سندھ آپریشن کلین اپ 1992: ’جرائم کے خلاف متنازع کارروائی جو آج بھی پراسراریت میں دبی ہے

جعفر رضوی - صحافی، لندن


رینجرز، پاکستان

’حفاظت کے لیے دی گئی سرکاری سواری ہی ہمارے لیے میّت والی گاڑی بن گئی۔ ’تابوت‘ میں تھے ہم سب۔ اور قانون نافذ کرنے لیے خریدی گئی اس گاڑی کی منظوری دینے والوں نے کل بھی قانون توڑا اور آج بھی اس کی گرفت سے باہر ہیں۔‘

پولیس افسر کے لہجے سے ہی اُن کے جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

وہ افسر کراچی کے جناح ہسپتال کے مردہ خانے کے باہر کھڑے تھے۔ تاریخ تو مجھے اب یاد نہیں مگر یہ جون 1997 کا کوئی دن تھا۔

یہ افسر 28 مئی 1992 کو سندھ میں ڈاکوؤں اور اُن کے مبینہ سرپرستوں کے خلاف شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے آغاز پر نئے نئے اکیڈمی سے آئے تھے اور کئی برس قبل اپنے اوپر ہونے والے ایک حملے کا قصہ سُنا رہے تھے اور وہ پولیس کو فراہم کی جانے والی سرکاری گاڑیوں کے معیار پر سوال اٹھا رہے تھے۔

’پانچ برس ہو گئے، میں نے حالات بدلتے نہیں دیکھے۔‘

وہ بہت غصّے میں تھے۔تب میں انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا اور اس پیشہ ورانہ حیثیت میں میں نے کئی برس اُس افسر کے ساتھ کام کیا مگر اُنھیں ہمیشہ غصّے میں دیکھا۔ وہ کام کرتے وقت کبھی خوش یا مطمئن دکھائی نہیں دیے۔

جب میں مردہ خانے کے باہر اُن سے ملا تو بھی اُس ملاقات سے بھی دو ہی گھنٹے قبل ہی اُن کے پولیس قافلے پر ہونے والے ایک اور حملے کے دوران اُن کے ماتحت مارے گئے تھے۔

اور اُن کا خیال یہی تھا کہ سرکار کی جانب سے فراہم کی جانے والے ہتھیار، ساز و سامان، سہولتوں اور اشیا کا معیار ایسا نہیں ہوتا کہ قانون نافذ کرنے والے بلاخوف و خطر پوری حفاظت کے ساتھ اپنی فرائض انجام دے سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

کچے کے ڈاکوؤں کا ’دھ چھکو‘ جس کے سامنے پولیس بکتر بند میں بھی محفوظ نہیں

کراچی آپریشن: ’اس شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی‘

’جگر جلال کروڑوں کی آسامی ہے، دو تین لاکھ کا آدمی نہیں‘

ڈیرہ غازی خان کا سفاک ’لاڈی گینگ‘ اپنی کارروائیاں کیونکر جاری رکھے ہوئے ہے؟کئی برس بعد اُن کا تبادلہ کر کے دوسرے صوبے بھیج دیا گیا مگر وہاں بھی اُن کے مؤقف اور شکایتی لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی جا سکی کیونکہ جن حالات پر وہ افسر غصّہ کر رہے تھے وہ بھی تبدیل نہیں ہوئے اور آج 29 برس بعد بھی نہیں تبدیل نہیں ہوئے۔ابھی چار روز قبل ہی اپنے ساتھی ریاض سہیل کی ایک خبر سے پتہ چلا کہ پھر سندھ میں گڑھی تیغانی میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اور پھر پولیس اہلکار اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور پھر ان بکتر بند گاڑیوں کے معیار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ایک نظر اُس آپریشن پر ڈال لی جائے جو آج سے 29 برس قبل یعنی 28 مئی 1992 کو شروع کی گئی۔اگر برسوں تک سندھ میں جاری رہنے والا وہ آپریشن کامیاب تھا تو اب بھی سندھ میں ڈاکو اور اُن کی سرپرستی کرنے والے عناصر یعنی بااثر وڈیرے کیوں موجود ہیں؟اور اگر 1992 کا سندھ آپریشن ناکام رہا تو برسوں تک جاری کیوں رکھا گیا؟کئی سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ دراصل 28 مئی 1992 کا سندھ آپریشن سیاسی مقاصد کی غرض سے شروع کیا گیا تھا ورنہ وہ اپنے اہداف ضرور حاصل کر لیتا، جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ آپریشن سے قبل کی مخدوش اور دگرگوں صورتحال متقاضی تھی کہ آپریشن شروع کیا جاتا۔آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ دراصل 28 مئی 1992 کا یہ آپریشن کیوں اور کن حالات میں شروع ہوا تھا۔

کراچی آپریشن

سندھ آپریشن کا جواز اور وجوہات

جب 28 مئی 1992 کو سندھ آپریشن شروع ہوا تو یہ بطور وزیرِ اعظم نواز شریف کا پہلا دورِ حکومت تھا اور جنرل آصف نواز جنجوعہ چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ نواب جام صادق علی خان سندھ کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور انھیں الطاف حسین کی (اُس وقت کی) انتہائی مقبول سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حمایت حاصل تھی جس نے شہری سندھ میں اچانک بے مثال سیاسی طاقت حاصل کر لی تھی۔

تب سیاسی، صحافتی، انتظامی اور عدالتی حلقے صوبے کے دیہی و شہری دونوں حصّوں میں امن و امان، قانون کی بالادستی اور ریاست کی عملداری پر نکتہ چینی کر رہے تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق تنقید کا مرکز صوبے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، پنپتے جرائم، تعلیمی اداروں اور رہائشی علاقوں میں دگرگوں ہوتی صورتحال، قتل و غارت، لوٹ مار، بھتّہ خوری اور طاقت و جبر کی وارداتیں اور ان سب پر نظامِ قانون اور نظامِ عدل و انصاف کی مجرمانہ غفلت و خاموشی یا لاپرواہی تھے۔

اخبارات کے جائزے اور تجزیہ نگاروں کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نکتہ چینی کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ اخبارات کے مطابق صوبے بھر میں اسلحے کی بھرمار اور مسلح گروہوں کی حکمرانی تھی۔ ریاست کی عملداری تقریباً ختم ہو چکی تھی۔

ایک تجزیہ نگار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’دراصل اس وقت بھی آج ہی کی طرح غربت و بیروزگاری کا دور دورہ تھا۔ اسی غربت کے نطفے سے بیروزگاری کی کوکھ میں جرم جنم لے رہا تھا۔ بدترین غربت و بیروزگاری کے شکار سندھ کے نوجوان کوئی راہ نہ پا کر جرائم کی جانب راغب ہو رہے تھے۔‘

ان کے مطابق شہری علاقوں میں سیاسی جماعتوں کو ’ہر کام کرنے پر آمادہ‘ افرادی قُوّت میسّر آ رہی تھی جبکہ دیہی علاقوں میں جہاں وڈیرہ شاہی عروج پر تھی وہاں دیہاتی نوجوانوں کے پاس بھی بااثر زمینداروں کے ایما پر ’سب کچھ کر گزرنے‘ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

’یہ وہ وقت تھا جب سندھ کے شہری علاقوں میں بھی منظّم جرائم رونما ہو رہے تھے اور دیہی علاقے کے وہ حصّے جہاں عام افراد یا قانون نافذ کرنے والے اداروں، دونوں ہی کی رسائی نہیں تھی، وہاں جرائم پیشہ افراد کی کمیں گاہیں قائم ہوتی جا رہی تھیں۔

شہر کے ایسے علاقوں کو ’نو گو ایریاز‘ کہا یا سمجھا جاتا تھا اور دیہات میں انھیں ’کچّا‘ (کچّے کا علاقہ) کہا جاتا تھا۔

دیہی سندھ میں واقع اس کچّے کے علاقے میں ’ڈاکو راج‘ کی منظر کشی اس وقت تک شائع ہونے والے ڈان گروپ کے اردو اخبار ’حرّیت‘ کے کرائم رپورٹر تنویر بیگ نے کی۔ ’ان ڈاکوؤں کو علاقوں کے وڈیروں کی سرپرستی ایسے حاصل تھی کہ دراصل یہ لوگ انھی وڈیروں کی زمینوں پر کام کرنے والے مزارعوں کی نسلوں سے تعلق رکھتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’غربت کے راستے جرم کی سرحد عبور کرنے والے یہ ڈاکو اپنی سرپرستی کے صلے میں اُن وڈیروں کی دشمنیاں بھی نمٹاتے تھے اور اُن کے سماجی تعلقات تک کا خیال بھی رکھتے تھے۔‘

جب اس صورتحال پر پولیس افسران کا نکتۂ نظر یا ردِّ عمل حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا تو اس وقت صوبے کا دیہی مرکز سمجھے جانے والے علاقے لاڑکانہ میں پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی نیاز احمد صدیقی نے ان تبصروں، خبروں اور نکتہ ہائے نظر پر کسی بھی قسم کی گفتگو یا تبصرے سے گریز کیا۔

یہی نہیں، بلکہ کوئی اور افسر بھی سندھ آپریشن یا اس وقت کی صورتحال پر گفتگو کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ پولیس افسران کی ایسی ہی ’مجبوریاں‘ تھیں یا کچھ اور وجوہات مگر اس زمانے میں لاقانونیت عروج پر تھی۔

اغوا کی وارداتیں عروج پر

فوج سے بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے صولت رضا تب لیفٹیننٹ کرنل تھے اور سندھ میں فوج کے شعبۂ تعلقات عامّہ کے ڈائریکٹر تھے۔ ان کے مطابق بھی یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ بھر میں اغوا کی وارداتیں عروج پر تھیں۔

صحافی تنویر بیگ نے بھی شہری و دیہی آبادی کے درمیان جرم کے رابطے بیان کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان کی ایک واردات کا حوالہ دیا۔

’ایک واقعہ تو جلدی امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر کے اغوا کا تھا جن کا کلینک کراچی کے اسلامیہ کالج کے پاس تھا۔ انھیں تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔ ان کے بھائی سے مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب اغوا ہو گئے ہیں اور 20 لاکھ روپے تاوان مانگا گیا ہے جو اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی مگر ڈاکٹر صاحب کے خوفزدہ اہلخانہ نے تاوان کی ادائیگی کا فیصلہ کیا۔

’تاوان کی ادائیگی کا مقام مزار قائد طے ہوا۔ ڈاکوؤں نے اہلخانہ کو ہدایت کی کہ رقم گاڑی میں رکھ کر گاڑی کا بونٹ کھول کر مزار کے پاس کھڑے رہیں۔ وہ وہاں تو تاوان وصول کرنے نہیں آئے اور اہلخانہ سے دوبارہ رابطہ کر کے ہدایت کی اب تاوان لائنز ایریا میں وصول کیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔‘

جام صادق، نواز شریف اور الطاف حسین

جام صادق، نواز شریف اور الطاف حسین

تنویر بیگ کے مطابق ’تاوان کی ادائیگی کے بعد خاندان کو ہدایت کی گئی کہ ڈاکٹر صاحب کو سپر ہائی وے پر ایک مقام سے لے آئیں وہ وہاں پہنچا دیے گئے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب گھر پہنچ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ڈیڑھ ماہ تک یرغمال رہے مگر ڈاکو یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اُن کے علاقے کے وڈیرے کے معالج بھی ہیں۔

’ایک ماہ بعد ڈاکٹر صاحب کی بیٹی کی شادی تھی اور وہ اپنے کلینک میں تھے کہ مریضوں میں سے ایک شخص نے جو چہرہ چھپائے ہوئے تھا اچانک چہرے سے چادر ہٹائی تو ڈاکٹر صاحب پہچان گئے کہ یہ تو اُن ڈاکوؤں میں سے ہی ایک ہے جس نے انھیں اغوا کیا تھا۔

’ڈاکٹر صاحب کے گھبرانے پر ڈاکو نے کہا کہ گھبرائیں نہیں۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ ہمارے سائیں کے ڈاکٹر ہیں۔ اب پتا چلا ہے تو سائیں ناراض ہوئے ہیں کہ ہم نے آپ سے پیسے لے لیے تو میں ان کی ہدایت پر وہ رقم آپ کو واپس کرنے آیا ہوں۔ یہ میرا حصّہ ہے جو آپ میرے طرف سے بیٹی کی شادی کا تحفہ سمجھ کر واپس رکھ لیں۔‘

عجیب بات یہ رہی کہ سندھ آپریشن کی منظوری دینے والی اعلیٰ سیاسی و فوجی قیادت اور نگرانی کرنے والے حُکّام نے آپریشن کا دائرۂ کار مقرر تو پورے صوبۂ سندھ کے لیے کیا مگر ٹنڈو بہاول میں فوجی دستے کے ہاتھوں نو دیہاتیوں کے قتل یا دیگر اکّا دُکّا واقعات کے علاوہ نہ تو کوئی بڑی خبر تب اخبارات میں شائع ہوئی اور نہ اب انٹرنیٹ یا ذرائع ابلاغ کی گذشتہ اشاعتوں میں ملتی ہے۔

جرائم کی صورتحال

ایسا نہیں تھا کہ آپریشن کے دوران کوئی کارروائی ہوئی ہی نہیں لیکن ایسا ضرور ہوا کہ چند ایک کے علاوہ کوئی بھی واقعہ قومی یا عالمی ذرائع ابلاغ کی توجّہ حاصل نہ کر سکا۔

اُن میں سے ایک واقعہ تین چینی انجینیئرز کے اغوا اور اُن کی رہائی کی کارروائی کا تھا۔ یہ ضلع دادو کا علاقہ تھا جہاں ایک بااثر کردار سردار رئیس نبّن خان لُنڈ تھے جو رکن سندھ اسمبلی بھی تھے۔

دادو میں ’کچے‘ کے علاقے پھلجی کا گاؤں پیارو گوٹھ وہ مقام تھا جہاں چینی انجینیئرز اغوا کر کے لائے گئے تھے۔ وہاں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے آپریشن کیا گیا مگر مغوی برآمد نہیں ہوئے۔

صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ ’غالب خیال یہی ہے کہ پھر (نبّن خان لنڈ کے ذریعے) ڈاکوؤں سے حُکّام کی بات چیت ہوئی اور مغوی چینی انجینیئرز بازیاب کروائے گئے۔‘

اُن کے مطابق سرکاری طور پر تو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا مگر درون خانہ سب جانتے تھے کہ حکومت نے چینی انجینیئرز کو بھی تاوان دے کر چھڑوایا تھا۔

سندھی اخبار کاوش اور نیوز چینل اے آر وائے سے وابستہ رہنے والے صحافی عاجز جمالی کا بھی یہی کہنا ہے کہ چینی انجینیئرز کی رہائی ڈیل کا نتیجہ تھی۔

ان کے مطابق انجینیئرز کو ڈاکو لائق چانڈیو کے گروہ نے اغوا کیا تھا اور یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ جام صادق حکومت نے سرکاری خزانے سے تاوان ادا کیا تھا۔

عاجز جمالی نے دعویٰ کیا کہ ’نبّن خان لنڈ نے بھی پیسے میں سے اپنا حصّہ وصول کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ڈاکو لائق چانڈیو نے دعویٰ کیا کہ چار کروڑ کے قریب اس رقم سے اُن تک صرف دس لاکھ ہی پہنچے تھے۔‘

عاجز جمالی کہتے ہیں کہ اس وقت ’عالم یہ تھا دادو میں صحافی اقبال ملّاح کی شادی پر بھی ڈاکوؤں نے حملہ کیا۔ بائیں بازو کی معروف شخصیت اور کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کامریڈ جام ساقی کے صاحبزادے سجاد ظہیر اور میر تھیبو بھی اغوا کیے گئے۔‘

صحافی مظہر عباس نے بھی ڈاکوؤں یا اغوا کاروں کی سرپرستی کی تصدیق کی۔ ’ایک رکن سندھ اسمبلی مہرو مل کے صاحبزادے کا اغوا ہوا تو انھوں نے اپنی ہی جماعت کے ایک رہنما اور وڈیرے پر شک کی انگلی اٹھائی لیکن ہوا یہ کہ بالآخر مہرو مل کو ہی یہ ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔‘

الطاف حسین

ان حالات میں صدر غلام اسحٰق خان نے بدعنوانی اور لاقانونیت جیسے الزامات کے تحت بے نظیر بھٹّو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ 24 اکتوبر 1990 کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف وزیرِ اعظم بنے اور 16 اگست 1991 کو جب آرمی چیف جنرل اسلم بیگ ریٹائر ہوئے تو سندھ کے کور کمانڈر جنرل آصف نواز کو آرمی چیف مقرر کر دیا گیا۔

اس نئی سیاسی و عسکری قیادت نے سندھ کی تب کی دگرگوں صورتحال پر غور کے بعد صوبے میں کئی برس سے جاری ’بدامنی اور لاقانونیت‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کسی بڑے ’سرجیکل ایکشن‘ (یا فوجی و انتظامی کارروائی) پر غور شروع کیا۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ جب جنرل آصف نواز کور کمانڈر سندھ تھے تب ہی اُنھوں نے وزیراعظم نواز شریف کو رپورٹ بھیجی تھی جس میں سندھ میں ڈاکوؤں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی تجویز شامل تھی۔

مظہر عباس کے مطابق ’جنرل آصف نواز نے وزیر اعظم پر واضح بھی کر دیا تھا کہ ایسی کسی ممکنہ کارروائی سے حکمراں سیاسی اتحاد میں رخنہ بھی پڑ سکتا ہے لیکن نواز شریف کا مؤقف تھا کہ اگر جرائم پیشہ عناصر کے بارے میں معلومات درست ہیں تو پھر ’فنش دیم آل‘۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے یہ الفاظ مجھے یاد ہیں۔‘

آپریشن اور تنازع کا آغاز ساتھ ساتھ

جب 28 مئی کو آپریشن کا آغاز ہوا تو تمام جانب سے اس کی منظوری دی جا چکی تھی۔ مگر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا کے مطابق اس کے باوجود ’آپریشن کے آغاز کے 24 گھنٹے کے اندر ہی ایک ’اگلی ٹرن‘ (بھونڈا موڑ) آ گیا اور آپریشن متنازع بنا دیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’نواز شریف کے اُس وقت کے وزیر پیٹرولیم چوہدری نثار علی خان اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں دونوں ہی نے اگلے ہی روز پریس کانفرنس کر کے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس کارروائی کے لیے آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت سے اجازت نہیں لی گئی۔‘

بریگیڈیئر صولت رضا نے کہا کہ ’اس پر راولپنڈی میں خاصہ اظہارِ ناراضگی کیا گیا کہ ایک جانب آپ نے فوج کو انگیج کردیا اب آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’دراصل نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ آپریشن کیا جائے لیکن یہ صرف فوج کا فیصلہ نہیں تھا۔ اندرونی سلامتی تک کے معاملات تھے۔ بیرونی مداخلت کی اطلاعات تھیں۔ کراچی معاشی مرکز ہے تو تاجر برادری کا بھی دباؤ تھا۔ تب یہ ساری سیاسی قیادت کا بھی فیصلہ تھا۔

نواز شریف

’جب چوہدری نثار اور غلام حیدر وائیں نے آپریشن مخالف بیان دیا تو پھر ایک ہفتے کے بعد جی ایچ کیو میں اجلاس ہوا۔ صدر غلام اسحٰق خان بھی آئے، نواز شریف بھی آئے اور ڈیمج کنٹرول کی کوشش بھی ہوئی۔‘

صولت رضا کے مطابق ’اصل میں تو یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ آپریشن کی ذمہ داری لیتی۔ اجلاسوں میں تو سب ٹھیک ہوتا تھا مگر باہر نکل کر پھر کوئی وزیر بیان دے دیتا تھا کہ جی آرٹیکل 245 کی ہم نے اجازت نہیں دی۔ کنفیوژن پیدا کرتے تھے۔ چاہتے تھے سارا ملبہ فوج پر گرے اور فوج تاحیات اس کی صفائی دیتی رہے۔‘

صحافی مظہر عباس نے کہا کہ مختلف سیاسی، صحافتی اور انتظامی حلقوں کو یہ اندازہ بھی تھا کہ بالآخر اس آپریشن کا رُخ کراچی ہی کی جانب مڑے گا۔

ایک موقع پر وزیرِ اعلیٰ جام صادق علی نے الطاف حسین کو اشارہ دیا کہ ایم کیو ایم بھی اس ’آپریشن کی لپیٹ‘ میں آ سکتی ہے اور بظاہر یہی وجہ تھی کہ الطاف حسین فوراً ہی ملک سے چلے گئے اور بالآخر لندن جا پہنچے۔

ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ندیم نصرت بھی اب اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ اس آپریشن کو ایم کیو ایم کی حمایت یا منظوری حاصل تھی۔

’جو مقاصد بتائے گئے تھے وہ یہ کہ جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنے والے لوگ بااثر ہیں، سیاست میں بھی اُن کا عمل دخل ہے اور سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے اُن پر ہاتھ ڈالنا شہری انتظامیہ کے بس کی بات نہیں رہی، اور ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔‘

سندھ آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار اپنی کارروائیاں پورے شمالی سندھ میں کرتے رہے جن میں دادو، لاڑکانہ، شکار پور، جیکب آباد اور سکھر جیسے اضلاع شامل رہے۔

تنویر بیگ نے بتایا کہ اُس زمانے میں حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں کو زندہ پکڑنے یا مقابلے میں ہلاک کر دینے پر انعام یا ڈاکوؤں کے سر کی قیمت مقرر کی جاتی تھی۔

’ڈاکو پروُ چانڈیو کے بارے میں تو حُکّام نے سات بار اعلان کیا کہ وہ مقابلے میں مارا گیا اور ساتوں مرتبہ انعام کی رقم بھی وصول کی۔ یہی نہیں بلکہ ایسے مقابلوں میں یہ بھی دعویٰ کیا جاتا تھا کہ کارروائی کے دوران ہزاروں گولیاں چلائی گئیں لیکن دراصل یہی گولیاں اُنھی ڈاکوؤں کو فروخت کر کے اُن سے ملنے والے پیسے بھی حُکّام کی جیب میں چلے جاتے تھے۔‘

آفاق احمد

دورانِ آپریشن ٹنڈو بہاول میں دیہاتیوں کے ماورائے عدالت قتل کے بھیانک واقعے کی شرمندگی کے بعد سندھ آپریشن کا رخ 19 جون 1992 کو کراچی کی جانب مڑا اور وہ ہوا جس کی نظیر شاید نہ مل سکے۔

مسلّح کارروائیوں اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں میں ایم کیو ایم، ایم کیو ایم حقیقی کے سینکڑوں کارکنان اور پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینکڑوں اہلکار و افسران مارے گئے۔

صحافیوں کے مطابق 19 جون کو جب آفاق احمد اور عامر خان کراچی واپس آئے اور ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا کہ اُن کو ہدف بنا لیا گیا ہے تو معاملے نے دوسرا رخ اختیار کیا۔

آفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں بنائی جانے والی ایم کیو ایم حقیقی کے لیے ریاست کی جانب سے کھلی حمایت اور الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف کارروائی سے خود ریاست کے اداروں میں اختلافات ابھرنے لگے۔

ایم کیو ایم نے اپنے خلاف کارروائی کی بنیاد پر احتجاجاً حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور آپریشن کلین اپ سیاست کی نظر ہو گیا۔

آپریشن کا مقصد صرف ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی نہیں تھا

ایک تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسے ٹنڈو بہاول کے واقعے کا دباؤ کہہ لیں یا آپریشن کرنے والوں کی بیزاری اور تھکن کہ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف بیشتر کارروائیاں اچانک اور بے نتیجہ ہی ختم کر دی گئیں۔

29 مارچ 1987 سے 27 مئی 1989 تک فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجینس کے سربراہ رہنے والے جنرل حمید گل بھی کہنا تھا کہ اس آپریشن کا مقصد ’صرف ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی‘ نہیں تھا۔

صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’خود مجھے دیے گئے ایک انٹرویو میں جنرل حمید گُل نے باقاعدہ تسلیم کیا کہ جس وقت سندھ میں آپریشن شروع ہوا تو وہ وقت اُس صوبے کے مخصوص حالات میں کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے مناسب تھے ہی نہیں۔ حمید گُل نے کہا تھا کہ فوجی نکتۂ نظر سے ایسی کارروائیاں ایسے موسم میں شروع ہی نہیں کی جاتیں اور ہدف کراچی ہی تھا۔‘

حمید گل

مظہر عباس کے مطابق جب آپریشن شروع ہوا تو فوج کے خفیہ اداروں کے مؤقف میں بھی واضح فرق باقاعدہ نظر آیا۔ ’ایک بار مجھ سے فوج کے خفیہ ادارے سے وابستہ ایک ذریعے نے کھل کر کہا کہ ہم تو عسکریت پسندی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں مگر ہمارے دوست کچھ سیاسی مقاصد بھی رکھتے ہیں۔‘

اگرچہ اے ایچ خانزادہ جیسے صحافی آپریشن کو کامیاب اور نتیجہ خیز سمجھتے ہیں مگر مظہر عباس اور ناز سہتو جیسے صحافیوں کے مطابق نہ تو آپریشن دیہی سندھ میں نتیجہ خیز رہا اور نہ ہی شہری علاقوں میں مکمل اور دیرپا امن قائم کر کے کامیاب ہو سکا۔

مظہر عباس کے مطابق ’یہ آپریشن شہری و دیہی دونوں محاذوں پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔‘

صحافی ناز سہتو بھی کہتے ہیں کہ ’آپریشن شروع کرتے وقت کہا تو یہ کہا گیا تھا کہ آپریشن زدہ علاقوں میں طویل المدت نتائج کے لیے بحالی کا عمل کیا جائے گا، تعلیم دی جائے گی، متاثرہ دیہات کی تعمیرنو کی جائے گی مگر کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ کچھ نہیں ہوا۔ اگر ہوتا تو آج بھی کیوں جرم موجود ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’جو سوال میں کر رہا ہوں وہی سینیٹر اعجاز جتوئی نے بھی سینیٹ میں کیا کہ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ کچے میں علاقے میں اسلحہ پہنچتا کیسے ہے؟

’جہاں ہم دو کلو آٹے کا تھیلا اور ایک پیکٹ دوا نہیں پہنچا سکتے وہاں طیارہ شکن بندوقیں اور راکٹ لانچر کیسے پہنچتے ہیں۔ سندھ میں تو اسلحے کی کوئی فیکٹری اور کارخانہ نہیں، وہ تو ہزاروں میل دور دوسرے صوبوں میں ہیں تو یہاں کون اور کیسے لاتا ہے اور اگر باہر سے آتا ہے تو سرحد کیسے پار ہوتی ہے، تین صوبے عبور کر کے یہاں کیسے آتا ہے؟ راستے میں بھی تو کسی کی ذمہ داری ہے کہ اُسے روکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس تو خود کہہ چکی تھی کہ مجرموں کے پاس جدید ہتھیار ہیں اسی لیے تو ہم مارے جاتے ہیں، تو کون لاتا تھا یہ اسلحہ؟‘

اس آپریشن کے دوران کارروائی میں شریک قانون نافذ کرنے والے اداروں پر یہ الزامات بھی لگے کہ ایک ایک ملزم کی تلاش میں انھوں نے گاؤں کے گاؤں نذرِ آتش کر دیے تاہم ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

کراچی آپریشن

دادو میں حُکّام کی جانب سے ڈاکو قرار دیے جانے والے گُل محمد کا مبینہ ٹھکانہ براہماڑی گاؤں ہو یا گھوٹکی کا شاہ بیلو گاؤں ناز سہتو کے مطابق یہ دیہات آپریشن کے دوران جلے۔

’بکتر بند گاڑیاں لائی گئیں۔ پوری کارروائی میں چھ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور پھر پورا گاؤں (شاہ بیلو) جلا ڈالا گیا۔‘

ناز سہتو کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں آپریشن کے دوران فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے ہونے والی مبینہ زیادتیوں کی شکایات تو ایم کیو ایم کرتی رہی اور اُس کی شکایات کو ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ بھی ملتی رہی مگر دیہات میں اوّل تو آواز اٹھی نہیں اور اگر اٹھی بھی تو سنی نہیں گئی۔

’شہری مراکز کی آواز تو کہیں نہ کہیں ایئر ہو جاتی ہے مگر گاؤں کا تو کسی کو نام ہی سمجھ نہیں آتا۔ آپریشن کے جو نتائج سرکار نے بتائے وہ اس لیے بھی قابل اعتبار نہیں ہو سکتے کہ جو سب لوگ ڈاکو کہہ کر گرفتار کیے گئے ان میں سے اکثر کو تو برسوں بعد عدالتوں نے عدم ثبوت کی بنیاد پر بے گناہ قرار دیا یا پھر استغاثہ انھیں مجرم ثابت ہی نہیں کر سکا۔

’ہاں میں مانتا ہوں کہ کچھ روز تک اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کم ہوئیں، جرائم کا گراف نیچے گیا مگر یہ چونکہ خوف کی وجہ سے تھا اس لیے عارضی ثابت ہوا۔ اگر منظم انداز میں ہوتا تو دیرپا اثرات ہوتے مگر خوف ختم ہوتے ہی سب کچھ پھر شروع ہوگیا اور آج بھی جاری ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp