”وادیٔ سوات میں جو ہم پہ گزری“ پر تبصرہ



پاکستان کا سوئٹزرلینڈ سوات پہاڑی سلسلوں، سر سبز مرغزاروں اور آب و گیاہ سے لدا پھندا، خواب و خیال کی طرح دلکش و دل فریب کوہستانی منطقہ ہے جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے خارجی اور باطنی حسن سے صاحبان نظر کو اپنا گرویدہ بنایا۔ اس خطے میں موجود تاریخی و تہذیبی آثار آج بھی اس کی عظمت کی بھر پور گواہی دیتے ہیں۔

یوں تو یہ سر زمین ہر فکر و نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان میں سے بیشتر کا خمیر دین اور مذہب سے اٹھا ہے۔ اس لئے جب بھی یہاں مذہبی لبادے میں ملبوس کوئی تحریک چلی تو زور پکڑ گئی جس کا آغاز تو شاید نیک نیتی سے ہوا لیکن پھر رفتہ رفتہ خیر میں شرکی قوتیں کچھ یوں سرایت کر گئیں کہ جن ہاتھوں میں روشن مشعلیں تھیں، انہی ہاتھوں نے اسے نذر آتش کر دیا اور ہرا بھرا جنگل راکھ کا ڈھیر بن گیا۔

پچھلی ایک دو دہائیوں میں بھی آگ کے ایک دریانے اس وادی کو آن لیا۔ سوات کے معصوم لوگ اس جھلستی آگ میں جھونک دیے گئے اور مدتوں خاک و خون میں لت پت پڑے رہے۔ بقول فیض احمد فیضؔ:

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

ایک شیطانی چکر (Vicious Circle) اور خونی گرداب میں پھنسے ہوئے اہل سوات بارہا آگ کے ایک دریا سے گزرتے رہے۔ بقول منیرنیازی:

اک اور دریا کا سامنا تھا، منیرؔ، مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اس بھیانک منظر نامے کا مشاہدہ ایک حساس روح فضل ربی راہیؔ نے اپنی کھلی آنکھوں سے کیا۔ وہ اسی ماحول کا پروردہ ہے، یہیں کی خوبصورتیوں میں پلا بڑھا ہے اور حسین روایتیں اور محبتیں سمیٹنے اور بانٹنے کا خواہش مند ہے لیکن اس نے عالم شباب میں اپنے چاروں اور رقص ابلیس ہوتے دیکھا۔ اپنے پیاروں کو دہشت اور وحشت کی بھٹی میں جلتے اور سلگتے پایا۔ دہشت کی اس فضا میں اکثریت ان کرداروں کی تھی جو دبکے بیٹھے رہے اور اپنی کھال بچانے کے عمل میں مصروف رہے جبکہ اسی ماحول میں ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ جیسے لازوال کرداروں نے بھی جنم لیا جو اپنی پوری توانائی کے ساتھ منفی قوتوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ انہی کے پہلوبہ پہلو فضل ربی راہیؔ جیسا شاعر و ادیب و صحافی بھی قلم بدست کھڑا رہا اور اپنا منصب نبھاتا رہا۔ وہ ”دیدہ بینائے قوم“ کے روپ میں نہ صرف ایک صحافی کی طرح عکس بندی کرتا رہا بلکہ ایک چراغ بن کر راستہ بھی سجھاتا رہا۔

فضل ربی راہیؔ کے روزنامچے دل گداز مرثیے ہیں جو انہوں نے لہو میں قلم ڈبو کر لکھے ہیں۔ یہ روزنامچے فیض احمد فیض کی اس غزل کا ہو بہو عکس (Replica) ہیں :

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اسباب غم عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانئی دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں، تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں، اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے، سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

اپنے ہی وطن میں دہشت گردی ایک ایسا عذاب ہے جس میں ریاستی افواج اپنوں کے درمیان چھپے ہوئے منفی عناصر کے خلاف مسلسل عالم پیکار میں رہتی ہیں اور ان میں افراط و تفریط کے بے پناہ امکانات موجود ہوتے ہیں۔ ریاستی عناصر اور عوام کے مابین غلط فہمیوں کا ایک جال بن دیا جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گلے بھی ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی بغل میں چھپے ہوئے خنجروں سے خائف و خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔ ایسے میں غلط فہمیاں اور نادانیاں دونوں کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔

دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست گردانا جاتا ہے۔ دہشت گردی جب طول پکڑتی ہے تو دوست دشمن کی پہچان نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو جاتی ہے۔ المناک المیوں کا شیطانی چکر ریاست اور عوام کو ایک دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ اہل سوات کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کتاب میں آپ کو ان حقائق، غلط فہمیوں اور منفی قوتوں کے عمل دخل سے پیدا ہوتے منظر نامے کی جھلکیاں بار بارملتی ہیں۔ مجھے اور آپ کو ایک قاری کی حیثیت سے ہمارے نیک نیت مصنف سے کہیں اتفاق، کہیں جزوی اتفاق اور کہیں مکمل اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ ملک کے اندر دہشت گردی کے عالم میں ریاستی عناصر، عوام اور خارجی قوتیں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں باہم برسر پیکار ہوتی ہیں۔ تا ہم ایسی روداد سے اہل بصیرت کو سچ کا پورا نہیں توتھوڑا بہت ادراک ضرور ہو جاتا ہے جو خوشگوار مستقبل کاریشم بننے میں مدد دیتا ہے۔ اس تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ فکر انگیز ثابت ہو سکتا ہے ورنہ تو اوہام اور بدگمانیوں کا علاج کسی افلاطون یا بزر جمہر کے پاس نہیں۔

اس کتاب کے مرکزی خیال کو اگر میں صرف ایک جملے میں سمیٹنا چاہوں تو یوں کہوں گا کہ
”ریاست اگر ماں جیسی ہے تو پھر وہ ماں کا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی ہے؟“
ان کا جو فرض ہے، ارباب سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments