انواسی ( ناول کا جائزہ )۔


آپ کہہ سکتے ہیں کہ محمد حفیظ خان کا ناول، ”انواسی“ اٹھارہ سو اکسٹھ میں دریائے ستلج پر تعمیر کیے گئے ایمپریس پل کی کہانی ہے جس میں برطانوی انتظامیہ اور ریلوے انجینیئرز کی پیشہ وارانہ رقابت، تین سو گھرانوں پر مشتمل مقامی آ بادی کے ساتھ ایک قبرستان سے ریلوے لائن گزارنے کا واقعہ اور اس واقعہ کے نتیجے میں نوجوانوں کا قتل، قبرستان سے اپنے آ باء کی ہڈیاں سمیٹنے کی مشروط اجازت، سات شہیدوں کی قبروں کی برطانوی انتظامیہ کی جانب سے نئے قبرستان میں منتقلی اور سات شہیدوں کی شناخت گم ہونے کی وجہ سے چالیس درویشوں کی آہ و فغاں، آہ و فغاں کے نتیجے میں ہجوم کا بستی میں مولوی اللہ بخش کے گھر پر حملہ، حملے کے نتیجے میں مولوی صاحب کا بیہمانہ قتل، قتل کے نتیجے میں ان کی بیوہ پر بیٹے کی میلی آ نکھ، میلی آ نکھ کے نتیجے میں بیوہ کا مولوی صاحب کے بھائی سے عقد نکاح، اس عقد نکاح کے نتیجے میں مولوی اللہ رکھا کا کشتے کھا کر چل بسنا اور مولوی اللہ رکھا کی موت کا الزام ایک نوجوان پر لگنا۔

غرض کہ ہوس، حرص، آ زادی، عقیدت، انتظام کی کہانیاں جا بجا ہیں۔ برطانوی انتظامیہ نے دریائے ستلج پر لوہے کا پل تعمیر کرنا ہے اور اس کا شارٹ کٹ بستی آدم واہن کے آ بائی قبرستان سے گزرنا ہے لہذا لوگوں کو مشروط طور پر اپنے آ باء کی باقیات کسی دوسرے قبرستان میں منتقل کرنے کا کہا جاتا ہے جسے اکھڑ باپ نگھیرو کے بیٹے سیدے اور اس کے دوست قبول نہیں کرتے بلکہ وہ انگریز انتظامیہ کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں اور بالآخر مارے جاتے ہیں۔

ایک برس بعد چالیس درویش ہر برس منعقد ہونے والے ایک میلے میں آتے ہیں اور سات شہیدوں کی قبروں کو نشان نہ پا کر بین کرتے ہیں۔ قتل و غارت ہوتی ہے۔ چالیس درویشوں کے تیرہ لوگ شہید ہو جاتے ہیں اور اب وہ بیس شہیدوں کا بین کرتے ہیں۔ ستلج کو بد دعائیں دیتے ہیں کہ کبھی اس میں مچھلی پیدا نہ ہو، اس کا پانی سوکھ جائے وغیرہ۔ یعنی انیسویں صدی کے اواخر میں دی گئی بد دعائیں انڈس بیسن ٹریٹی نے پوری کیں۔ آج ستلج سوکھا ہوا ہے۔

چیف انجنئیر جان برنٹن کے خلاف سازش اور اس سازش کا مرکزی کردار گالوے کا ایک مہرہ ولیم آرتھر دراصل جان برنٹن کا سگا بیٹا ہے جو شاید اپنی ماں میری کا دکھ جان برنٹن کے خلاف لئے پھرتا ہے اور جان برنٹن کے مخالفین کے ساتھ مل کر اسے انڈس ویلی سٹیٹ سے برخاست کروا دیتا ہے۔ پراسیکیوٹر ایما کی جان برنٹن کے لئے محبت اور اس محبت کی بے پایاں جنسی تشفی خاصے کی چیز ہے۔ کہانی میں جب بھی ایما آتی ہے تو ایک شگفتگی آ جاتی ہے۔

ہر قاری ایما جیسی محبوبہ اپنے تخیل میں بسائے پھرتا ہے۔ کہانی کا سب سے کمزور پہلو اخلاق باختگی کا وہ الزام ہے جو جان برنٹن پر لگتا ہے۔ ایک مقامی عورت کو دو انگریز افسر جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے وہ مقامی عورت جان برنٹن سے داد رسی کے لئے چکر لگاتی پھرتی ہے اور ایک دن وہ جان برنٹن کے پاس کھڑی ہوتی ہے کہ ولیم اور جم ( انجنئیر بیٹا اور انتظامی افسر) اس پر اخلاق باختگی کا الزام لگا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بعد ازاں جان کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ کہانی دراصل سنگری کی ہے جو سیدے کے بچپن ہی سے حق ( عقد نکاح ) میں ہے اور سیدا ایک اکھڑ مزاج بہادر آ دمی ہے جو انگریز انتظامیہ کے خلاف قبریں کھودنے کے معاملے پر ڈٹ جاتا ہے۔ سنگری ایک آزاد عورت ہے جو نسوانی حسن سے مالا مال ہے اور وہ اس حسن کو اپنی مرضی سے نچھاور کرنا چاہتی ہے مثلاً وہ گھر سے بھاگنے کا ایڈونچر کرنا چاہتی ہے، جنسی زیادتی کا شکار ہونا چاہتی ہے، لڑکوں سے چھیڑے جانا چاہتی ہے لیکن سیدے کی وجہ سے کوئی اسے آ نکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور یہی سنگری کے لئے سوہان روح ہے، اس کے مزاج اور انا کے خلاف ہے

مصنف ایک جگہ لکھتا ہے کہ سنگری کیچوے پسند نہیں کرتی بلکہ کالے ناگ سے ڈسے جانے کا ایڈونچر کرنا چاہتی ہے۔ وہ سیدے کی انا کو یہ کہہ کر ٹھیس پہنچاتی ہے کہ انگریز کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد وہ کسی کے سامنے، ”چڈے کھول دے گی“ اور سیدے کو اس غیر ذمہ داری کی سزا دے گی کہ وہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہا تھا۔ طیش میں آ کر سیدا اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اور بہت مارتا پیٹتا ہے لیکن سنگری کو اس مار میں مزا آ تا ہے وہ گھوڑے پر بیٹھتے ہوئے سیدے پر کلہاڑی سے وار کرتی ہے جو اس کے کندھے کو چھو کر گزر جاتی ہے اور سیدا دیوانہ وار سنگری کا ریپ کر دیتا ہے۔

”میں نے اس کے منہ پر تھوکا اور وہ میری کوکھ میں تھوک گیا“ سنگری حقارت سے کہتی ہے۔ سیدا انگریز کے ہاتھوں مارا جاتا ہے یا کہیں بھاگ جاتا ہے لیکن بہر حال واپس نہیں آ تا۔ سنگری کو حمل ٹھہر جاتا ہے اور اس کی ماں ملوکاں دیوار سے سر پھوڑنے لگتی ہے۔ سنگری ایک خاموش منصوبہ ساز ہے اور قدم قدم پر قاری کو حیران کرتی ہے۔ مولوی اللہ بخش کو حجرے می ماں کے ساتھ جا کر پروپوز کرتی ہے اور شادی کر لیتی ہے۔ چھ ماہ بعد امانت ( منتو ) پیدا ہوتا ہے اور مولوی صاحب کی پہلی تین بیویاں چہ میگوئیاں کرنے لگتی ہیں مولوی صاحب تو اس قابل نہیں تھے۔

زنان خانے میں بچے کی ولدیت سے متعلق موضوع ہمیشہ زیر بحث رہتا ہے حتیٰ کی مولوی صاحب کے قتل کے بعد ان کا بیٹا سنگری سے جنسی تعلقات ہموار کرنے کے لئے جتن کرتا ہے بلکہ بچے کی ولدیت سے متعلق گھٹیا باتیں کرتا ہے۔ ایک دن سنگری کا بازو پکڑ لیتا ہے اور سنگری اس کے منہ پر تڑاخ سے تھپڑ مارتی ہے۔ مولوی بخشو خود سے جنسی زیادتی کا الزام لگانے لگتا ہے اور ادھر سنگری ایک اور شادی کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ مولوی اللہ رکھا سے شادی کا فیصلہ یعنی شوہر کے بھائی سے شادی کا فیصلہ اور جیسے وہ مولوی رکھا کو شادی کے لئے مناتی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔

سنگری کا کردار بہت جاندار ہے۔ اپنے ایک عاشق اور محسن کو مولوی اللہ رکھا کو کشتے کھلانے اور نتیجے میں جان سے جانے کا الزام لگا کر بہت پٹواتی ہے۔ جب آ گے چل کر مولوی بخشو جو سنگری کی عزت پر ہاتھ ڈالنا چاہتا تھا اس سے بے اعتنائی برتنا شروع کرتا ہے تو بجائے خوش ہونے کے سنگری بے چین رہنے لگتی ہے اور ایک دن سیلاب اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ آ جاتا ہے۔ سیلاب میں اونچے ٹیلوں پر محصور ستی والے بھوک اور موت سے زندہ رہنے کا احساس رکھتے ہیں۔ انسان اپنی تمام تر بد صورتیوں کے ساتھ نظر آ تا ہے یہاں تک کے وہ بد صورتیاں دیکھ کر ابکائیاں آ نے لگتیں ہیں۔ سیلاب اپنا آپ دکھا کر جاتا ہے۔ سنگری اور منتو کا کیا ہوتا ہے؟ سیدا واپس آ تا ہے یا نہیں؟ یہ باتیں میں جان بوجھ کر تشنہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ آپ ناول پڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments