مسلم لیگ (ن) کا بحران یا اسٹبلشمنٹ کے پوبارہ


ملکی سیاسی منظر نامہ میں اس وقت مسلم لیگ (ن) میں پائے جانے والے اختلافات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سوال کیاجارہا ہے کہ کیا باہمی سیاسی چپقلش کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں پارٹی اپنی موجودہ مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر حکومت سازی کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ مبصرین پارٹی میں پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر پارٹی کی قیادت نے سیاسی بیانیے میں ہم آہنگی پیدا نہ کی اور پارٹی کے اندر پائی جانے والی بے چینی کو دور نہ کیا تو سیاسی مقبولیت کا موجودہ گراف کم ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔ یا پھر اس مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

ان مباحث کی بنیاد دو نکات پر استوار کی جاتی ہے۔ ایک جمہوری عمل کو غیر جمہوری عوامل سے پرکھنے کی کوشش۔ دوئم اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار اور طاقت کے بارے میں غیر ثابت شدہ قیاس آرائیاں۔ بدقسمتی سے یہ دونوں نکات سیاسی آزادی کے اس بنیادی تصور کے خلاف ہیں جو جمہوری نظام کے حامل ممالک میں عام ہے۔

پہلی بات تو کسی ایک سیاسی پارٹی کے اندر ایک ہی معاملہ پر مختلف رائے کے بارے میں ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک یا پارٹی میں اختلاف رائے موجود ہونا اور اس کا برملا اظہار جمہوری طریقہ کار کی روح کے عین مطابق سمجھا جاتا ہے۔ البتہ پاکستان میں جب بھی کسی سیاسی پارٹی کے مختلف عناصر کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آجائیں جو بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ہوں تو اسے بحران کے طور پر دیکھتے ہوئے یہ قیاس آرائیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ پارٹی اپنی طاقت سے محروم ہورہی ہے۔ حالانکہ سیاسی امور پر کھل کر رائے کا اظہار اور ان مباحث میں عوام کو شریک کرنے کا طرزعمل مسلمہ جمہوری طریقہ ہے تاکہ پارٹی کے فیصلہ کرنے والے اداروں کو اپنی رائے کے مطابق کسی نتیجہ تک پہنچنے پر آمادہ کیا جاسکے۔

اس حوالے سے پاکستانی سیاست اور سیاسی پارٹیوں کی حد تک یہ بات ضرور درست ہے کہ ملکی پارٹیوں میں جمہوری روح عنقا ہے۔ بظاہر پارٹی ڈھانچے میں مختلف سطح پر فورمز بنائے گئے ہیں اور اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی یا فلاں فورم نے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں ایسے فورمز کی حیثیت ربر اسٹیمپ سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ صرف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بھی یہی طریقہ کار دیکھنے میں آتا ہے۔ اس لئے جب کسی پارٹی میں داخلی اختلاف کی بات کرتے ہوئے اسے نقصان دہ کہا جاتا ہے تو یہ صرف قیاسی سچائی ہوتی ہے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف، پیپلز پارٹی میں آصف زرداری یا بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کی رائے ’حکم‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسے میں اس بحث کی بجائے کہ کسی پارٹی میں ایک ہی مسئلہ پر مختلف رائے کو سیاسی طور سے نقصان دہ قرار دیا جائے، یہ بحث ہونی چاہئے کہ ملکی سیاسی پارٹیاں اگر ملک میں جمہوری نظام کی وکالت کرتی ہیں تو اس طریقہ کو پارٹیوں کے اندر کیوں متعارف نہیں کروایا جاتا؟

مسلم لیگ (ن) میں سامنے آنے والے حالیہ اختلافات کا سراغ دراصل پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرف سے اس ہفتے کے شروع میں دیے گئے عشائیہ سے لگایا جارہا ہے۔ شہباز شریف نے اس عشائیہ میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو بھی مدعو کیا تھا۔ بظاہر یہ عشائیہ پارلیمنٹ میں نمائیندگی رکھنے والی اپوزیشن قیادت کو بجٹ کے سوال پر ہم آہنگ کرنے اور متفقہ حکمت عملی بنانے کے نقطہ نظر سے دیا گیا تھا۔ تاہم پی پی پی اور اے این پی کو مدعو کرنے سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ شہباز شریف ان دونوں پارٹیوں سے مفاہمت پیدا کرنے اور پاکستان جمہوری تحریک کو دوبارہ فعال کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ اس بحث میں زیادہ دور کی کوڑی لانے والوں نے یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف اور مریم نواز کے اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ سے نجات دلانا چاہتے ہیں تاکہ آئیندہ انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی ’خوشنودی‘ حاصل کی جاسکے اور اس طرح پارٹی کی جیت کا اہتمام کیا جائے۔

اس بحث میں یہ نکتہ تسلیم کرنے کے بعد بات آگے بڑھائی جاتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کےساتھ سینگ پھنسانے والی پارٹی کو انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ گویا خالص جمہوری سیاسی مباحث کی بنیاد ہی ایک غیر جمہوری المیہ پر استوار کی جاتی ہے۔ اگر ملک میں سیاسی معاملات طے کرنےکا واحد اختیار صرف اسٹبلشمنٹ کے پاس ہے پھر سیاسی پارٹیوں اور انتخابی مشق کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ اسٹبلشمنٹ سے پوچھ لیا جائے اور پانچ سال یا اس کی مرضی کی مدت کے لئے حکومت اس کی پسندیدہ پارٹی کے حوالے کردی جائے۔ یہ قیاس مشکل جمہوری عمل کے باوجود پاکستان کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا۔ اس قیاس کو حتمی اصول کے طور پر قبول کرنے کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی انتخاب عوام کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ انہیں اسٹبلشمنٹ کی خواہش کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ خاص عوامل اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر راسخ ہوئی ہے لیکن سیاسی عمل میں اسے بنیاد مان کر جمہوری عمل کو مؤثر، شفاف اور فنکشنل بنانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس سوچ کو تبدیل کرنا اور جمہوریت کو اس کے درست تناظر میں سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اسٹبلشمنٹ اپنے تمام تر سیاسی مفادات اور ضرورتوں کے باوجود اس قدر بااختیار نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرے۔ تاہم اسٹبلشمنٹ کو بادشاہ گر تسلیم کرنے یا کروانے کا رویہ ضرور اس کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔

شہباز شریف کے عشائیہ کے بعد شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز نے پی ڈی ایم کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے بارے میں رائے کا اظہار کیا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ بیانات شہباز شریف کی مفاہمانہ کوششوں کو نقصان پہنچائیں گے اور اس کے نتیجےمیں مسلم لیگ (ن) کو ہی حقیقی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ رائے بھی اسی قیاس کی بنیاد پر قائم کی جارہی ہے کہ شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر انتخاب کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جبکہ نواز شریف اور مریم نواز اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ پر مصر ہیں۔

مسلم لیگ (ن) میں نواز اور شہباز کے سیاسی اختلاف اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے چہ میگوئیاں برسوں سے ہورہی ہیں۔ لیکن شہباز شریف بدستور پارٹی کا حصہ ہیں اور نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں اور نواز شریف نے بھی انہیں پارٹی کا صدر بنوایا ہؤا ہے۔ جہاں تک اسٹبلشمنٹ سے تعلق کے حوالے سے اختلاف رائے کا تعلق ہے تو ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اسٹبلشمنٹ کے عتاب کا شکار ہوئی تھی تب بھی شہباز شریف کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ’تعلق و مواصلت‘ پارٹی یا نواز شریف کو سیاسی مشکلات سے نہیں بچا سکا تھا۔ اب اگر اسٹبلشمنٹ سے دوستی کے ذریعے ہی اقتدار حاصل کرنا مطلوب ہے تو اس کی کون ضمانت دے گا کہ اس بار نواز شریف اپنا رویہ تبدیل کرلیں گے یا اسٹبلشمنٹ منتخب وزیراعظم کی حقیقی ’اتھارٹی‘ کے سامنے سرنگوں ہوجائے گی؟

سیاست میں اسٹبلشمنٹ کا کردا ربلاشبہ اہمیت رکھتا ہے لیکن سیاسی جماعتیں اگر براہ راست عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکیں تو اسٹبلشمنٹ بھی ایسے گھوڑے پر شرط نہیں لگاتی۔ اگر اسٹبلشمنٹ شہباز شریف کو پچکارتی ہے تو اس کی واحد وجہ بھی نواز شریف کی عوامی مقبولیت ہے۔ اس لئے نہ تو شہباز شریف، نواز شریف کا ہاتھ چھوڑیں گے اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ انہیں اس کا مشورہ دے گی۔ اسے اگر اپنے ہرکاروں کو متحرک رکھنا ہے تو مقبول سیاسی لیڈروں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے البتہ اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم لیگ (ن) میں بعض لوگ ضرور نظریاتی سیاست کرتے ہیں اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد بھی پارٹی کا حصہ ہے۔ لیکن نہ یہ لوگ نواز شریف کی اعانت کے بغیر کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) ان الیکٹ ایبلز کے ساتھ کے بغیر انتخابات میں کسی بڑی انتخابی کامیابی کا خواب دیکھ سکتی ہے۔ اس حوالے سے دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ الیکٹ ایبلز البتہ نواز شریف کے دبنگ بیانیہ کی بجائے شہباز شریف کے مصالحانہ طرز عمل کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اسٹبلشمنٹ سے راہ و رسم ترک کرنے کے حامی نہیں ہیں۔

گو کہ مباحث اور تجزیوں میں نواز شریف پر گوجرانوالہ کے جلسہ میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کا نام لے کر تنقید کرنے کو ’سیاسی خود کشی‘ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دو ٹوک اور جمہوریت پسند مؤقف ہی کی وجہ سے نواز شریف اور مریم نواز کی مقبولیت میں اضافہ ہؤا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اگر انتخابی کامیابی کی طرف بڑھنا ہے تو وہ ان دونوں کو علیحدہ کرکے یہ مقصد حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ بات اگر شہباز شریف کو معلوم ہے تو اسٹبلشمنٹ کو بھی اس کا ادراک ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے پی ڈی ایم کی کامیابی رکوانے میں کچھ کامیاب چالیں چلی ہیں لیکن اسے یہ بھی خبر ہے کہ فوج کے لئے شاید اب براہ راست حکومت کرنے کا وقت نکل چکا ہے۔ نواز شریف کے بیانیہ نے فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس صورت حال میں صرف مسلم لیگ (ن) اور نواز یا مریم ہی کو ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کی صورت میں ہائیبرڈ حکومت چلانے کے ناکام تجربے کے بعد اسٹبلشمنٹ کے پاس بھی نواز شریف کو پوری طرح مسترد کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ اسٹبلشمنٹ اپنی حدود ازسر نو متعین کرنے کی کوشش کرے۔ اس صورت میں شہباز شریف ضرور ایک بہتر ذریعہ ثابت ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments