ٹلسا قتل عام: امریکہ میں ایک ایسے قتلِ عام کے متاثرین کی تلاش جنھیں سب بھلا چکے ہیں
ریبیکا جنز - نمائندہ آرٹ ، بی بی سی نیوز
آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے امریکہ میں قدرے امیر سیاہ فام علاقے میں سے سفید فام لوگوں کا مشتعل ہجوم گزرا اور تباہی مچاتا چلا گیا۔ مگر اس واقعے کے متاثرین کے بارے میں جاننا ایک سائنسدان کے لیے انتہائی ذاتی نوعیت کا عمل بن چکا ہے۔
ڈاکٹر ویبی سٹبل فیلڈ کہتی ہیں کہ ’میرا کام ہے کہ میں ہڈیوں کو بولنے کا موقع دوں۔‘
سنہ 1921 میں شہر ٹلسا میں ہونے والے اس واقعے کی تحقیق کرنے والی ٹیم میں پیش پیش ایک فورنزک اینتھروپالوجسٹ (ماہر بشریات) ہیں۔ یونیورسٹی آف فلوریڈا کی سائنسدان کے لیے یہ معاملہ نہ صرف پیشہ وارانہ اہمیت کا حامل ہے بلکہ ان کے لیے یہ انتہائی ذاتی بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ سلوک جسں نے ایک سیاہ فام امریکی کو ہائی جیکر بنا دیا
’امریکی تاریخ کی واحد بغاوت‘ جب سفید فام نسل پرستوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا
عالمی تحریکوں کے بانی، طاقتور بادشاہ، امریکہ دریافت کرنے والے سب نشانے پر
وہ کہتی ہیں کہ ’آج بھی بہت سے سیاہ فام لوگ فورنزک اینتھروپولوجسٹ کا شعبے میں نہیں ہیں۔ ٹلسا کے واقعے میں یہ ایک نایاب موقع ہے کہ ایک سیاہ فام خاتون سیاہ فام لوگوں کی لاشوں کی مدد سے اُن کی کہانی سُنائے۔‘
اس واقعے کے سو سال بعد بھی امریکہ کی تاریخ میں نسل پرستی کا یہ بدترین واقعہ تھا۔
31 مئی 1921 کو پیش آنے والے اس واقعے میں سفید فام مشتقل ہجوم گرین وڈ کے سیاہ فام علاقے سے گزرا اور درجنوں سیاہ فام افراد کو قتل کرتا گیا۔ مکانات اور دکانوں کو لوٹ مار کے بعد نذر آتش کر دیا گیا۔ 16 گھنٹوں میں پورا علاقہ تباہ کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فیبی سٹبلفیلڈ 1998 سے تاریخ دانوں اور ماہرِ آثارِ قدیمہ کے ساتھ کام کر رہی ہیں تاکہ متاثرین کی لاشوں کو ڈھونڈا جا سکے۔
یہ کام کافی سست روی کا شکار رہا ہے۔ مگر دو سال قبل شمالی ٹلسل میں ایک قبرستان کی نشاندہی کی گئی جو کہ گرین وڈ کے قریب ہے۔ زمینی ریڈار کی مدد سے سائٹ کا سروے کیا گیا اور اکتوبر 2020 میں انھیں لکڑی اور انسانی ہڈیوں کا ایک مرکب ملا۔
’ہمیں تابوتوں کا ایک علاقہ ملا جہاں ہمیں کچھ شواہد ملے ہیں۔ میں نے وہ دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ ہم نے کسی کی قبر دریافت کر لی ہے۔‘
’ہمیں 12 تابوت ملے جو کہ ایک ساتھ دفن کیے گئے تھے۔ ان میں انسانی باقیات تھیں۔ لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہاں اور بھی لاشیں دفن ہو سکتی ہیں۔ یہ کوئی ایک قبر نہیں ہے بلکہ اجتماعی قبر ہے۔‘
ڈاکٹر سٹبل فیلڈ تو ان باقیات کو موقع پر ہی جانچنا چاہتی تھیں مگر یہ باقیات انتہائی نازک حالت میں تھے۔ اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ انھیں لے جا کر کسی ایسی جگہ پر رکھا جائے جہاں ماحول کنٹرولڈ ہو۔
ان باقیات کو زمین سے جون میں نکالا جائے گا۔ ڈاکٹر سٹبل فیلڈ کا کہنا ہے کہ وہ گولیوں کے نشانات کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کریں گی کہ کیا یہ لاشیں اسی واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سنہ 1921 میں بہت سے ایسے لوگ جو گولیوں سے مرتے تھے ان کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوتا تھا، اسی لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ گولیاں اُن کے جسم کے اندر ہی موجود ہوں گی۔
ڈاکٹر سٹبل فیلڈ کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی یہ ہو گی کہ ان لوگوں کے ناموں کے ساتھ ان کے لیے کوئی یادگار تعمیر کروا سکیں۔
لیکن انھیں خدشہ ہے کہ متاثرین کی ’براہ راست شناخت‘ ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ متاثرین کی نسل کو دانتوں سے نکلے ہوئے ڈی این اے کا تجزیہ کرکے تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر سٹبل فیلڈ یقینی طور پر یہ کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ’میرا کام کسی کے پیاروں کی کہانی ہے۔‘
گذشتہ کئی دہائیوں سے اس قتل عام کی کہانی بڑی حد تک تاریخ سے مٹا دی گئی تھی۔ سرکاری ریکارڈ کھو گئے یا تباہ ہو گئے ہیں، اس وقتکے اخبارات میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا اور سکولوں نے اس تاریخ کو پڑھایا نہیں۔
یہاں تک کہ بہت سے لوگ جنھوں نے ٹلسا میں پرورش پائی وہ بھی اس سے بے خبر تھے۔
ڈاکٹر سٹبل فیلڈ کے والدین وہاں پیدا ہوئے تھے لیکن انھوں نے اس کے بارے میں کبھی بات نہیں کی، حالانکہ اُن کی بڑی خالہ اس حملے میں اپنا گھر کھو بیٹھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’نسل پرستانہ قتل عام: اس پر کوئی بحث نہیں۔‘ ’بہت سی بُری چیزوں پر نہ صرف گفتگو نہیں کی گئی تھی بلکہ میرے خیال میں یہ اس فہرست میں تھا کہ ماضی میں کیوں رہا جائے؟‘
اور اس ماضی کا سامنا کرنا کوئی آسان کام نہیں رہا۔
’اوکلاہاما نے خود ہی اس واقعے کو چھپانے کی بہت کوشش کی، آئیے ان لوگوں کو صحیح طریقے سے یاد دلاتے ہوئے اسے مکمل طور پر دہرائیں۔‘
ٹلسا نسل کے قتل عام کو ایک صدی گزر جانے پر 31 مئی کو شمعیں روشن کر کے اور ایک یادگاری تقریب کے ساتھ منایا جائے گا۔
ٹیلی ویژن ایونٹ میں معروف شخصیات کو شامل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ نائب صدر کملا ہیریس اور سابق صدر بارک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔
ایوارڈ یافتہ تاریخ دان سکاٹ ایلس ورتھ کی ایک نئی کتاب ’دی گراؤنڈ بریکنگ، ٹلسا نسل پرست قتل عام اور ایک امریکی شہر کی تلاش برائے انصاف‘ بھی برسی کے مناسبت سے شائع کی جا رہی ہے۔
مشی گن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر نے تدفین کے ممکنہ مقامات کی نشاندہی اور ان کا پتہ لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور وہ کہتے ہے کہ تلاش جاری رہے گی۔
’مجھے اس بات کا یقین ہے کہ قتل عام کے متاثرین کو کم سے کم تین دیگر مقامات پر دفن کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ایک عینی شاہد ہے، ہمارے پاس سیاہ فام اور سفید فام برادری کی طرف سے دیے گئے بہت ٹھوس ثبوت ہیں اور ہمارے پاس تیسرے نمبر پر اچھی زبانی روایات ہیں۔۔۔ اور میں ڈاکٹر سٹبل فیلڈ کے سفر میں ہر قدم ان کے ساتھ ہوں گا۔
- امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں کیا کہا گیا اور کیا یہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟ - 25/04/2024
- چڑیا گھر میں سات سال تک نر سمجھا جانے والا دریائی گھوڑا مادہ نکلی - 25/04/2024
- امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ 61 ارب ڈالر کی عسکری امداد یوکرین کو روس کے خلاف کیسے فائدہ پہنچائے گی؟ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).