وزیراعظم صاحب! تھل کی نمائندگی کا حق اداکریں؟


وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی لیہ آرہے ہیں۔ اس کے لئے انتظامات کوحتمی شکل دی جا رہی ہے تاکہ 26 مئی کا دورہ وزیراعظم اور وزیراعلی کے شایان ہو، ادھر تھل بالخصوص لیہ کی عوام تخت اسلام آباد کے خان اور تخت لاہور کے بلوچ حکمران عثمان بزدار کی طرف سے بڑے ترقیاتی پیکج کی منتظرہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میں لیہ کو ایک خاص مقام یوں حاصل ہے کہ لیہ کے تین ارکان صوبائی اسمبلی (احمد علی اولکھ۔رفاقت گیلانی۔ طاہر رندھاوا) جو کہ آزاد حیثیت میں الیکشن جیتے تھے، وہ بذریعہ جہانگیر ترین جہاز بنی گالہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کو گلے میں پارٹی مفلر ڈال کر پیارے ہو گئے تھے۔ اور اب تک جہانگیر ترین اور تحریک انصاف کی قیادت آگے پیچھے ہیں، اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ملتے ہیں۔ اسی طرح لیہ کی قومی اسمبلی کی دونوں نشتوں پر بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کو کامیابی ملی تھی، یوں عوامی سطح پر جہاں آزاد امیدواروں پر ووٹ نچھاور کیے گئے تھے۔

وہاں لیہ کی عوام نے وزیراعظم عمران خان کی پارٹی کو بھی دوسیٹوں پر کامیاب کرواکر محبت کا اظہار کیا تھا۔ یہاں اس با ت کا بھی تذکرہ ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی عثمان بزدار جب لیہ میں ہوں گے تو مطلب تھل میں ہوں گے ، اور تھل کے سات اضلاع ہیں، جن میں خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ مظفرگڑھ، جھنگ اورچینوٹ شامل ہیں۔ تھل پاکستان میں سیاسی اکائی کے طور پر ایک خاص اہمیت کا حامل یوں ہے کہ اس کی قومی اسمبلی کی کل ( 19 ) سیٹیں ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی ( 37 ) نشتیں ہیں۔

جن کو یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ خوشاب کی قومی اسمبلی نشتوں پر (ملک عمر اسلم خان۔ ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ) ، میانوالی کی دوقومی اسمبلی کی نشتوں پر (عمران خان۔ امجد علی خان نیازی) ، بھکر کی قومی اسمبلی کی نشتوں پر (ثنا االلہ مستی خیل۔ ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلہ) اور لیہ کی دوقومی اسمبلی کی نشتوں (عبدالمجید خان نیازی۔ ملک نیاز احمد جھکڑ) رکن قومی اسمبلی ہیں اورمظفرگڑھ کی 6 ) (قومی اسمبلی نشتیں جن پر (عامر طلال گوپانگ۔

محمد شبیر علی قریشی۔ مخدوم زادہ سید باسط علی سلطان۔ مہر ارشاد سیال۔ رضا ربانی کھر۔ نوابزادہ افتخار احمد خان) اور جھنگ۔ چینوٹ کی پانچ قومی اسمبلی نشتیں ہیں جن پر ( صاحبزاہ محبوب سلطان، غلام بی بی بھروانہ، محمد امیر سلطان، قیصر احمد شیخ، مہرغلام محمد لالی) رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ تھل کی) 19 (قومی اسمبلی کی نشتوں میں سے تحریک انصاف کے ( 16 ) نشتوں پر امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ یہاں تھل کا موازنہ ملتان اور بہاولپور کے ساتھ کیاجائے تو تھل کی قومی اسمبلی نشتیں نہ صرف ملتان سے زیادہ ہیں بلکہ بہاولپور بھی ( 15 ) سیٹیوں کے ساتھ پیچھے کھڑا ہے۔

اسی طرح تخت لہور ( 14 ) قومی اسمبلی کی نشتوں کے ساتھ تھل سے ( 5 ) سیٹوں کے فرق کے ساتھ پیچھے ہے اور ان ( 14 ) سیٹیوں میں سے تحریک انصاف کو صرف شفقت محمود، حماد اظہر۔ ملک کرامت کھوکھر کی جیت کی شکل میں تین قومی اسمبلی کی نشتیں ملی تھیں جبکہ باقی ساری مسلم لیگ نواز کے امیدوار جیت گئے ہیں۔ اب یہاں تھل یوں بھی دیکھناہوگا کہ اتنی بڑی سیاسی اکائی اور اپنی ( 19 ) قومی اسمبلی کی نشتوں میں سے تحریک انصاف کو ( 16 ) نشتیں دان کرنے والا تھل ملتان، بہاولپور اور لاہور کے مقابلے میں کہاں کھڑا ہے؟

ملتان اور بہاول پور ترقی کے سفر میں تھل کے ( 7 ) اضلاع کو کہیں پیچھے چھوڑ کر ڈویثرن ہیڈ کوارٹر سمیت جنوبی پنجا ب سیکرٹریٹ کا تاج بھی پہن چکے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تھل کے ملتان اور بہاول پور اور ملتان بالترتیب ( 3 ) اور ( 4 ) ضلعوں کے مقابلے میں ( 7 ) اضلاع پر مشتمل ہے مطلب تھل کی آبادی ان دونوں ڈویثرنوں سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن تھل کے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک تھل کے عوام کسی بھی حکمران کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس کے باوجود تحریک انصاف سمیت ساری جماعتوں بالشمول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو یہاں سے اکثریت ملتی رہی ہے۔ لیکن ان کے لئے ترقیاتی پیکج دلی دور است کی طرح رہا ہے۔ تھل میں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک یوں رواء رکھا گیا ہے کہ تھل کے ( 7 ) اضلاع میں لاہور کی تو بات نہ کریں، ملتان اور بہاولپور ڈویثرن کے مقابلے میں ککھ بھی نہیں ہے۔ ملتان اور بہاولپور اس وقت لاہور کا ترقی کے حوالے سے مقابلہ کر رہے ہیں، جب تھل کہیں دور دور تک نظرنہیں آتاہے۔

آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ تھل کے 7 ) (اضلاع میں پنجاب یونیورسٹی لاہور چھوڑیں، زکریا یونیورسٹی ملتان چھوڑیں، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے مقابلہ کی ایک یونیورسٹی کاوجودنہیں ہے۔ تھل کے سات اضلاع میں ایک بھی میڈیکل کالج کا نام نشان نہیں ہے اور ملتان میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی ہے اور بہاول پور میں قائد اعظم میڈیکل کالج اور شیخ زید میڈیکل رحیم یار خان موجود ہیں، اسی طرح بہاول پور کے تیسر ے ضلع بہاولنگر میں بھی میڈیکل کالج کی تعمیر کا کام جاری ہے، ادھر ڈیرہ غازی خان میں غازی میڈیکل کالج ہے۔

ادھر لاہور میں تو میڈیکل کالجوں کی بارش کی گئی ہے، مطلب لاہور میں اس وقت ( 26 ) میڈیکل کالج ہیں۔ لیکن تھل کے لئے خاص خیال رکھا گیا ہے کہ یہاں میڈیکل کالج چھوڑیں کوئی ڈئینٹل کالج بھی نہیں بنایا گیا ہے ۔ اسی طرح جب تھل کے سات اضلاع میں میڈیکل کالج نہیں ہے تو پھر ٹیچنگ ہسپتال بھی نہیں ہے۔ یوں ایک طرف میڈیکل تعلیم پر پابندی ہے تو دوسر ی طرف ٹیچنگ ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے علاج معالج کی سہولت بھی خواب ہے۔

تھل کے جیسے میں عرض کررہاہوں کہ 7 ) (اضلاع ہیں اور ان پر ایک بھی ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے جبکہ ملتان اور بہاولپور کے تین اور چار اضلاع ہیں، ان پر ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر بنائے گئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتاہے کہ آ کر تھل کے ساتھ ایسا سلوک رکھنے کے پیچھے کیا راز ہے؟ کیا یہاں کے لوگ حکومت اور ریاست کو نظر نہیں آتے ہیں۔ ان کو اضلاع کے ڈربوں میں بند کیوں کیا گیا ہے ؟ ان کے لئے نئے اضلاع اور ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر بنانے پر کیوں پابندی ہے؟

تھل کے ( 7 ) اضلاع میں ایک بھی زرعی یونیورسٹی سے لے کر ایک انجئینرنگ یونیورسٹی کا وجود نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کی عمارت بنی لیکن آج تک اس کا پتہ نہیں چلاہے کہ وہ اب یونیورسٹی کام کہاں کر رہی ہے؟ ادھر ائرپورٹ بھی تھل کے عوام کے لئے وجود میں نہیں آسکاہے۔ موٹروے کا نام سنتے چلے آرہے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں کو ملانے کے لئے موٹرویز بنائے گئے ہیں لیکن کسی حکومت نے تھل کے اتنے بڑے علاقہ کے عوام کو موٹروے جیسی سہولت دینے کے لئے کبھی اعلان تک بھی نہیں کیا۔

یوں تھل کا مرکز ی روڈ مظفرگڑھ میانوالی روڈ جو کہ اب خونی روڈ سے لے کر قاتل روڈ کا نام پاچکاہے، لوگ اس کے رحم وکرم پر ہیں، تھل کے مرکز ی شہر بھکر کے رکن قومی اسمبلی ثنا االلہ مستی خیل اسمبلی میں تقریر کے دوران قاتل روڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اب تو لوگ قاتل روڈ سے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں، کچھ کرو لیکن؟ خاموشی ہے۔ یہاں اس با ت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ وفاقی وزیرمراد سعید بھی تھل کے مرکزی روڈ کو خونی روڈ، قاتل روڈ پکارتے ہیں لیکن وہ اور حکومت تھل موٹروے کا اعلان کرنے کا رسک لینے پر تیار نہیں ہیں۔

وگرنہ سارے ملک میں موٹرویز کے لئے فنڈز ہیں لیکن تھل کے وقت بتایاجاتا ہے کہ حکومت مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتاچلوں کہ تھل کو پسماندگی کی دلدل میں رکھنے کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ یہاں کے لوگ اب بچوں کی تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لئے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جو کہ اچھا شگون نہیں ہے۔ تھل کے عوام کا بھی حق ہے کہ ان کو گھر کے قریب سہولتیں ملیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس جواز کے ساتھ عثمان بزدار کو وزیراعلی بنایا تھا کہ وہ پسماندہ علاقہ سے ہے اور وہ پسماندہ علاقوں کے مسائل کو حل کرے گا لیکن تھل کو دیکھ کر وزیراعظم عمران خان کے الفاظ کو حقیقی شکل میں دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ یوں وزیراعظم عمران خان بحیثت رکن قومی اسمبلی (میانوالی) تھل کی محرومیوں کا مقدمہ بھی لیہ میں کھڑے ہو کر پیش کریں اور اس کے ساتھ 73 سال سے رکھے گئے سوتیلی ماں کے سلوک کا بحیثیت وزیراعظم پاکستان اس کے لئے ترقیاتی منصوبوں کے اعلان کے ساتھ ازالہ بھی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments