کچے کے پکے ڈاکو، اور حکومتی رٹ


ان سے میری ملاقات ایک دوست کے گھر پر ہوئی ان کا نام عبدالواحد یے بیالیس سال عمر چہرے پر ہلکی داڑھی یہ کراچی کے ایک معتمول درمیانے بزنس میں ہیں۔ کراچی کے پوش علاقے گھر ہے۔ اس کا شہر کی بڑی مارکیٹ میں خام لکڑی کا گوادام ہے۔ ان کی ایک نیک دل بیوی اور چار بچے بھی ہیں۔ زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی۔ عبدالواحد کو فون کال موصول ہوئی۔ دوسری طرف نسوانی خوبصورت آواز تھی۔ یہ عبدالواحد کے لیے منفرد تجربہ تھا۔ ان کے زیادہ تر فون کاروبار متعلق لوگوں کے ہوتے تھے۔ خاتون کی کال معمول سے ہٹ کر تھی۔ خاتون کا کہنا تھا۔ وہ واجد علی سے بات کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے رانگ نمبر کا کہہ کر فون رکھنا چاہا خاتون بضد رہی کہ یہ واجد علی ہیں۔ یہ انکار کرتے رہے۔

اب اکثر اس خاتون کا فون آنے لگا یہ بھی خاتون سے بات کرنے لگے خاتون سے ان کی دوستی ہو گئی اس نے ان کو اپنی تصاویر بھیجیں۔ یہ خاتون کو اپنی پوری معلومات پورا پروفائل تک بتا گئے انہوں نے کرائے پر دیے مکانات اور دکانوں کی آمدن سے لے کر لکڑی کے کام سے بننے والا بینک بیلنس بھی بتادیا۔ انہوں نے کئی بار خاتوں سے ملنے کا کہا جسے وہ خاندانی پابندیوں کا بہانہ بناتی ایک ماہ بعد خاتون نے عبدالواحد سے سے ملنے پر رضا مندی ظاہر کی اور انہیں شکارپور آنے کا کہا کی یہ اپنی بیش قیمت گاڑی میں بیٹھے اور شکار پور روانہ ہو گئے یہ سارا راستہ خاتون سے بات کرتے رہے خاتون بھی ان سے سفر کے متعلق معلومات حاصل کرتی رہیں آخر شکارپور میں طے شدہ جگہ پر پہنچے اور خاتون کو فون کیا خاتون نے پانچ منٹ میں پہنچنے کا کہا ان کی گاڑی کھڑی کرتے ہی گاڑی کو چاروں طرف سے کلاشنکوف بردار افراد نے گھیر لیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے یہ اغوا ہوچکے تھے۔

ڈاکو انہیں کچے کے علاقے میں لے گئے جہاں سے یہ بھاری تاوان دے کر ایک ماہ بعد رہا ہوئے۔ یہ کہانی کراچی واحد، واجد، قادر کئی سیٹھوں کی ہے۔ یہ کہانی سکھر نوابشاہ اور حیدر آباد کے سیٹھوں کی بھی ہے۔ کچے کا علاقہ سندھ کے بدنام ڈاکووں کے ٹھکانوں کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ جیکب آباد، کشمور کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ، گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ، خیرپور اور دادو، شمالی سندھ کے اضلاع ہیں۔ اکثریت کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں۔ یہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔

دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں۔ یہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں۔ ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس، بارہ کلومیٹر ہے تو کہیں دو سے پانچ کلومیٹر ہے جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں۔ تب دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے۔ مگرسردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کے جیسے بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے۔ دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے۔

شمالی سندھ کے کچے کے علاقے 1980 کی دہائی سے ڈاکوؤں کی پنا گاہیں ہیں۔ یہ ڈاکو گروہ لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری کی وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ اکثر مخبری، پولیس کو اطلاع، یا قبائل کی آپسی دشمنی میں خونریزی میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ان کے پاس راکٹ لانچر، اینٹی ایئیر کرافٹ رائفل، دستی بم اور جدید اسلحہ ہے۔ یہاں اگر اصلی پولیس مقابلے ہوں تو نقصان عام طور پر پولیس کا زیادہ ہوتا ہے۔ ان اضلاع درجنوان افراد اغوا چکے ہیں جو ڈاکووں کے قبضے میں ہیں۔ ڈاکووں نے انہیں مختلف مقامات سے اغوا کیا۔

کشمور، گھوٹکی جیکب آباد، قمبر کی صورت حال بھی اغوا کی وارداتوں کے حوالے سے تسلی بخش نہیں ایک اطلاع کے مطابق حال میں کشمور سے گیارہ افراد کو اغوا کر لیا گیا شکار پور کچے کا سب سے خطرناک علاقہ یے یہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کا آبائی شہر بھی یے یہاں تعینات ہونے والے ہر ایس ایس پی نے کچے میں آپریشن کا دعوی کیا ڈاکوں کی گرفتاری، مارے جانے کے اعلانات بھی ہوئے لیکن کبھی آپریشن کے موثر نتائج نہ نکل سکے جو کچے جو جانتے ہیں۔ ان کے لیے شکار پور کے حوالے سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ کو نظر انداز کرنا آساں نہیں۔ یہاں نئے ایس ایس پی تعینات ہوئے امیر سعود مگسی انہوں نے ڈاکووں کے قبضے سے چھ مغویوں کو بازیاب کرانے کا فیصلہ کیا تیغو گڑھی میں ڈاکووں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ڈاکووں سے مقابلہ ہوا تین اہلکار شہید ہو گئے پولیس بکتر بند ڈاکووں کے قبضے میں چلی گئی۔

پولیس نے جوابی کارروائی کی تو چھ ڈاکو بھی ہلاک ہوئے لیکن ڈاکووں کا حوصلہ کم ہوتا نظر نہ آیا اس سے قبل ایک واقعہ کشمور کندھ کوٹ کے گاؤں درانی مہر میں پیشی آیا عید کے تیسرے روز یہاں چاچڑ برادی کے گاؤں پر ڈاکووؑں نے حملہ کر دیا جس میں دس افراد جاں بحق ہوئے کچے میں مختلف قبائل آباد ہیں جن میں بجارانی، تیغانی، چاچڑ، جاگیرانی، سبزوئی، بنگوار مھمدانی، نندوانی چولیانی، اور ڈاھانی بھیا قابل ذکر قبائل ہیں۔

ان قبائل کے اکثر لوگ جرائم پیشہ نہیں لیکن جرائم پیشہ افراد کا تعلق انہیں قبائل سے ہے۔ یہ لوگوں کو اغواکرتے ہیں۔ ڈاکے ڈالتے ہیں۔ موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی چھین لیتے ہیں۔ ہائی وے پر بسیں بھی لوٹ لیتے ہیں۔ یہ جرائم رپورٹ بھی ہوتے ہیں لیکن پولیس کے کان پر جوں نہیں رینگتی پولیس ہلچل قبائلی تصادم کے بعد پیدا ہوتی ہے جب اچانک درجن کے قریب لوگ قتل کردیے جائیں شمالی سندھ میں حکومت کی رٹ دکھائی نہیں دیتی یہاں ریاست کے معنی بھی مشکوک ہو جاتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سردار پشت پناہی کرتے ہیں جو سیاست دان بھی ہیں اور وقت کے حکمران جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ان ضلعوں کو کمانڈ کرنے والے کہتے کسی ایک ضلع میں ڈاکووں کے خلاف آپریشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا کچے کے علاقے کی سرحدیں تین صوبوں سے ملتی ہیں۔ شاہ بیلو کے جنگلات کشمور سے شکار پور، گھوٹکی، رحیم یار خان، راجن پور تک پھیلا ہوا ہے۔ شدید متاثرہ پانچ اضلاع کی پولیس کو پنجاب پولیس کی مدد سے پوری طاقت سے آپریشن کرنا ہو گا جس کی مدت ڈاکووں کے خاتمے سے مشروط رکھی جائے یہاں پولیس کو اضافی وسائل، اور فنڈز فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

سندھ حکومت کو سیاسی دباؤ سے بالاتر ہونا ہو گا۔ اچھے ڈاکو برے ڈاکو، اپنا ڈاکو پرایا ڈاکو کی اصطلاح سے بھی باہر نکلنا ہو گا۔ پیرا ملٹری، ملٹری کی مدد لینی ہوگی۔ پولیس بھی ایرانی ڈیزل چھالیہ، اور نان کسٹم کاروں کی اسمگلنگ، اور کالے دھندوں سے ہونے والی آمدن ضرور جمع کرے لیکن امن کو بھی کہیں کہیں ترجیح دینی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments