اردو ترجمے میں فورٹ ولیم کالج کا کردار


1600 ء میں ایک تجارتی کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ عہد ملکہ الزبتھ کا عہد تھا۔ اسے درج ذیل نام دیا گیا۔ ”گورنر اینڈ کمپنی آف مرچنٹس ٹریڈنگ ان ٹو ایسٹ انڈیا“ ۔ اس کمپنی کے یہاں قیام کاخالصتاً مقصد تجارتی سرگرمیاں تھا۔ اس کا نام مختصر ہوتا گیا یہاں تک کہ اسے ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کہا جانے لگا۔ لیکن اس کمپنی نے نہ صرف یہاں تجارت کے بہانے برصغیر پاک و ہند کے وسائل کو استعمال کیا بلکہ بعض ایسے قوانین بھی بنا دیے گئے کہ یہاں کے باسیوں کو اپنے وسائل کو استعمال کرنے کا حق نہ رہا۔

یہاں کی دولت لوٹ لوٹ کر برطانیہ منتقل کی جاتی رہی۔ یہاں کی صنعتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ہندوستان صرف خام مال کے مواد کی ایک منڈی بن گیا۔ اگرچہ شروع میں اس کمپنی کے مقاصد میں سیاسی امور میں دلچسپی نہ تھی لیکن یہاں جس طرح کے حالات تھے بادشاہ موج مستی میں مبتلا تھے۔ کاروبار مملکت کی طرف ان کا دھیان نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کے لیے ہر دن عید تھا۔ وہ مست الست ہو کے رقص و سرود کی محفلوں میں منہمک تھے۔ ان حالات کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی کے لالچ اور حرص نے ان کو کاروبار مملکت میں دخل اندازی پی مجبور کر دیا۔

جب نظام سلطنت اس قدر کمزو رہو جائے کہ اس میں در اندازی میں کوئی مشکل نہ رہے تو حرص وہوس کے مارے لوگ ہمیشہ اس کا فائدہ لیتے ہیں۔ انگریزوں نے بھی یہی کچھ کیا۔ لیکن ان باتوں سے قطع نظر ان کا یہاں آنا اردو زبان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ مصالحہ جات، پارچہ جات، چائے، اور پالتو جانوروں کی خریدوفروخت کی جاتی تھی۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ”کمپنی اور ہندوستان کی حکومت“ میں لکھتے ہیں

” 1765 ء میں جب کمپنی کو بنگال و بہار میں دیوانی کے اختیارات ملے تو اس کی حیثیت مغل حکومت کی وارث کی ہو گئی۔ اس کو یہ حق نہ تھا کہ وہ کوئی نیا نظام نافذ کرے۔ بطور وارث اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ زوال پذیر نظام کہ بہتر بنائے، تا کہ ختم کر کے اس کی جگہ بالکل دوسرا نظام لائے۔ کلائیو کی دلیل تھی کہ ہندوستان میں کمپنی کی حکومت پوشیدہ رہنی چاہیے۔ اسے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ یعنی اسے مغل حکومت کے پردے میں حکومت میں کرنی چاہیے۔

بائنگز کی دلیل تھی کہ انتظامیہ کی اعلی سطح پر کمپنی کے ملازم ہوں مگر نچلی سطح پر ہندوستانیوں کو رکھنا چاہیے۔ کمپنی کی ابتدائی بد عنوانیوں اور انتظامی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے برطانوی پارلیمنٹ نے 1773 ء میں ریگولیٹنگ ایکٹ پاس کیا جس کی خاص شق یہ تھی یہ سپریم کورٹ گورنر جنرل کونسل سے آزاد ہو گا۔ کمپنی کی پالیسی میں اس وقت تبدیلی آئی جب کارنوالس گورنر جنرل بن کے آیا۔“

کمپنی کی یہ کار گزاری تو جو ہے سو ہے۔ باہمی نفاق، خودغرضی، نا اہلی، عیاشی اور طالع آزما لوگوں کی غداری نے بھی کمپنی بہادرکی حکومت قائم کرنے اور اسے طول دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

1898 ء میں لارڈ ولزلی گورنر جنرل بن کے آیا۔ اس نے یہ محسوس کر لیا کہ مقامی لوگوں سے رابطہ رکھے بغیر، ان کی زبان و ثقافت سمجھے بغیر، ان کے جذبات و احساسات کا اندازہ کیے بغیر کمپنی کی حکومت کو زیادہ دیر چلانا ممکن نہ ہو گا۔ کسی بھی علاقے کی ثقافت کو سمجھنے کے لیے اور اس کی تہذیب میں سرایت کرنے کے لیے وہاں کے رسوم و رواج کو جاننا ہوتا ہے اور یہ علاقائی زبان کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہذا لارڈ ولزلی نے اس بات کو بھانپ لیا کہ زبان ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اس نے اردو اچھی درسگاہ کے قیام کی ایک یادداشت لکھی اور اس پر زور دیا: ”کمپنی نے ملازمین کی تعلیم سائنس اور ادب سے متعلق عام معلومات پر مبنی ہونی چاہیے ’جو عموماً یورپ میں اس قسم کے عہدوں کے لیے ضروری ہے‘ لیکن اس بنیاد کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ لوگ ہندوستان کی تاریخ، زبانوں، رسم ورواج اور اخلاق و عادات سے بھی واقف ہوں۔ اس طرح فورٹ ولیم کالج کی ابتدا ہوتی ہے۔ مشرقی زبانوں کی تحصیل بالخصوص اردو زبان کی تدریس او رتحصیل کا خاص اہتمام کیا گیا۔

ہر زبان کے لیے الگ شعبہ قائم کیا گیا۔ بنگالی، ہندی، عربی، فارسی اور اردو کے الگ الگ شعبہ جات تھے جو ان زبانوں کی اہم تصانیف کے تراجم بھی کرتے اور تدریس بھی کرتے تھے۔ ان شعبوں کے سربراہ پروفیسر کہلاتے اور اساتذہ منشی اور پنڈت کہلاتے تھے۔ پروفیسر اور اساتذہ کا مشاہرہ معقول تھا۔ معاشی طور پر خوشحالی کی وجہ سے تما م اساتذہ محنت سے پڑھاتے تھے اور کتابیں تصانیف کرتے تھے اور تراجم بھی کرتے۔ اس کالج کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس سے پہلے جتنے بھی اردو میں تراجم ہوئے وہ انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھے۔

پہلی بار ایک ادارہ کی جانب سے اور منظم انداز میں تراجم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اور عربی، فارسی اور سنسکرت کے تراجم اردو زبان میں کیے گئے اور اردو زبان کو مالا مال کر دیا گیا۔ شعبہ اردو کے سر براہ گل کرسٹ تھے۔ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ گل کرسٹ اس کالج کا پہلا پرنسپل بھی رہا لیکن تحقیقی سے یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ فورٹ ولیم کالج کا پہلے پرنسپل گل کرسٹ نہیں تھے بلکہ ایک پادری ریورنڈ ڈیوڈ براؤن تھے۔

اس کالج کے مقاصد کو اس خطبہ کی مدد سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو سالانہ جلسہ میں صدر جارج بارمو کا تھا۔ اس میں انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا“ اس ادارہ سے بے انتہا فوائد مرتب ہو رہے ہیں اور جن کا ثبوت وہ مذاکرے ہیں جو آج کے کھلے اجلاس میں ہوئے۔ وہ لوت جو اس ادارہ کی حقیقت اور اس کے قیام کے مقاصد سے کما حقۃ واقف نہیں ہیں، انھیں یہ معلوم کر کے تعجب اور ساتھ ہی اطمینان بھی ہو گا کہ وہ طالب علم جنھیں ہندوستان آئے ابھی عرصہ نہیں گزرا، انھوں نے آج مشرقی زبانوں میں مذاکروں میں بڑی قابلیت کا ثبوت دیا۔

فورٹ ولیم کالج کے قیام سے مشرقی زبان و ادب کی تعلیم کا شوق عام طور پر بڑھ گیا ہے اور آنریبل کمپنی کے ہر انتظامی شعبہ میں اس کا بے حد مفید اور قابل تعریف اثر پڑے گا۔ ان بے شمار اور اہم فوائد کا صحیح اندازہ کالج کے قیام کی اس مختصر مدت میں نہیں کیا جا سکتا لیکن آئندہ بھی ان فوائد کی رفتار ترقی اسی طرح جاری رہی جس کا کہ مظاہرہ کیا گیا ہے تو یہ ادارہ ان تمام امیدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو گا جو اس کی کامیابی کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہ ادارہ ان لوگوں کے لیے جو ہندوستان میں برطانوی حکومت کے اعلی عہدوں کے خواستگار ہیں، بہترین موقع پیش کر رہے ہیں۔ ”

1803 ء میں فورٹ ولیم کالج کا اپنا پریس کام کرنے لگ گیا اور اس سے اہل قلم کی تصانیف کی اشاعت آسان ہو گئی۔ فورٹ ولیم کالج کے تحت جن ادیبوں نے تراجم کیے ان میں عبداللہ مسکین، کاظم علی جوان، بہادر علی حسینی، مظہر علی خان ولا، شیر علی افسوس، حیدر بخش حیدری، خلیل علی خاں اشک، حمید الدین بہاری، کندن لال، باسط خاں، میر ابو القاسم، طوطا رام، محمد بخش، میر جعفر، مولو ی عنایت اللہ، نہال چند، غلام اکبر، حاجی مغل مرزا، غلام شاہ بھیک، محمد بخش، محمد عمر، شاکرعلی وغیرہ شامل ہیں

1۔ گل کرسٹ شعبہ اردو کے سربراہ تھے انھوں نے رومن اردو میں ایک ترجمہ ”ہندی مشقیں“ کے نام سے 1802 ء میں کیا

2۔ ”باغ اردو“ کے نا م سے ایک ترجمہ شیر علی افسوس نے 1802 ء میں اردو میں کیا
3۔ ”رسالہ گل کرسٹ“ یہ ترجمہ بہادر علی حسینی نے 1802 ء میں اردو میں کیا
4۔ ”رسالہ کائنات جو“ یہ ترجمہ خلیل علی خاں اشک نے 1802 ء میں اردومیں کیا
5۔ ”ترجمہ پند نامہ منظوم“ یہ ترجمہ مظہر علی خاں ولا نے 1802 ء میں اردو میں کیا
6۔ ”نثر بے نظیر“ یہ ترجمہ بہادر علی حسینی نے 1803 ء میں اردو میں کیا
7۔ ”گلدستہ حیدری“ یہ ترجمہ حید ر بخش حیدری نے 1803 ء میں اردو میں کیا
8۔ ”باغ وبہار“ یہ معروف ترجمہ میر امن نے 1803 ء میں اردو میں کیا
9۔ ”قصہ فیروزشاہ“ یہ ترجمہ شیخ محمد بخش ناسخ نے 1803 ء میں اردو میں کیا
10۔ ”قصہ دل آرام و دل بہار“ یہ ترجمہ توتا رام نے 1803 ء میں اردو میں کیا
11۔ ”حسن اختلاط“ کے نام سے ایک ترجمہ میر ابوالقاسم نے 1802 ء میں اردو میں کیا تھا
12۔ ”کلا کام“ کے نام سے ایک ترجمہ کندن لعل نے 1802 ء میں اردو میں کیا
13۔ ”خوان نعمت“ کے نام سے ایک ترجمہ سید حمید الدین بہاری نے 1802 ء میں اردو میں کیا
14۔ ”ہندوستانی کہاوتیں“ کے نام سے ایک ترجمہ ولیم ہنٹر نے 1802 ء میں اردو میں کیا

اس کے علاوہ بھی بہت سے تراجم اردو میں اس ادارہ کے توسط سے کیے گئے۔ ”ہندوستانی میں مستعمل عربی و فارسی الفاط کا ذخیرہ“ از ولیم ہنٹر، ”داستان امیر حمزہ“ از خلیک خان اشک، ”مثنونوی میر حسن“ از میر حسن، ”مذہب عشق“ از نہال چند لاہوری، ”ہدایت الاسلام“ از امانت اللہ شیدا، ”آرائش محفل“ از حیدر بخش حیدری، ”خرد افروز“ از حفیظ الدین، ”عہد نامہ جدید“ از مرزا محمد فطرت، ”دیوان میر سوز“ از میر سوز، ”لطائف ہندی“ از للو لال، ”صرف اردو منظوم“ از امانت اللہ شیدا، ”کلیات سودا کا انتخاب“ از کاظم علی جوان اور مولوی محمد اسلم، ”انتخاب اخوان الصفا“ از مولوی اکرم علی، ”کثیر الفائد“ از للو لال، ”گل مغفرت“ از حیدر بخش حیدری ”بارہ ماسہ دستور بند“ از کاظم علی جوان ان تراجم میں شامل ہیں۔ یہ سب طبع شدہ تراجم ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ تراجم ایسے بھی ہوئے جن کی طباعت کی نوبت تک نہ آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments