کراچی موضوع نہیں, کراچی نوحے کا نام ہے



کراچی میں مسئلے نہیں ہے بلکہ مسائل کا دوسرا نام کراچی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ اب جتنا بڑا کراچی ہے اتنے ہی بڑے بڑے اس کے مسائل ہیں۔ کراچی میں ویسے تو کاروبار کے بہت مواقع ہیں اور پورے پاکستان اور دنیا سے لوگ آ کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ اسی طرح جس طرح کاروبار و روزگار کا اسکوپ کراچی میں بہت ہے اسی طرح مسائل کا بھی بہت اسکوپ ہے۔ مسئلے بھی سب سے پہلے کراچی کو ہی چنتے ہیں کیونکہ اس شہر میں مسئلوں کا بھی اسکوپ ہے۔

مسائل کراچی میں آنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر یہی رچ بس جاتے ہیں۔ اب تو کچھ مسئلے ایسے ہیں جن کی باقاعدہ دوسری نسل بھی صاحب اولاد ہونے والی ہے۔ کراچی کے مسائل سب جانتے ہیں پر آنکھ چراتے ہیں۔ کراچی کے مسائل کو سب مانتے ہیں مگر کام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کراچی مطلب کا نام ہے جس سے اپنے مطلب پورے ہوتے اور کراچی کے مطلب دھرے کے دھرے اور پڑے کے پڑے رہ جاتے ہیں۔

کراچی کے مسئلے کبھی باسی نہیں ہوتے کیونکہ مسئلوں میں بھی نئے نئے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ باسی تو وہ مسئلے ہوتے ہیں جس پر کوئی دھیان نہ دے اور پھر وہ مسئلے سڑگل جائے۔ مگر ہمارے مسئلے سڑتے بھی نہیں اس میں نئے نئے مسئلوں کی آمیزش ہوتی ہے جس سے مسائل کو نئے زاویے اور نئی جہتیں ملتی ہیں۔ کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے، کراچی عروس البلاد بھی کہلاتا ہے، کراچی امیدوں کا شہر بھی کہلاتا ہے، کراچی کو خوابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے مگر کراچی اب مسئلوں کی امیدوں کا نام ہے، کراچی میں پریشانی خواب دیکھتی ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر ہوتی ہے، کراچی اب اندھیروں کا شہر ہے۔ ہاں اس اندھیروں میں کے الیکٹرک اور ڈکیتوں کے بدمعاشی کے ملے جلے اندھیرے شامل ہیں۔ کیونکہ ان دونوں کا کوئی خاص روحانی رشتہ بھی ہے۔

آغاز تحریر میں میرا ارادہ تھا کہ کے الیکٹرک کو شاندار کارکردگی پر کراچی کی گرمی کے مطابق لغت غلاظت سے بہترین الفاظ ہدیہ کروں گا مگر کراچی کا موضوع بڑا شریر موضوع ہے بالکل یار کی شرارتی مسکراہٹ کی طرح وہ الگ بات ہے کہ یار نے ہمیں لوٹنے ہی ہے۔ ارے موضوع پر ہی رہتے ہیں تو ارادہ تھا کہ کے الیکٹرک کی کرم نوازی پر چند الفاظ تحریر کروں گا مگر خود با خود پریشانیاں خیالوں میں آ کر دروازہ پیٹنے لگی کہ بھئی ہمارے بارے میں بھی لکھو، ہمارے لئے بھی کچھ بولو اور ہم جو کچھ اور لکھنے کا ارادہ کیے بیٹھے تھے وہ کسی اور طرف ہو لئے۔

سوچا تھا کہ کے بجلی پر بجلی بن کر بجلی گرائیں گے مگر کراچی کے کچرے کی بدبو نے آ کر ذہن ہر حملہ کر دیا، ذہن سنبھالا ہی تھا کہ کراچی کی سڑکوں پر پڑے گڑھوں نے ایسے ایسے جھٹکے دیے کہ کمر بھی ٹک ٹک کرنے لگی، اور کمر سیدھی ہی کہ تھی کہ گھر کے اک کونے سے تپتی ہوئی آواز آئی کہ پانی نہیں آ رہا ذرا ٹینکر تو ڈلوائیں، اب ٹینکر کی فرمائش کرنے والوں کو کون بتائے کہ پیٹرول ڈلواتے ہوئے ہماری جان جاتی و مال جاتا ہے اور آپ اتنا بڑے ٹینکر کا کہہ رہی ہیں مگر مجبوری یہ ہے کہ پانی تو ضرورت خاص ہے تو اس کی حاجت تو لازم ٹھری۔

کراچی موضوع نہیں، کراچی نوحے کا نام ہے۔ کراچی مطلب کے دوست کا نام ہے جس سے مطلب کے لئے دوستی کی جائے اور پھر اسے چھوڑ دیا جائے۔ کراچی اس باپ کا نام ہے جس کے بچوں کے سپنے پورے ہو جائے مگر اس کے جوتے کئی سال تک ٹوٹے رہیں۔ کراچی کا درجہ ان والدین جیسا ہے جس کے ویل سیٹلڈ بچوں نے انھیں اولڈ ایج میں دھکیل دیا ہو۔ کراچی اس ماں کا نام ہے جس نے کروڑوں بچوں کو پالا مگر پھر بھی بانجھ ہی رہی۔

اون کراچی کے راگ الاپنے والوں نے بھی کراچی کو خوب نچوڑا اور دیا کچھ نہیں، کراچی کو بس استعمال کیا گیا مگر میرا دل چاہتا ہے کہ دل کی بھڑاس نکالوں اور کچھ اور الفاظ لکھ ڈالوں مگر قلم کے تقدس کا پاس رکھنا ہے ورنہ کراچی کے ساتھ ظلم بیان کرنے کے لئے روایتی الفاظ بھی بے جان محسوس ہوتے ہیں۔ باتیں ہیں اس سے کئی زیادہ ہے وہ صرف باتیں نہیں وہ مسائل ہیں جس کا سامنا اس کراچی کو ہے۔ مگر کون ہے جو ان مسئلوں کو سچی نیت کے ساتھ حل کرے۔ صرف لولی پاپ اور ایسی لولی پاپ جس کا میٹھا پن اب کڑوے پن میں بدل گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments