مشکل کی اس گھڑی میں تنہا اور فراموش کردہ فلسطین


”شیر بن شیر“ کے مشورے تو بہت دیے جاتے ہیں۔ ”شیر“ بننے کی مگر جو قیمت ادا کرنا ہوتی ہے اس کے بارے میں کوئی سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اپنے شعبے کے حوالے سے میں نے بھی خود کو اکثر ”شیر“ ثابت کرنا چاہا۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہوتے ہی مگر اپنی ”اوقات“ دریافت کرلی۔ ”شیر“ بننے کو تاہم میرے چند جواں سال ساتھی اب بھی مچلتے رہتے ہیں۔

یوٹیوب نے وی لاگ والا جو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے وہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے کئی دیوانوں کو ”شیر“ بننے کے لئے اکساتا رہتا ہے۔ اس کے مضمرات مگر بے تحاشا دلوں میں خوف بھی جاگزین کر دیتے ہیں۔ منگل کی رات اسلام آباد کے ایک منہ پھٹ بلاگر۔ اسد علی طور۔ کے ساتھ جو واقعہ ہوا اس نے مجھے اداس و پریشان کر دیا۔ اس واقعہ کے حقیقی ذمہ داروں کا تعین فقط تفتیشی ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اسلام آباد میں پے در پے ہوئے ایسے واقعات کو ہماری پولیس اب تک منطقی انجام تک پہنچا نہیں پائی ہے۔ کاش اس جانب بھی کوئی توجہ دے۔

”شیر بن شیر“ کی تکرار ویسے بھی میرے ذہن پر کامل دو روز تک سینٹ میں ہوئی دھواں دھار تقاریر کی بدولت چھائی ہوئی ہے۔ غزہ میں ایک سے زیادہ دہائی سے محصور ہوئے فلسطینیوں پر اسرائیل کی جانب سے حال ہی میں کئی روز تک جاری رہی وحشیانہ بمباری زیربحث تھی۔ فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی۔ اس قرارداد کا متن تیار کرتے ہوئے ”ہمارے نمائندوں“ نے ڈھٹائی نظر آتے اعتماد کے ساتھ یہ فرض کر لیا کہ ”عالم اسلام“ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے پاکستان کی رہ نمائی کا منتظر ہے۔ پرجوش تقاریر کے ذریعے تاہم جو رہ نمائی ہو رہی تھی۔ اسے بروئے کار لانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

عرب اور مسلم امہ کی فلسطین کی بابت رہ نمائی فرماتے ہوئے ہمارے سینیٹروں کی اکثریت کو یاد ہی نہیں تھا کہ 5 اگست 2019 کے روز سے بھارت کی مودی سرکار نے ہماری ”شہ رگ“ کو وحشت سے دبا رکھا ہے۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں محبوس و محصور ہوئے کشمیریوں کی ٹھوس اعتبار سے کوئی مدد نہیں کر پائے ہیں۔

یہ حقیقت بھلانا ممکن ہی نہیں کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم 1930 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی فلسطینیوں کے بارے میں مسلسل فکر مند رہے۔ 1948 میں صہیونی ریاست کے قیام کو بھی پاکستان نے قائد اعظم کی واضح ہدایت کے تحت تسلیم نہیں کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973 کی عرب۔ اسرائیل جنگ کے دوران شام کو فوجی اعتبار سے قابل قدر سہارا فراہم کیا تھا۔ 1974 کے برس لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی تاریخی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار اس کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں نمایاں تھا۔ اس کے باوجود مگر فقط تین برس بعد ”کیمپ ڈیوڈ“ ہو گیا۔ اس کی بدولت عرب۔ اسرائیل تنازعے نے جو شکل اختیار کی اس پر غور کی ہم ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ فقط تقریر کرتے ہیں۔ جذباتی بڑھکیں لگاتے ہیں۔

حقیقی سیاستدان خود کو ”عوامی جذبات“ کے اظہار تک محدود نہیں رکھتا۔ بسا اوقات ان کے برعکس تلخ حقائق کو اجاگر کرنے کی جرات بھی دکھاتا ہے۔ برطانوی راج کے دنوں میں ہمارے ہاں مثال کے طور پر ”تحریک خلافت“ نے عوامی جذبات کو خوب بھڑکایا تھا۔ قائد اعظم نے مگر اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ ”مرد بیمار“ کی حقیقت پر توجہ دلاتے ہوئے ”نئے ترکی“ کو خوش آمدید کہا۔

دھواں دار تقاریر فرماتے ہوئے ہمارے سینیٹر یہ بھی طے نہیں کر پائے کہ اسرائیل نے بالآخر جنگ بندی کا اعلان کیوں کیا۔ تحریک انصاف کے وزراء اور اراکین کی خواہش رہی کہ ہمیں باور کروایا جائے کہ اسرائیل عمران خان صاحب کی دلیرانہ پیش قدمی کی وجہ سے جنگ بندی کو ”مجبور“ ہوا۔ غزہ پر بمباری کے آغاز کے روز وہ سعودی عرب میں تھے۔ اسرائیلی جارحیت کی خبر آتے ہی انہوں نے او آئی سی کو متحرک کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کی ہدایت پر نیویارک روانہ ہو گئے۔ ان کی کاوشوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کو زیر بحث لانے کے لئے ہنگامی اجلاس ہوا۔ وہاں ہوئی تقاریر نے اسرائیل کو جنگ بندی کا اعلان کرنے کو مجبور کر دیا۔

اپوزیشن کے کسی تگڑے رکن نے تحریک انصاف کے تیار کردہ فسانے کو ٹھوس حقائق کے بیان سے جھٹلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے ذخیرہ کیے میزائلوں کے ذخیرے تباہ کرنے کے بعد ہی غزہ پر بمباری روکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس ضمن میں کسی ”دباؤ ’کو خاطر میں نہیں لایا۔ بائیڈن انتظامیہ اگرچہ تاثر دے رہی ہے کہ اسرائیل کو اس نے خاموش سفارت کاری کے ذریعے پیغام دیا کہ“ بہت ہو گئی۔ اب بمباری روک دو۔ ”اختصار کی اہمیت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس بحث سے گریز بہتر جو طے کرے کہ جنگ بندی کیسے ہوئی۔ اہم ترین حقیقت فی الوقت یہ ہے کہ اپنے تئیں حماس کے ٹھکانے اور اسلحہ کے ذخیرہ تباہ کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ کی گنجان آباد پٹی میں سینکڑوں بے گناہ شہریوں جن میں بزرگ، خواتین اور بچے بھی شامل تھے بے دریغ انداز میں ہلاک کیا۔ ہزاروں زخمیوں کو طبی امداد بھی میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں گھر اور کاروباری دفاتر تباہ و برباد ہو گئے۔ غزہ اب کھنڈروں کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔

”الفتح“ کی زیر قیادت چلائی فلسطینی اتھارٹی سے حماس نے 2007 میں بغاوت کرتے ہوئے غزہ پر کامل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اسرائیل نے ”دہشت گردوں کے قبضے میں لئے“ غزہ تک اسرائیل کے تمام راستوں پر ناکے لگا رکھے ہیں۔ یہ روزمرہ زندگی کے لئے لازم شمار ہوتی کئی اجناس کی غزہ تک رسائی کو ناممکن بنائے ہوئے ہیں۔

غزہ کو دنیا سے جدا کر کے وسیع و عریض جیل خانے میں تبدیل کرنے کا مگر اسرائیل ہی واحد ذمہ دار نہیں۔ مصر کی حکومت بھی غزہ تک رسائی کو مشکل بنائے ہوئے ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ غزہ کی پٹی اخوان المسلمین سے وابستہ ”دہشت گردوں“ کی پناہ گاہ ہے۔ ایسے حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ غزہ میں محصور ہوئے لاکھوں شہریوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کیسے پہنچائی جائیں۔ اسرائیل کی بمباری نے بجلی اور پانی کی ترسیل کا نظام بھی تباہ کر دیا ہے۔ غزہ کو ہر حوالے سے اب ازسرنو آباد کرنا ہو گا۔ اس کے لئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ فوری اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ مطلوبہ رقوم کون فراہم کرے گا۔ ”مسلم امہ“ اس ضمن میں ٹھوس پیش قدمی دکھانے میں لیکن ناکام رہی ہے۔

”مسلم امہ“ کی غزہ کی بابت ثابت ہوئی بے بسی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ منگل کی صبح اسرائیل پہنچ گیا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد اس نے غزہ کی ”آباد کاری“ کے لئے 75 ملین ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ رقم وسیع تر تباہی کے تناظر میں یقیناً اونٹ ”کے منہ میں زیرہ“ ہے۔ اس کے اعلان نے مگر امریکہ کو غزہ کی ”بحالی“ کے عمل میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے دکھایا ہے۔ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فراہم کردہ رقوم ان کی چہیتی ”این جی اوز“ کے ذریعے خرچ ہوتی نظر آئیں گی۔

غزہ کی ”بحالی“ میں مصروف نظر آتے ممالک اور بین الاقوامی غیر سرکاری کی تنظیموں کی بدولت نہایت مہارت سے غزہ کی پٹی تک محدود ہوئے فلسطینیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش ہوگی کہ حماس ان کی تباہی کا حقیقی سبب ہے۔ یہ اپنے ٹھکانوں سے اسرائیل پر بم برساتی ہے۔ وہاں بھیجے میزائلوں کا نوے فی صد اسرائیل امریکہ کی معاونت سے تعمیر ہوئے ”گنبد“ کی بدولت فضا ہی میں ناکارہ بنا دیتا ہے۔ دس فی صد میزائل جو فوجی اعتبار سے ناکافی شمار ہوتا نقصان پہنچاتے ہیں ان کا ”بدلہ“ لینے کے لئے اسرائیل غزہ کو جدید ترین میزائلوں کا نشانہ بناتا ہے۔ گنجان آبادی پر گرائے جدید ترین بم بے گناہ شہریوں کی ہلاکت اور ان کے گھروں اور کاروباری دفاتر کی مکمل تباہی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ اسرائیل کو ”اشتعال“ دلاتے ہوئے حماس غزہ پر جو قیامت لاتی ہے اس کے ازالے کا اس تنظیم کے پاس کوئی وسیلہ ہی میسر نہیں۔ غزہ میں محصور ہوئے فلسطینیوں کو لہٰذا حماس سے لاتعلقی کی راہ ڈھونڈنا ہوگی وگرنہ اس پٹی میں ”معمول“ کی زندگی کبھی بحال نہیں ہوگی۔ الفتح کی چلائی ”فلسطینی اتھارٹی“ بھی یہ ہی پیغام دینا چاہے گی۔

فلسطینیوں کے غم میں ماتم کنائی کرتے ہمارے سینیٹر اس اہم ترین پہلو سے قطعاً غافل نظر آئے۔ جذباتی انداز میں آج کے مسلمانوں میں سے کسی صلاح الدین ایوبی کے نمودار ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ ان کے انتظار نے مجھے سمجھا دیا کہ مظلوم کشمیریوں کی طرح غزہ کی پٹی میں محصور ہوئے فلسطینیوں کا بھی اب کوئی والی وارث نہیں ہے۔ وہ مشکل کی اس گھڑی میں خود کو مکمل طور پر تنہا اور بھلائے ہوئے محسوس کر رہے ہوں گے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments