سلطان کا آخری ٹل


آپ سلطان کو دیکھ لیں۔ یہ بانسانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نمبردار کے منشی تھے۔ یہ بہن بھائیوں میں وچکارلے (بیچ والے ) تھے۔ یہ بچپن سے ہی کھیل کود کے شوقین تھے۔ ان کی والدہ سے روایت ہے کہ قبل از پیدائش بھی کافی اودھم مچاتے تھے۔ بانسانوالہ کی گردونواح میں وہی اہمیت تھی جو پارٹیشن سے پہلے علی گڑھ کی یو پی میں تھی۔ ان کے والد اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ سلطان کی ابتدائی تعلیم نمبردار کے ڈیرے پر ہوئی۔ جہاں یہ والد کے ساتھ جاتے تھے کیونکہ یہ گھر میں سب کا جینا حرام کیے رکھتے تھے۔

نمبردار کے ڈیرے سے ہی ان کو گلی ڈنڈا کھیلنے کا شوق ہوا۔ یہ ابا جی کی نظر بچا کر ڈیرے سے بھاگ جاتے۔ یہ فرینڈز کے ساتھ آوارہ گردی کرتے۔ یہ ٹیوب ویل پر نہاتے۔ یہ گنے توڑتے (کھیتوں سے ) ۔ بڑے لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھ کر ان کو بھی کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔ نیامت ورک، جو گلی ڈنڈے کا ماہر کھلاڑی تھا، سے دوستی گانٹھ کر سلطان بھی بڑے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ یہ پیدائشی کھلاڑی نکلے۔ ان کا ٹل ایسا جاندار ہوتا کہ کوئی اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ کرتا۔

ابتدائی دور میں ہی انہوں نے اتنی گلیاں اپنے ٹلوں سے گم کیں جو گلی ڈنڈے کی ہسٹری میں کوئی نہیں کر سکا۔ فیلڈنگ میں بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ یہ ٹل باز کے ڈنڈے کی ابتدائی حرکت سے جان لیتے کہ ٹل کدھر جائے گا۔ ٹل کو کیچ کرنے میں بھی ان کو ید طولٰی حاصل تھا۔ ریومر ہیز اٹ کہ ایک دفعہ انہوں نے چار پیلیاں (کھیت) دوڑ کر ٹل کیچ کیا۔ گلی ان کی ہتھیلی میں پیوست ہو گئی لیکن کمٹمنٹ ایسی کہ کیچ نہیں چھوڑا۔

وقت گزرتا گیا۔ سلطان، جوان ہو گئے۔ ہر طرف ان کے کھیل کی دھومیں تھیں۔ دوشیزائیں ان کا میچ دیکھنے کے لیے پانی بھرنے کا بہانہ بنا کر آتیں اور ہر ٹل پر اش اش کرتیں۔ یہ لنگوٹ کے اتنے پکے تھے کہ کبھی لنگوٹ کسا ہی نہیں تھا۔ یہ اپنے مداحوں سے ایک مناسب فاصلہ رکھتے اور ان سے کبھی تحائف وغیرہ وصول نہیں کرتے تھے کوئی زبردستی گھر پہ دے جاتا تو کسی کا دل نہیں توڑتے تھے۔ یہ ایک ہینڈسم ہنک تھے۔ بانسانوالہ کے طول و عرض کے کمادوں اور مکئی میں ان کے پیار کی داستانیں بکھری پڑی تھیں۔ نگو سے نسرین اور پینو سے بشرٰی تک۔ یہ پیار کا جواب ہمیشہ پیار سے دیتے تھے۔ یہ دل سے یقین رکھتے تھے کہ کسی کا دل توڑنے سے بڑا گناہ کوئی نہیں۔

گلی ڈنڈے میں انہوں نے نئی اختراعات کیں۔ اس سے پہلے گلی ڈنڈے میں کپتان کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ بانسانوالہ کی ٹیم کے پہلے کپتان بنے۔ یہ کھلاڑیوں کی فٹنس پر خاص توجہ دیتے تھے۔ یہ کھلاڑی کا تہہ بند دیکھ کے بتا دیتے تھے کہ یہ آج کیسا پرفارم کرے گا۔ یہ ایک دلیر اور بہادر کپتان تھے۔ مخالف ٹیم کے بہترین ٹل باز کے عین سامنے کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ گھبرا کر ٹل مس کر دیتا تھا۔ یہ مخالف ٹل باز کے ڈنڈے کی حرکت سے گلی کی سمت کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ ان کے لگائے ہوئے ٹل کی پاور کا یہ حال تھا کہ جہاں گلی گرتی تھی وہیں زمین میں دھنس جاتی تھی۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ پورے کیرئیر میں کبھی ان کے ٹل کو کیچ نہیں کیا جا سکا۔

بانسانوالہ کی ہزاروں سالہ تاریخ میں یہ واحد سپوت تھے جو ”آل بچیکی گلی ڈنڈا گولڈ کپ“ کے فاتح ٹھہرے۔ ان کی کپتانی اور کھیل نے وہ معجزہ کر دکھایا جو بانسانوالہ کی ہسٹری کا گولڈن چیپٹر ہے۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے پر اہالیان بانسانوالہ نے ان پر گندم، چاول، دیسی گھی، پیاز، آلو، دیسی مرغیوں، اور میوے والے گڑ کی بارش کردی۔ نیامت ورک جو اپنے ابا جی کی ڈیتھ کے بعد بانسانوالہ کے سب سے بڑے زمیندارے کے وارث ٹھہرے تھے۔ انہوں نے سلطان کو دس پیلیاں، ایک ٹریکٹر اور ٹیوب ویل کا نذرانہ پیش کیا۔ اتنی محبت اور پیار اور رسپیکٹ سے سلطان کا دل موم ہو گیا۔ یہ خود کو بانسانوالہ کا مقروض سمجھنے لگے۔

انہی دنوں خواب میں ان کو ایک بزرگ کی زیارت ہوئی۔ یہ سفید تہہ بند اور کالے کرتے میں ملبوس پست قامت نورانی چہرے والے بزرگ تھے جن کے ہاتھ میں گلی ڈنڈے والا ڈنڈا تھا۔ انہوں نے گلی کو زوردار ٹل لگایا اور جلالی لہجے میں سلطان سے کہا۔ ”اٹھ اوئے کاکا سلطان۔ تے بانسانوالے نوں ظالموں دے چنگل توں آزاد کرا۔“ (اٹھ بیٹا سلطان اور بانسانوالے کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کرا) ۔

سلطان یہ خواب دیکھ کر اپ سیٹ ہو گئے۔ یہ پریشان ہو گئے۔ یہ دبدھا میں پڑ گئے کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے۔ یہ اپنے بچپن کے دوست نیامت ورک کے پاس گئے اور خواب بیان کیا۔ نیامت ورک اٹھے اور انہیں لے کر بابا توڑی سائیں سرکار کے مزار پر پہنچ گئے۔ خادم انہیں لے کر حجرۂ خاص میں پہنچا جہاں مزار کے متولی پیر کڑدھن شاہ بے اولاد زنانیوں میں تعویذ بانٹ کے فارغ ہوئے تھے۔

پیر صاحب نے خواب سنا۔ ان پر رقت طاری ہو گئی۔ ان کی حالت غیر ہو گئی۔ خادم نے چپٹی سی شیشی سے محلول ایک گلاس میں ڈال کر ان کی خدمت میں پیش کیا۔ جسے پی کر ان کی طبیعت ذرا بحال ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ خواب میں نظر آنے والے بزرگ بابا توڑی سائیں سرکار تھے اور ان کا اشارہ نمبردار کے بانسانوالے پر چنگل کی جانب تھا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اب یہ سلطان پر فرض ہے کہ وہ اپنے علاقے کو ان ظالموں سے نجات دلائے۔ سلطان یہ سب خاموشی سے سنتے رہے۔ یہ سوچ میں ڈوبے رہے۔ دس منٹ بعد انہوں نے سر اٹھایا اور پیر کڑدھن شاہ سے یوں مخاطب ہوئے۔ ”میں پاغل آں۔ بیفکوف نہیں۔“ (میں پاگل ہوں بے وقوف نہیں ) ۔ یہ کہہ کر سلطان اٹھے اور حجرۂ خاص سے باہر نکل گئے

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments