’سمر آف سیکس‘: کیا آنے والا موسم گرما سیکس سے بھرپور ہو گا؟

برائین لفکن - بی بی سی ورک لائف


 

کورونا، سیکس

اپریل میں ایک پرواز کے دوران ایک مسافر نے اپنے برابر کی سیٹ پر بیٹھے ایک مسافر کو ایسی بات کہتے ہوئے سُنا جو اُنھوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔

’جان، میں نے (کورونا) ویکسین بھی لگوا لی ہے اور ویکس بھی کروا لی ہے۔ میں ایکشن کے لیے تیار ہوں۔‘

کورونا کی عالمی وبا کے باعث ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک تنہا رہنے کے بعد یہ جملہ شاید آنے والے مہینوں کی متوقع رنگینیوں کی بھرپور عکاسی کرتا ہے اور لوگ اب شاید ماسک کو چھوڑ کر دوسری قسم کی پروٹیکشن (کنڈوم) کا زیادہ استعمال کریں گے۔

جی بالکل، 2021 کی گرمیوں کو خوش آمدید، جنھیں سیکس سے بھرپور موسمِ گرما ہونا ہے۔

اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کی شہ سرخیوں میں اسے طرح طرح کے نام دیے جا رہے ہیں اور ڈیٹنگ ایپس میں بھی لوگ اپنے تعارف میں یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ ویکسین لگوا چکے ہیں اور سیکس کے لیے تیار ہیں۔

گرمیوں کے بارے میں یہ پیش گوئی اتنے وسیع پیمانے پر کی جا رہا ہے کہ ماہرین کو فکر ہونے لگی ہے کہ کہیں جنسی طور پر پھیلنے والے انفیکشنز (ایس ٹی آئی) میں اضافہ ہی نہ ہو جائے۔

اس حوالے سے چاہے جتنا بھی جوش و خروش پایا جا رہا ہو، مگر کیا واقعی سیکس سے بھرپور موسمِ گرما ایک حقیقت ہے؟

یہ بھی پڑھیے

سہاگ رات: ’جنسی تعلق اہم ہے، جلدی یا دیر اہم نہیں‘

کیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟

سیکس سے جڑے حفظان صحت کے آٹھ اصول جو آپ کے لیے جاننا ضروری ہیں

آخر کار کووڈ 19 اب بھی دنیا کے کئی ممالک میں آفت مچائے ہوئے ہے اور عالمی وبا کے دوران جوڑوں اور سنگل افراد سبھی کے اندر جنسی خواہش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

مگر اس کا جواب شاید صرف فوری طور پر جنسی خواہش کی تکمیل کی طرف بھاگنا نہ ہو، بلکہ سیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ویکسین لگوانے اور لاک ڈاؤنز اٹھائے جانے کے بعد زیادہ امکان یہ ہے کہ لوگ معاشرے میں دوبارہ داخل ہوں گے اور صرف جنسی ہی نہیں بلکہ کسی بھی قسم کے گہرے تعلق کی تلاش کریں گے۔

سیکسی سمر کا بیانیہ

سیکس

بہت سے لوگ آنے والے مہینوں کو ’رورنگ ٹوئنٹیز‘ نامی دور کی حیاتِ نو کہہ رہے ہیں۔ رورنگ ٹوئنٹیز 1920 کی دہائی کو کہا جاتا ہے جس میں سنہ 1918 کے ہسپانوی فلو کی عالمی وبا کے بعد بے تحاشہ پارٹیاں منعقد کی گئیں۔ اور واقعتاً اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ آنے والی گرمیاں جذبات سے بھرپور ہوں گی۔

مثال کے طور پر امریکہ میں شہوت انگیز اشتہارات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس میں کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے شہوانی تصاویر کا سہارا لے رہی ہیں اور آنے والی گرمیوں کو سیکس کا موسم قرار دے رہی ہیں۔

ڈچ فیشن برانڈ ’سوٹ سپلائی‘ نے ’نئے معمول کی آمد‘ کا وعدہ کیا ہے اور ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے برہنہ جسموں کی تصاویر کا استعمال کیا جبکہ اٹلی کی فیشن کمپنی ڈیزل نے بھی جوڑوں کے محبت بھرے بوسوں کی تصاویر پر مشتمل اشتہاری مہم چلائی ہے۔

مگر صرف اشتہارات ہی اس بات کا اشارہ نہیں ہیں بلکہ صارفین کے رجحانات بھی رورنگ ٹوئنٹیز جیسی گرمیوں کی آمد کا پتہ دے رہے ہیں۔

امریکہ میں اپریل کے دوران کنڈوم کی فروخت میں گذشتہ سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 23 فیصد اضافہ ہوا۔ کنڈوم بنانے والی کمپنی ڈیوریکس کا کہنا ہے کہ اپریل میں اس کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔

اُن کے مطابق کنڈوم کی فروخت میں یہ تیزی کورونا پابندیوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ جب گذشتہ گرمیوں میں سماجی فاصلے کی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی، تب بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا تھا۔

کچھ ماہرینِ جنسی نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ واقعی ممکن ہے کہ رواں سال گرمیوں میں سیکس بالخصوص رومانوی تعلق کے بغیر کیے جانے والے سیکس میں ان گرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ بہت حیران کُن ہو سکتی ہے، یعنی ہمارا اجتماعی صدمہ۔

یونیورسٹی آف منیسوٹا میں سائیکولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ایشلے تھامپسن کہتی ہیں کہ ’جب ہمیں موت سامنے نظر آ رہی ہو تو ہم زیادہ پُرخطر رویہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنی زندگی کو بھرپور انداز سے جینا چاہتے ہیں۔‘

پروفیسر ایشلے تھامپسن انسانی جنسیات اور جنسی رویوں کی ماہر ہیں۔ اُنھوں نے اس حوالے سے تحقیق کی ہے اور اسے ’دہشت سے نمٹنے کا نظریہ‘ یا ’ٹیرر مینیجمنٹ تھیوری‘ کہا ہے جس کے مطابق موت کے بارے میں اینگزائٹی انسانی رویوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ ’اس سے ہو سکتا ہے کہ زیادہ بلاتکلف جنسی رویہ سامنے آئے جس کا مقصد اپنی موت کے بارے میں منفی خیالات سے نمٹنا ہو۔‘

کیا یہ غیر متوقع ہے؟

سیکس

مگر اس کے باوجود تھامپسن سمیت سیکس کے دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ اشاروں کے باوجود گرمیوں میں وسیع پیمانے پر سیکس میں اضافے کی پیشگوئی شاید بڑھ چڑھ کر ہی کی جا رہی ہے۔

پروفیسر ایشلے تھامپسن کہتی ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو بستر میں دوبارہ داخل ہونے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کے شکار ہیں۔‘ یہاں تک کہ اگر سیکس کی بات نہ بھی کی جائے تب بھی لوگوں میں یہ خوف موجود ہے کہ کیا محفوظ ہے اور کیا نہیں۔

اس کے علاوہ لوگ اُس سماجی صورتحال کا دوبارہ سامنا کرنے کے بارے میں بھی تناؤ کے شکار ہیں جو ہم نے ایک زمانے سے نہیں کیا۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے مارچ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق نصف سے زیادہ امریکیوں نے کسی بھی طرح کے ذاتی میل جول کے حوالے سے اینگزائٹی (بے چینی) ہے۔

سیکس پر تحقیق کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ادارے کنسے انسٹیٹیوٹ (انڈیانا یونیورسٹی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جسٹن گارسیا کو بھی اس پر شک ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ’ہم شہوت سے بھرپور گرمیوں کے بجائے عالمی وبا سے پہلے موجود معمول کی طرف لوٹیں گے۔‘

اپریل میں کنسے انسٹیٹیوٹ کے دو ہزار امریکیوں پر کیے گئے سروے میں عالمی وبا سے پہلے کے مقابلے میں پایا گیا کہ نصف سے زیادہ کو ’ون نائٹ سٹینڈ‘ یعنی ایک رات کے جنسی تعلق میں دلچسپی نہیں ہے جبکہ 64 فیصد کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ جنسی پارٹنرز ہونے میں کم ہی دلچسپی ہے۔

اس لیے جنسیت سے بھرپور گرمیوں کی اس پیشگوئی کی مقبولیت کے باوجود گارسیا کو یہ غیر متوقع لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ فوراً ہی پارٹی کرنے کی جانب بھاگ کھڑے ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی تک اس حوالے سے کافی صدمہ اور افسردگی شامل ہے۔ ہماری سماجی زندگیوں میں اب بھی اجتماعی تناؤ اور اینگزائٹی موجود ہے۔‘

محققین کا اتفاق ہے کہ عالمی وبا سے پیدا ہونے والی سماجی اینگزائٹی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔

برطانیہ کی اینگلیا رسکن یونیورسٹی میں سماجی نفسیات کے پروفیسر ویرین سوامی جنسیات پر تحقیق کرتے ہیں۔ اُنھوں نے حال ہی میں لکھا ہے کہ کیسے ’سمر آف لوو‘ غیر متوقع ہو سکتی ہے اور اس کی بڑی وجہ لوگوں میں اب بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک کمرے میں موجود ہونے کے حوالے سے موجود بے چینی ہے، ایک بستر کی تو بات ہی دور ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ویسے تو اس گرمیوں میں بہت سے لوگ محفوظ جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کریں گے جس میں ویکسین لگوا کر ٹنڈر پر اپنی پروفائل میں سرنج کا ایموجی شامل کرنا بھی ہے، مگر ہو سکتا ہے کہ یہ گرمیاں لوگوں کے بارے میں زیادہ ہوں اور لوگ اس بات کا ’از سرِ نو جائزہ لیں کہ ہم کیسے اور کیوں دوسروں سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔‘

ایسا اس لیے ہے کیونکہ مشکلات اور ذہنی تناؤ سے بھرپور ایک سال کے بعد ہم دوسروں سے جذباتی تعلق کے لیے بے چین ہوں گے، پھر چاہے یہ رومانوی ہو یا پھر صرف دوستی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ عین اس طرح ہو سکتا ہے کہ کہیں ہمیں دوبارہ اس سب سے نہ گزرنا پڑے۔‘

اور ویسے بھی 2021 کی گرمیوں اور رورنگ ٹوئنٹیز کے درمیان بنایا گیا تعلق ایک دم غلط ہو سکتا ہے۔ یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ سنہ 1918 کے ہسپانوی فلو کے درمیان جذباتی تناؤ جھیلنے کے بعد لوگوں نے خود کو کام، خرچ کرنے اور ایک دوسرے سے میل جول میں مصروف کر لیا مگر اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ اس وبا کے بعد جنسی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا یا پھر طبی بحران نے جنم لیا، اس لیے یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسا دوبارہ ہو سکتا ہے۔

ایشلے تھامپسن کہتی ہیں کہ ’ہم نے بیسویں صدی کے نصف تک سیکس کا مطالعہ شروع نہیں کیا تھا‘ اور تب بھی یہ ایک ممنوعہ مضمون سمجھا جاتا تھا۔ ’ایسے تاریخی لمحات جو ہمارے جنسی رویوں پر اثرانداز ہو سکتے تھے، اُن کے بارے میں سوچیں تو یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے پاس ان پر تحقیق کرنے کے لیے فنڈز، طریقے اور وسائل نہیں تھے۔‘

اس کے علاوہ ایک صدی قبل زیادہ تر لوگ ’گریٹ گیٹسبی‘ کے انداز میں رنگ رلیوں سے بھرپور زندگیاں نہیں گزارتے تھے۔ اُن کو پارٹی کرنے کے بجائے دیگر چیزوں کی فکر کرنی پڑتی تھی۔ ویرین سوامی کہتے ہیں کہ ’عوام کی اکثریت کے لیے یہ غربت اور مشکلات کا دور تھا۔ یہ جنگ کے بعد تعمیرِ نو کا دور تھا۔ اس دور میں لوگ صرف موج مستی، شراب اور سیکس میں مصروف نہیں تھے۔‘

نتیجہ کیا ہے؟

پاکستان

ایک ایسے وقت میں جب بڑے پیمانے پر اپنی آبادیوں کو ویکسین لگا چکنے والے ممالک وبا سے پہلے کی زندگی اور رومانویت کی جانب لوٹنے کا ارادہ کر رہے ہیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں سیکس سے بھرپور اُس موسمِ گرما کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے جو شاید ہو بھی نہ۔

مختصر مدتی جنسی تعلق کے بجائے ہمیں اس بارے میں زیادہ بات کرنی چاہیے کہ عالمی وبا نے کیسے ہمارے تعلقات بنانے کی صلاحیت کو طویل مدتی اعتبار سے تبدیل کیا ہے۔

گارسیا کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ لوگ لوگوں میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔‘

اُن کا خیال ہے کہ 2021 کی گرمیوں کو سیکس کے موسم کے طور پر لینے کے بجائے ’سماجی میل جول کے موسم‘ کے طور پر دیکھنا چاہیے جس میں لوگ ایک دوسرے سے ملیں جلیں اور تعلقات قائم کریں۔

اس حوالے سے پہلے ہی اشارے موجود ہیں کہ لوگ سماجی میل جول کی طرف دوبارہ لوٹ رہے ہیں، یہاں تک کہ وہاں بھی جہاں یہ متوقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سیکس کی تلاش کے لیے زیادہ استعمال ہونے والی ایپس مثلاً ٹنڈر اور ہِنج نے عالمی وبا کے دوران ویڈیو ڈیٹنگ بھی متعارف کروائی۔

ویسے تو یہ سماجی فاصلے کے دور میں ایپس کو کارآمد بنائے رکھنے کے لیے تھا، مگر ایشلے تھامپسن کہتی ہیں کہ ویڈیو ڈیٹنگ سے لوگوں کو ملنے سے پہلے ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اب یہ رجحان ختم ہو گا۔‘

اس لیے اپنے جنسی ہیجان کی تکمیل کے لیے کود پڑنے کے بجائے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملنے اور ممکنہ جنسی تعلق سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے کی یہ خواہش اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ گرمیاں طویل تنہائی کے ردِعمل کے موسم کے طور آئیں گی۔

اور اس تنہائی سے نمٹنے کا ایک طریقہ وہ معنی خیز تعلقات قائم کرنا ہے جو عالمی وبا کے دوران متاثر ہونے والی ہماری ذہنی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

یہ جاننا ناممکن ہے کہ لوگ انفرادی طور پر کیا کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ واقعی سیکس کا موسم ہو۔ مگر ویکسین حاصل کر چکے زیادہ تر لوگوں کے بارے میں زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ایک سال سے بھی طویل پابندیوں سے باہر نکلیں گے اور ان میں گہرے اور معنی خیز تعلقات کے لیے ایک نیا احساسِ پذیرائی ہو گا۔

بالآخر آنے والے مہینے ممکنہ طور پر کسی بھی چیز سے زیادہ گہرے تعلقات کا دور ہوں گے۔

جسٹن گارسیا کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ لوگ کسی ایسے شخص کی تلاش کریں گے جس کے ساتھ وہ پورچ پر چند گھنٹوں کے لیے وقت بتا سکیں۔ انسان کے اندر موجود حیوان جذباتی تعلقات کا بھوکا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس کا مطلب صرف سیکس نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp