انتہا پسندی کے اسباب اور سد باب


یہ دنیا مسائل کا گڑھ ہے، یہاں بے شمار مسائل رونما ہوتے، پروان چڑھتے اور پھر اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ جدید دور میں بھی چند مسائل ایسے ہیں جن کی لپیٹ میں آج کی ساری دنیا عموماً اور اسلامی ممالک خصوصاً ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ جس کی آتش زدگی سے بننے والا کثیف دھواں تقریباً پوری دنیا کو سیاہ کر رہا ہے ؛ وہ مسئلہ ہے انتہا پسندی۔ انتہا پسند عناصر نے اپنے کردار کی سیاہی سے صفحہ عالم پر خون کی جو سرخی پھیلائی ہے ہفت اقلیم اس کی دسیسہ کاریوں سے حیران و پریشان ہے۔

انتہا پسندی کے اسباب اور اور اس کا حل تلاش کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ انتہا پسندی کیا چیز ہے؟ یہ کیسے پیدا ہوتی ہے؟ کیوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے سماج میں سچائی تک پہنچنے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔

انتہا پسندی کو انگریزی زبان میں extremism اور عربی میں ”التطرف“ کہا جاتا ہے یعنی غیر معتدل۔ مفکرین کے نزدیک کسی بھی مسئلے میں اپنی ذاتی رائے کو حتمی سمجھنا اور حرف آخر قرار دینا، اسی کو حق سمجھنا، اس کو منوانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنا اور کسی دوسرے کی رائے کو قبول نہ کرنا انتہا پسندی کہلاتا ہے۔ انتہا پسندی بنیادی طور پر ایک انسانی رویہ یا ذہنی رجحان ہے۔ ہر وہ شخص یا گروہ جو طاقت کے ذریعے اپنے خیال یا ایجنڈے کی تنفیذ چاہتا ہے وہ انتہا پسند ہے ; قطع نظر اس بات سے کہ اس کا خیال یا ایجنڈا کیا ہے؟

انتہا پسندی کی دو بنیادی وجوہات ہیں :ایک اعتقادی جسے مذہبی انتہا پسندی بھی کہا جاتا ہے اور دوسری عملی جسے سیاسی یا قومی انتہا پسندی بھی کہا جاتا ہے۔

معاشرے میں انتہا پسندی کے عمومی اسباب

انحراف و بگاڑ کبھی اچانک رونما نہیں ہوتا بلکہ اس کا اثر بتدریج اقوام میں سرایت کرتا ہے اور اس کی خبر تب ہوتی ہے جب وہ زور پکڑ جاتا ہے اور اس کے در آنے کے پیچھے بھی کچھ اسباب وعلل ہوتے ہیں۔ اسی طرح غلو وانتہا پسندی کے بھی کچھ اسباب ہیں۔ ان میں دینی ونظریاتی بھی ہیں، سیاسی وسماجی بھی جبکہ بعض نفسیاتی بھی۔

متشدد سوچ، فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی قومی اور معاشرتی ہم آہنگی کو کمزور کرتی ہے۔ یقیناً معاشرے میں اس وقت گراوٹ آتی ہے جب نفرت انگیز تقاریر یا لٹریچر کو فروغ دیا جاتا ہے، کسی مذہب، نسل، رنگ کی بنیاد پر کسی کی تذلیل کرنا یا نقصان پہنچانا در اصل سماجی تعصب کو بڑھاوا دیتا ہے خصوصاً جس معاشرے میں تعلیم کی کمی ہوتی ہے یا پھر کوئی لیڈر اپنی قوم کو نسل پرستانہ، نفرت انگیز تقاریر اور متشدد رویوں کے لیے بھڑکاتا ہے، وہاں پر تعصب اور زیادہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنی قوم، نسل، مذہب اور نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہے، لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب خود کو برتر سمجھنے والے دوسروں کو کم تر خیال کرتے ہوئے ان کو ذہنی و جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے لگیں۔ یہ رویے نفرتوں، لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کا سبب بنتے ہیں۔

یہ کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں، بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں در آئی ہے۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں سے قلم کاروں کی اکثریت کو شکوہ ہے کہ ان کے کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت ان کی حامی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمارے نوجوان تہذیب کے دائرے سے کیوں نکل ر ہے ہیں؟

انتہا پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ وہ اپنے اصولوں پر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں اور اپنی درسگاہوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمیں آج کے ترقی یافتہ یورپ میں بھی مل جائیں گی کہ جہاں سیکولر معاشروں میں شخصی آزادی اپنی انتہا پر ہے، وہاں بھی کچھ لوگ سختی سے اپنے شدت پسندانہ خیالات پر کاربند ہیں۔

تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنالیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں انتہا پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔

انتہا پسندی کی ایک اہم وجہ غیر فطری اور غیر شرعی سیاسی گروہ بندیاں ہیں جس کے بعد مسلمان کی محبت اور نفرت سیاسی وابستگی پر محیط ہو گئی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں مذہبی منافرت نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی بدولت ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ مسلکی اختلافات دنیا کے تمام مذاہب اور معاشروں میں پائے جاتے ہیں لیکن مسلک کے حوالے سے جو شدت ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے شاید ہی کہیں اور ہو۔

انتہا پسندی کی اصل در حقیقت قرآن و سنت سے انحراف ہے اور قرآن و سنت کی من مانی تعبیر و تفسیر اس انتہا پسندی میں اضافے کا سبب ہے۔ اسی طرح سے جہالت انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ تمام خرافات اور انحرافات کی جڑ ہے۔ انسان میں انتہا پسندی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان کے پاس علم اور دلائل موجود ہوں تو وہ باوقار طریقے سے صرف نظر کرتا ہے ; جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے والد کو نرمی سے دعوت دی تو باپ نے طیش میں آ کر گھر چھوڑنے کی اور سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔

الغرض اس کے درج بالا چند بنیادی اسباب کے علاوہ بھی کئی دوسرے اسباب ہیں جو سماج میں ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں لہذا ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور اس کا حل تلاش کر کے سد باب کیا جائے تاکہ ملک و ملت اور دین و مذہب انتہا پسندی کے شرور سے مامون و محفوظ ہو کر اعتدال کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

کسی بھی ریاست پر دشمن اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب ملک میں داخلی انتشار ہو، اگر قومی اتحاد، اتفاق ہو تو دشمن میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ آج ہم مثبت معاشرے کے فروغ کے لیے ایک قدم اور آگے بڑھائیں۔

یقیناً ریاست اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ قانونی اداروں کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام افراد کے تمام حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام اور حفاظت کی ذمہ داری پوری کرے اور کسی بھی تشدد کی روک تھام کے لئے قانون کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کریں۔ ہم اگراس ناسور کا خلوص دل سے خاتمہ چاہتے ہیں تو غربت اور بے روزگاری جیسے عفریتوں کو شکست دینا ہو گی، صحت اور انصاف کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانا ہوگا، ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق روزگار دینا ہوگا اور مذہب کو شدت پسندوں کا ہتھیار بننے سے روکنا ہو گا۔

یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ انتہا پسندی کو مذہب کے ساتھ جوڑنا ایک مخصوص مذمومانہ اہداف کی تکمیل کا حصہ ہے وگرنہ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں سے ان گنت افراد کو شکایت ہے کہ ان کے کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اپنے مخالفین پر مغلظات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔

مذہبی انتہا پسندی میں روز بروز اضافے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو مذہب اسلام کے نام پر معاشرے میں انتہا پسندانہ افکار کو پھیلا رہے ہیں جس میں سرفہرست لبرل فاشسٹ ہیں جنہیں ہر داڑھی، ٹوپی اور کرتے والا انتہا پسند یا دہشت گرد نظر آتا ہے ؛ حتی کہ عصری میدانوں میں بھی اپنی اور حکومتی ناکامیوں کو مذہب کے سر تھوپ دیا جاتا ہے، اور ہمارا میڈیا بھی نامعلوم ایجنڈے کے تحت دنیا کو یہی باور کروانے میں مصروف عمل ہے کہ مذہب اسلام کے ساتھ وابستگی ہی انتہا پسندیت اور دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی میں مذہب کے حقیقی وارثین تو بہت کم ہیں لیکن اس کے نام پر مذموم کردار ادا کرنے والے بہت ہیں ؛ لہذا انتہا پسندی کے سد باب کے لیے ان عناصر کے خلاف کارروائی اور شعور راست پیدا کرنے کے لیے انتہائی اقدام کی ضرورت ہے جو کاغذ، قلم، سکرین، زبان اور انصاف کے چبوتروں غرض ہر ذریعہ سے اٹھائے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments