ہوائی جہاز میں بوس و کنار اور نازیبا حرکات


ہماری تو اتنی عمر ہو گئی پاکستان میں کسی کو ”بوس و کنار“ کرتے نہیں دیکھا لیکن پولیس کو ایسے کیس آئے دن مل جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ لوگ جونہی پولیس کو دیکھتے ہیں تو اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے اور ”بوس و کنار“ میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک کہ پولیس انہیں پکڑ نہ لے۔ عجب تاثیر ہے پولیس کی موجودگی کی۔

بوس و کنار اور نازیبا حرکات اس قوم کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ اس پر انگریز نے قانون بنا کر اسے قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا تھا جس کا اصل فائدہ پاک و ہند میں صرف پولیس کو ہی ہوا۔ انگریزوں کے اپنے ہاں تو اب یہ جرائم کی لسٹ سے نکل چکا ہے لیکن ہم نے اسے پکڑا ہوا ہے اور ساری جنتا مل کر اس کا اطلاق کرتی ہے۔

ہمیں دوسروں کا بوس و کنار کرنا کیوں نہیں بھاتا؟ ہمارے بڑے ارمان ہیں اور وہ کبھی پورے نہیں ہوئے۔ کہتے ہیں لڑکیوں کو بھی جنس مخالف کی طرف کشش محسوس ہوتی ہے لیکن ہماری طرف کیوں نہیں ہوتی۔ ہم جنسی گھٹن میں مرتے رہتے ہیں لیکن کچھ بھی کر نہیں پاتے۔ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے آسان ترین اور محفوظ ترین راستہ بھی اختیار نہیں کر پاتے کیونکہ حکیم اور مولوی ڈراتے ہیں۔ احساس گناہ مار دیتا ہے۔ اندر ہی اندر یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا زندگی ہے گوروں کی یہیں جنت بنا لی ہے۔ اور اوپر اوپر سے اپنے آپ کو سہارا دیتے ہیں کہ ہم گناہ سے بچنا چاہتے ہیں ورنہ ہم سے زیادہ تیس مار خان کون ہو گا۔ وہی فعل ہے محبت اور دوستی کا جس پر لڑکا سینہ چوڑا کر کے بلف کرتا ہے اور لڑکی شرمندہ ہوتی ہے۔

پولیس ہو یا عوام چاہے جانے کے خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے۔ لیکن ہم نے اظہار محبت جیسے لطیف اور خوب صورت تجربے کا شاید ہی کسی کو موقع دیا ہو۔ کیونکہ ”محبت“ گناہ ہے، گندگی ہے، بے راہروی ہے، بے غیرتی ہے، بے عزتی ہے، پورے خاندان کے لیے شرمندگی ہے، مغرب زدگی ہے، اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے، گالی ہے، زلزلے اور دوسری قدرتی آفات کا سبب ہے اور پھر ان سے بڑھ کر قانونا جرم ہے اور قابل دست اندازی پولیس ہے۔ اب تو یہ قابل دست اندازی عوام بھی ہے۔ ویڈیو بنا کر پھیلانے اور مزے لینے کے لیے بہترین تحفہ ہے۔

یہ کسی کا ذاتی معاملہ کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں سوچنا سمجھنا ابھی ہم نے شروع ہی نہیں کیا۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں کتنا زیادہ پارسا اور طاقت ور ظاہر کر پاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کسی نوجوان نے ایک ویڈیو وائرل کرنے کی کوشش کی اور شاید کامیاب بھی ہوا۔ اس ویڈیو میں ایک ساٹھ سالہ خاتون بازار میں اپنی گاڑی پارک کرتی ہے اور پٹرول کے نام پر دو چار لوگوں سے پیسے مانگتی ہے۔ وہ نوجوان ویڈیو بناتا ہے جب کہ وہ بوڑھی عورت اس کے کیمرے سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔

ساتھ ساتھ تبصرہ کرتا ہے اور اس عمر رسیدہ خاتون کی توہین کرتا ہے۔ جس نے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھی ہے اس خاتون ہی کا مذاق اڑایا ہے۔ بہت کم لوگوں کا دھیان اس جانب گیا کہ یہ ویڈیو بنانا کتنی گھٹیا حرکت ہے۔ یہ اخلاقی جرم کے ساتھ قانونا بھی جرم ہونا چاہیے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی دوسرے کی اجازت کے بغیر اس کی ویڈیو بنانا شروع کر دے۔

یہ احساس ہی نہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینا بھی جرم ہے۔ لوگوں کو نہ جانے اس بات کا علم کب ہو گا کہ کسی کو مجرم ڈیکلیئر کرنا اور اسے سزا دینا پولیس اور عدالتوں کا کام ہے۔ لیکن ہم نے تو معمولی چوری کے ملزموں کو بھی زندہ جلایا ہے۔ آئے دن چوری کے جرم میں پکڑے جانے والے لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ تشدد کرتے ہیں اور ان کی ویڈیو بناتے ہیں۔ یہ جرائم ہم نے بچوں کے خلاف بھی کیے ہیں اور شاید ہی کبھی کسی کو اس طرح قانون ہاتھ میں لینے کے جرم کی سزا دی گئی ہو۔

اب کیمرہ آ گیا ہے ہر کسی کے ہاتھ میں۔ کسی کی بھی ذاتی زندگی کو فلم بند کر کے اسے سوشل میڈیا پر چڑھا دینا ایک عام سی بات ہو گی ہے۔ ہر کوئی بے بس انسانوں کو ذلیل ہوتا دیکھ کر محظوظ ہوتا ہے۔ ہماری ایذا پسندی کی حد ہے۔

ابھی پچھلے دنوں ایک نوجوان جوڑے  نے لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایک دوسرے کو سرعام پرپوز کیا تھا تو ایک بھونچال آ گیا تھا۔ غیرت برگیڈ کو اپنی بہنیں اپنے ہاتھوں سے نکلتی ہوئی لگ رہی تھیں۔

ہم ہر طرح کی گھٹن کا شکار ہیں۔ جنسی گھٹن تو خاص طور پر بہت عام اور گہری ہے۔ ہمیں خوشی بہت کم ملتی ہے اس لیے ہم کسی کو بھی خوش ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ ہم دوسروں کو صرف تکلیف پہنچا کر ہی خوش ہوتے ہیں اس لیے کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ایک جوڑا آپس میں ”نازیبا حرکات“ کر کے خوش ہے تو اس پر ہمارا ناخوش ہونا بنتا ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔

خیر اس سلسلے میں ہمارے رویوں پر دیوان لکھے جا سکتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ لوگوں کو یہ شعور ملے کہ وہ سرعام اظہار محبت کی خوبصورتی کو پہچان سکیں اور اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا ہم سے یہ برداشت نہ ہو گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments