یودوکیہ


یہ ناول ویراپانووا کا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ قرۃ العین حیدر نے کیا ہے۔ نومبر 1965 ء میں مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ سے یہ کتاب شائع ہوئی۔ مجھے اس کتاب کو پڑھنے کا شرف پچھلے مہینے جب تیس اپریل، یکم مئی میں بدل رہی تھی تب ملا۔ میں بالکل اس بات سے نا آشنا تھی کہ یہ ناول اپنے اندر سویت یونین یا پھر مزدوروں کے بارے میں اور خاص کر اس دور کے بارے میں اتنے حقائق سمیٹے ہوئے ہو گا۔ اس ناول کے پیش لفظ میں اس کی مصنفہ کا ایک اجمالی سا تعارف پیش کیا گیا ہے کہ ویرپانووا 1905 ء میں پیدا ہوئیں، انہوں نے چار ناول، متعدد ناولٹ، افسانے اور ڈرامے بھی لکھے۔ حیرت کی جو بات مجھے کھٹکی وہ ہے ان کی تصانیف کی مجموعی تعداد پچاس لاکھ ہے۔ اس ناول کو لکھنے کا خیال ویرپانووا کو دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں آیا مگر مکمل ناول کی صورت میں 1959 ء میں چھپا۔ یاد رہے کہ ویرپانووا کی پہلی کہانی 1944 ء میں جب کہ ان کی پہلی باقاعدہ کتاب 1946 ء میں چھپی۔

ادب سے جڑے تمام لوگوں نے تقریباً ”آخر شب کے ہم سفر“ پڑھ رکھا ہو گا۔ جس میں قرۃالعین حیدر ایک کوٹھی نما گھر کی منظر نگاری سے ناول کا آغاز کرتی ہیں۔ وہ جزئیات کو اس خوش اسلوبی سے برتتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں کہ وہ کمرہ اور اس بنگالی علاقے کی معاشرت ایک ایک چیز مجسم ہو کر ہماری آنکھوں کے سامنے سے کئی بار گزر جاتی ہے۔ میں نے تو ان نم ہوا کے جھونکوں کو بھی محسوس کیا تھا جو اس کوٹھی میں آوارہ آمدورفت پر مامور تھے۔

اس ناول ”یودوکیہ“ کا آغاز بھی کچھ اسی طرح ایک روسی قصباتی گھر سے ہوتا ہے۔ اس روسی گھر کے کڑھت والے پردے، چینی گلاب کے پودے، چوبی چھتیں، گھر میں موجود مخصوص روسی اسٹوو کی حدت، دھلے ہوئے فرش، گرما گرم پنیر کے کیک اور کیلری میں لٹکتے ہوئے اوور آلوں کے مشینی تیل کی ملی جلی مہکوں کی تفصیل اس ناول کو ایک الگ ہی تاثر بخشتی ہے۔

یودوکیہ ایک عام سی عیسائی لڑکی ہے جو کہ اپنے باپ کے ساتھ اپنے سلیقے سے سجائے اور سنوارے گئے گھر میں رہتی ہے۔ وہ ایک انتہائی سلیقہ شعار، رحم دل، خدمت گار انسان ہے۔ اس کی شادی ایک بلینی کے رہنے والے لوہار سے ہوجاتی ہے جو کہ اب یہیں یوراں میں رہائش پذیر ہے۔ یودوکم بلینی سے نکلا تھا تو جنگ عظیم اول میں ہونے والی جبری بھرتیوں کی وجہ سے پورا روس ناپ کر، بیماری، بھوک اور افلاس سہ کر واپس یوراں میں اپنی فیکٹری ”کروژی لیخا“ میں واپس آ گیا تھا۔

جہاں وہ دن رات محنت کر رہا تھا اور ایک گھر بسانے کا دن رات سوچ رہا تھا کہ ایک دن اس کا آمنا سامنا اپنی فیکٹری کے ایک مستری اودیف کی بیٹی یعنی یودوکیہ سے ہو گیا اور وہ اس کی محبت میں دیوانہ ہو گیا۔ مگر شرافت کے باعث اس سے کچھ کہہ نہ سکا تو یودوکیہ نے ہی آگے بڑھ کر اظہار محبت کر دیا۔ محبت کی آگ سلگتی رہے تو اپنے پاس کی تمام چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے پھر یودوکیہ کیا چیز تھی۔ یودوکم گھر بناتا ہے اور دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔

مگر شادی کی رات یودوکم ایک نفسیاتی حالت کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی پہلے ہی کسی دوسرے مرد کو خود کو سونپ چکی ہے۔ اس کے بعد محلے کی ایک عورت بھی یودوکم کو اس کی بیوی کے پہلے عاشق کا پتہ دیتی ہے کہ کس طرح ان کی محبت نے یودوکیہ سے ایک حمل تک کا اسقاط کروا دیا اور دونوں کس قدر قریب رہ چکے ہیں۔ اسی سب کی کسی پیچیدگی کے سبب یودوکیہ شادی کے بعد پھر کبھی ماں نہ بن سکی۔ یودوکم کی اس لمحے کی سوچ انتہائی عجیب و غریب حالت کو ظاہر کرتی ہے۔

اس پر مصنفہ اور مترجمہ کی پکڑ انتہائی مضبوط رہی۔ کیونکہ کسی مجسم یا مادی شہ کو دکھانا بہت آسان ہوتا ہے ہم رنگ، ڈھنگ یا عادات و اطوار سے ظاہر کر سکتے ہیں مگر کسی کے جذبات اور ثنویاتی جذبات کی پیشکش بہت مہارت چاہتی ہے۔ یودوکم اس وقت اسی پیشکش میں جتا نظر آتا ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنی بیوی کی کنوارگی نہ ہونے پر ایک روایتی مرد کی طرح بدلے کے جذبے سے سرشار ہے اور دوسری طرف وہ بدلے ہوئے سوویت نظام کا علم بردار بھی نظر آ رہا ہے کہ آج میں اس پر ظلم نہیں کر سکتا، نہ ہی مجھے کوئی مجبور کر سکتا ہے اس عورت کے ساتھ رہنے پر۔ مگر یودوکیہ کی طرح یودوکم بھی ایک انتہائی رحم دل، شفیق انسان تو تھا ہی مگر وہ کھلے ذہن کا اور جدید طرز حیات سے روشناس ایسا انسان تھا جو کہ انسانوں کی برابری کے حقوق اور جبلیات سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔

دونوں ساتھ رہنا شروع کرتے ہیں تو یودوکیہ اپنے شوہر کے مزاج کو خشک پاتی ہے اور اولاد کی کمی کو وہ اس کی خدمت سے بدل دیتی ہے۔ یودوکم کا دوست شیسٹر کن بھی ان کے گھر آنے جانے لگتا ہے۔ تبھی یودوکیہ کے باپ کی دوسری بیوی کی پہلی شادی سے بیٹی یودوکیہ کے گھر رہنے لگتی ہے کیونکہ بخار سے یودوکیہ کا باپ اور سوتیلی ماں دونوں مر جاتے ہیں۔ اس بچی کا نام نتالیہ ہے اور وہ بھی بخار میں مبتلا ہو کر کچھ دن یودوکیہ کے گھر صندوق پر بچھی بھیڑ کی کھال پر کئی دن گزارنے کے بعد دوبارہ زندگی پاتی ہے۔ اسی دوران یودوکم کو ایک بچہ چوری کرتا ہوا گلی میں ملتا ہے، اس کا نام آندرے ہے، تو وہ اسے گھر لے آتا ہے۔ وہ پہلے تو چوری کر کے چلا جاتا ہے مگر کچھ دن بعد پھر سے پلٹ آتا ہے۔ یوں یودوکم اور یودوکیہ دو بچوں کی کفالت کرنے لگتے ہیں۔

ان دونوں کو یودوکم کتابیں لاکر دیتا ہے اور وہ سکول جانے لگتے ہیں۔ نتالیہ نے تو اپنی ماں کی زندگی سے ہی پڑھنا سیکھ لیا تھا اور وہ پڑھنے والا ایک کیڑا تھی جو سب کچھ چاٹ جاتی تھی مگر آندرے کا دھیان پڑھائی میں نہ تھا۔ وہ مستریوں اور مزدوروں کے ماحول میں رہتے ہوئے خوشحالی کو ان کا مستقبل دیکھ رہا تھا، شدید اور سخت محنت کرنے کا متمنی تھا۔ جیسا کہ اس زمانے کے تمام لوگ اپنے نظام پر فخر کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کے خواہاں تھے۔

نتالیہ ایک پڑھاکو مگر بری تربیت یافتہ اور اگنورڈ لڑکی تھی۔ جو کہ اسے ہمیشہ دوسرے بچوں سے الگ تھلگ رہنے اور عجیب و غریب حرکتیں کرنے پر مجبور رکھتا تھا۔ پھر یودوکم کے بھائی کی موت کے بعد ان کے گھر میں دو مزید بچوں کا اضافہ ہوا ایک لڑکا پاویل اور ایک لڑکی کاتیہ۔ یہ دونوں یودوکم کے ساتھ بلینی سے یہاں یوراں میں آن بسے۔ ساتھ میں ایک بچھیا بھی بھیجی گئی تاکہ بچوں کی کفالت میں یودوکم کو زیادہ مسئلہ درپیش نہ ہو۔ کچھ عرصے بعد ایک عورت ایک شیر خوار بچے کو بھی یودوکیہ کی دہلیز پر چھوڑ کر گئی اور اس طرح سے یودوکیہ کے گھر میں پانچ بچے پلنے لگے۔

ایک روز ایک غم کا پہاڑ یودوکیہ اور یودوکم کے خاندان پر ٹوٹ پڑا جب آندرے کی ٹرین سے جلد بازی میں کودتے ہوئے موت واقع ہو گئی۔ یودوکیہ کی صاف دلی اس وقت بھی صاف جھلکی کہ اس نے سوچا وہ ہی شاید آندرے کی صحیح تربیت نہ کر پائی ورنہ ایسا کچھ نہ ہوتا۔ نتالیہ نے ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لیا اور جرمن زبان سیکھی۔ وہیں اسے ایک لڑکا گھر چھوڑنے آنے جانے لگا۔ جس کا نوٹس یودوکیہ نے لیا اور اپنی جوان بیٹی سے مزید قریب بھی ہوئی کہ کہیں یہ کوئی بات چھپا کر خود کو کسی غلط راستے پر نہ لے جائے مگر نتالیہ کا ذہن اس سب سے ماورا ہی رہا اور وہ اپنے مقاصد پر ڈٹی رہی۔

پھر وہ ڈگری مکمل کر کے اوزار بنانے کے ایک کارخانے میں ملازم ہوئی اور اس کے بعد امور دریا کے کنارے آباد ہونے والے ایک نئے شہر کے معماروں میں اپنا نام لکھوا کر وہاں چلی گئی۔ وہیں اس نے انجینئرنگ کی ڈگری لی اور نکولائی نامی بندے سے شادی کرلی۔ جب وہ واپس گھر آئی تو ایک بیٹے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ وہ لڑکا تھا اس کا نام ولودیہ تھا۔

پاویل، آرٹسٹ بننا چاہتا تھا۔ اسے بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی سی معمولی نظر آنے والی ڈرائنگز بناتا اور ان میں گہرے مفاہیم ڈھونڈتا اور دوسروں کو بتاتا۔ ایک دن یودوکیہ سے اس نے کہا کہ ”اماں ایک پتے کو سورج کے سامنے کر کے اس کے ایک ایک حصے کا جائزہ لو، کیمرہ یہ سب نہیں دیکھ سکتا نہ ہی اس طرح سے عکاسی کر سکتا ہے“ ۔ پھر اس نے بچپن میں نتالیہ کی کتابیں پڑھنے کے بعد پشکن کی ایک کہانی ”سلان اور لدمیلا“ کی عکاسی کی اور لدمیلا کو سرخ شعلے سی دکھایا۔

سب سے خوبصورت حصہ اس ناول کا وہی ہے جہاں پاویل کا استاد نکولائی لیوچ جو کہ مسخروں جیسے بلاؤز پہنتا اور عجیب تراش کی مونچھیں رکھتا تھا نے پاویل سے کہا کہ اگر تمہیں آرٹسٹ بننا ہے تو جاؤ جہاں تمہارے بابا کام کرتے ہیں اس فیکٹری کی تصویر بنا کر لاؤ، پاویل نے پہلے ایک عمارت کے طور پر ”کروژی لیخا“ کو پیش کیا تو استاد نکولائی صاحب ناراض ہو گئے اور تصویر اٹھا کر پھینک دی۔ پاویل ایک دم ٹوٹ گیا اور روتا ہوا وہاں سے واپس آیا مگر وہ یہ ضرور جان گیا کہ جو نظر آ رہا ہے وہ سب دیکھ سکتے ہیں مگر جو نظر نہیں آتا اسے صرف ایک آرٹسٹ ہی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے تو وہ دن رات کروژی لیخا کے گرد منڈلانے لگا اور اس کے اندر باہر ہر جگہ کو اپنے اندر سمونے لگا۔

پھر اس کے دماغ میں فیکٹری ایک مضبوط جسم اور معمولی شکل کی عورت بن گئی جو کہ آپ کو لبھا نہیں سکتی مگر زندگی اسی کے دم سے چلتی اور سنورتی ہے۔ یہ فیکٹری یہی کام تو کر رہی تھی۔ استاد نکولائی کو تصویر اتنی پسند آئی کہ وہ سسکیاں لے لے کر رونے لگا پاویل ڈر کے مارے پہلے ہی بے حال تھا جب یہ سارا معاملہ دیکھا تو اور پریشان ہوا مگر پھر سمجھ گیا کہ استاد صاحب فرط جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے۔ بعد میں پاویل نے لینن گراڈ جا کر اکیڈمی آف آرٹس میں داخلہ لیا اور واپسی پر ایک حسین ترین عورت کو اپنی بیوی کے روپ میں ساتھ لایا، جس کے بال بھورے تھے اور ہونٹ بدخشانی۔ وہ سگریٹ پیتی تھی اور ایسے کپڑے زیب تن کرتی جیسے کوئی اس کے علاقے میں پہنتا ہی نہ تھا۔ بعد میں پاویل کو جبری طور پر فوج میں بھیج دیا گیا اور محبت کی امنگوں کی پیاسی اس کی خوبصورت بیوی اس کے انتظار میں گھل نہ سکی اور ایک باریک بھنووں والے مرد سے شادی کر کے اس کے گھر سے چلی گئی۔

کاتیہ ایک جدید دور کی جدید لڑکی تھی جسے نئی طرز اور فیشن کے کپڑوں، عمدہ جوتوں، سرخی پاؤڈر اور چاکلیٹس سے عشق تھا، وہ رقص کی رسیا تھی اور اپنی زندگی میں عام لڑکیوں سے ذرا ہٹ کر خود پر جان چھڑکنے اور مر مٹنے والا ایک عاشق چاہتی تھی جو کہ اسے ملا بھی مگر بناوٹی اور دھوکہ دینے والا۔ کاتیہ نے ٹیلی فون آپریٹرز کے سکول میں داخلہ لیا اور کروژی لیخا میں ہی نوکری شروع کردی۔ بعد میں وہ جنگ کے دوران خود سے فوج میں چلی گئی۔

ساشا کو والی بال کھیلنے کا شوق تھا اور وہ ملاحوں، اسٹیمرز اور سمندری سفر پر فریفتہ تھا۔ اس کی اصل ماں نے ایک بار یودوکیہ پر کیس بھی کیا جو کہ ایک شرابی خاتون تھی اور شراب میں دھت ہو کر ایک دن یودوکیہ سے سو روبل لے جا چکی تھی اور رسید بھی لکھ کر دے گئی تھی کہ اب دوبارہ کبھی ساشا کو واپس نہیں مانگے گی۔ مگر پھر ایک روز واپس آئی اور اپنے مطالبے کی رقم نہ ملنے پر خفا ہو کر یودوکیہ پر کیس دائر کر دیا۔ یودوکیہ اور یودوکم ساشا کو ملاحوں والے کپڑے پہنا کر عدالت میں لے کر گئے اور عدالت میں کمیون ازم کا سراسر ناجائز استعمال دیکھ کر لوٹے مگر کامیاب لوٹے۔

ساشا نے بھی اپنی ماں پر یودوکیہ کی محبت اور شفقت کو ترجیح دی۔ ساشا بعد میں آرمی کے سکول میں جا داخل ہوا اور اور جنگ کے دنوں میں بھی وہیں رہا جس کے سبب وہ بہت ملول تھا کہ وہ ایک برزخ میں لٹک گیا ہے نہ تو وہ جنگ پر جا سکتا ہے حالانکہ پورا روس جنگ میں جل رہا ہے اور نہ گھر واپس آ سکتا ہے کہ اب وہ ایک فوجی ہے۔

ناول کے آخر میں نتالیہ کے بچوں کا کردار اور اطوار پر بھی جنگ کے اثرات نظر آرہے ہیں کہ وہ بھی ڈسپلنڈ بچے ہیں۔ نتالیہ ایک سخت ماں ہے یا پھر وہ ایک زندگی کے تجربات اور حالات و واقعات کو سمجھ کر چلنے والی مہذب خاتون کے طور پر اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ لینا اور ولودیہ اس کے دونوں بچے خود کو حالت جنگ میں گھرے ملک کا ایک سپاہی سمجھتے ہیں اور خطرے سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ کبھی بھی جنگ کی آگ ان کے قصبے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

یودوکیہ اور یودوکم اپنے بچوں کے خطوط ایک کنستر میں رکھتے ہیں جن میں بچپن میں انہی بچوں کی مٹھائیاں اور ٹافیاں ہوا کرتی تھیں اور کسی نہ کسی بہانے سے ان خطوط کو نکال نکال کر پڑھتے رہتے ہیں۔ ایک ڈاکیہ عورت یہ خطوط پورے قصبے تک پہنچاتی ہے۔ جو کہ کھردرا مزاج رکھتی ہے اور بھدے مردانہ جوتے پہنتی ہے اور وہ ایک فرض شناس خاتون ہے۔

1959 ء کا روس اور آج کا مشرق دونوں میں کافی مماثلتیں ہیں۔ مطلب کوئی پون صدی کا فرق بھی اس ترقی پذیری پر اثر انداز نہیں ہوسکا۔ قرۃالعین حیدر نے تراجم کی دنیا میں جس روایت کا استعمال کیا تھا وہ آج تک شاید کسی اور کے ہاتھ میں پنپنے سے عاری ہے۔ ترجمے کو کبھی تو بھنی ہوئی سٹرا بیری کہہ کر اس کا ذائقہ بدلا جاتا ہے اور کبھی دو تہذیبوں کے درمیان پل کہہ کر اسے قوت فراہم کی جاتی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں کی مصداق یہاں صادق آتی ہے۔

دار الترجمہ ماسکو اس سلسلے میں روسی ادب کو اردو کا قالب عطا کرنے میں اہم مقام رکھتا ہے۔ جبکہ ہمارے کئی بڑے ادیب جیسا کہ میرا جی، منٹو اور غلام عباس نے عالمی ادب کو اردو کے قالب میں منقلب تو کیا ہی اور ساتھ ساتھ اپنے طرز نگارش کو بھی عام کیا اور عالمی ادب کی چاشنی کو اردو ادب میں روشناس کروایا۔ نثر کا ترجمہ کرنا بھی اچھا خاصہ مشکل کام ہے جبکہ شاعری تو ہوتی ہی استعارہ اور تشبیہ ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس استعارے کو کیسے برتا گیا یا پھر کس تشبیہ کہ پیچھے کون سا مشبہ چھپا بیٹھا تھا۔

اس کے برعکس نثر میں ناول کی سطح پر جزئیات نگاری بہت ہی اہم مقام رکھتی ہے۔ ان تمام جزئیات کو سمیٹنا کسی عام مترجم کے بس کی بات نہیں۔ ایک ایک فقرے میں کئی کٹھنائیاں مترجم کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ عینی آپا کیونکہ ایک ذہین اور محنتی انسان تھیں لہذا انہوں نے چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے ناول کو اپنی گرفت میں رکھا اور کسی روسی گھر یا پھر ایک مڈل کلاس روسی قصباتی خاندان کے گھر کی تمام اشیاء، مہمان نوازی اور کھلے دل کا ہونے کے لئے متوقع طور پر الفاظ کا کیا ہی خوب چناؤ بھی کیا۔

عینی کیونکہ خود ان تمام علوم اور حسیات پر دسترس رکھتی ہیں اور ایک مشاق مترجم ہیں لہذا مصوری، رقص، نرگسیت، سوویت یونین، جنگ عظیم کے مضمرات، نت نئے بھانت بھانت کے فیشن، نوجوانوں کے مسائل اور نفسیات، ایک ماں کے خدشات، ایک کامریڈ قسم کے مزدور کی کٹھن محنت سے لگن، جغرافیہ، جنگ کے بعد اور دوران کے انسانوں کی زندگی پر اثرات، ۔ کمیون ازم اور کمیون ازم کا الٹا استعمال ان تمام لوازمات کے ساتھ انصاف کر گئیں اور جو کچھ حتی الامکان ترجمے کے ذریعے پیش کر سکتی تھیں اسے مجسم کر کے ہمارے سامنے پیش کر دیا۔

ناول نگاری کو خواتین ناول نگاروں کے ہاتھوں میں زیادہ مسحور کن محسوس کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بہت سے پہلوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر جمع کرنا اور پھر ترتیب دینا ہوتا ہے۔ جو کہ خواتین کا خاصہ ہے۔ ویراپانووا اور عینی آپا دونوں ہی نے اپنے اچھے ناول نگار اور جزئیات پر اپنی گرفت رکھ کر چلنے والا ایک ادیب کا کردار خوب ادا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments