی کئی بار یہ بات رکارڈ پر لا چکا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دشمنی اور دوستی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

افغان صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آتا ہے جب افغانستان کے اندرونی حالات اس قدر خراب ہیں کہ دنیا کو اس بات کا خدشہ ہے کہ افغان طالبان کابل پر قبضہ کر لیں گے، لیکن اس وقت افغانستان میں ہونے والی لڑائی سے جو خبریں سامنے آ رہی ہیں اس سے یہ نہیں لگتا کہ کابل ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہ اب عالمی طاقتیں بھی ایسا نہیں ہونے دیں گی خود ہمارے (پاکستان) حوالے سے بھی یہ باتیں سامنے آئی ہیں کہ ہم نے اس فیصلے پر دستخط کر دیے ہیں کہ افغانستان میں اب طالبان کی حکومت نہیں آنے دی جائے گی۔

تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہو گا کہ جب افغانستان استحکام کی طرف جائے گا اور ہم خدانخواستہ عدم استحکام کی طرف تو پھر آنے والے دنوں میں کون کون سی نئی چیزیں سامنے آئیں گی؟ تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ اس وقت ریاست کو آئی سی یو تک پہنچایا جا چکا ہے، ہر کوئی کمائی کی سوچ میں لگا ہوا ہے اور علاج کے لیے زہر پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا مگر ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنی انا کے خول سے نکل کر فاٹا کے لوگوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں، اور ان کو اعتماد میں لیا جائے کہ آپ کو حالات کے اثرات سے بچایا جائے گا۔

سب سے اہم بات کہ اپنے دلوں سے یہ بات نکال دیں کہ یہاں کا نوجوان طبقہ یا حالات کے شکار دیگر طبقات ملک کے خلاف ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے البتہ سخت زیادتیوں کے شکار ان طبقات کو لگتا ہے کہ یہ جس قدر آپ کو دکھ دے سکتے ہیں وہی ان کے دکھ کم کرنے کا باعث بنیں گے۔ اگر آپ حقائق کی طرف آئیں گے اور ان لوگوں کے گزرے پندرہ بیس سالوں کے ایک ایک دن کو سوچیں گے اور خود کو ان لوگوں کی جگہ رکھیں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہ لوگ دکھی ہیں ان کے ساتھ انا رکھ کر ہم مزید زیادتی کریں گے۔

خدارا یہاں کے لوگوں کو مزید کسی کھیل کا حصہ نا بنائیں، خود کھیلیں ان کو کھلائیں جو کھیل کا حصہ ہیں عوام اور آبادیوں کو اس سے باہر رکھیں یہ ملک کے مفاد میں ہو گا اور یقین مانیں کہ اگر آپ ایسا کر لیں گے تو ممکنہ برے وقتوں میں یہ لوگ آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے بصورت دیگر آپ اپنے ہی لوگوں کو دوسری صف میں دھکیلنے کی وجہ بن جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments