میں نے کرونا ویکسین کیوں لگوائی؟


بہت سارے لوگ کہیں گے کہ یہ کیا سوال ہے؟ ہر انسان ویکسین لگوا رہا ہے۔ اس میں کون سی خاص بات پوشیدہ ہے۔ لیکن میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ معاملہ اتنا سیدھا اور سادہ نہیں ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں اتنا نقصان بیماری یا وبا نہیں پہنچاتی جتنا اس کے ساتھ جڑے معاشرتی رویے نقصان پہنچاتے ہیں۔ تھوڑا سا ماضی میں جھانک کر دیکھیں، کرونا وبا کی پہلی لہر ہلاکت خیز تباہ کاریوں میں مصروف تھی اور ہمارے خود ساختہ سائنسدان، ڈاکٹر، حکیم بلکہ ہر مرض کا علاج رکھنے والے ماہرین کیسے پیاز، لہسن اور گرم پانی سے کرونا کا قلع قمع کر رہے تھے۔ ایسے دانشوروں کی کمی بھی نہیں تھی جو اسے یہودیوں کی عظیم سازش قرار دے رہے تھے۔

کرونا کے وار جاری رہے اور ہمارے معاشرے میں سازشی نظریات کی ترویج بھی جاری رہی۔ اللہ تعالی بھلا کرے کافروں کا جنہوں نے دن رات ایک کر کے کرونا کی ویکسین تیار کر لی۔ جہاں ہم اپنی ساری توانائیاں سازشی نظریات کی ترویج میں صرف کرتے رہے وہیں یورپ اور چائنا تحقیق کے عمل سے جڑا رہا۔ بالآخر وہ دن آن پہنچا جب دنیا میں عام آدمی کے لئے ویکسین دستیاب ہوئی۔ کچھ ممالک نے حکومتی خرچے پر ویکسین کی دستیابی یقینی بنائی اور کچھ میں پرائیویٹ طور پر بھی ویکسین کا عمل جاری ہے۔

پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اسے پہلے چین سے اور پھر یورپی یونین کی طرف سے ویکسین بطور عطیہ مل گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ویکسین خریدنا بھی شروع کر دی۔ سب سے صحت کے عملہ کو ویکسین لگائی گئی، ایک اندازہ کے مطابق ڈاکٹروں کی کثیر تعداد نے ویکسین لگوانے سے انکار دیا لیکن بعد میں آہستہ آہستہ ویکسین لگوانے کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر باری ساٹھ سال سے اوپر کے بزرگوں کی آئی اور آج رات کے آخری پہر سے 19 برس کے لوگ بھی ویکسین کے لیے رجسٹر ہو سکتے ہیں۔

سولہ مئی کو حکومت نے تیس سے چالیس سال کی عمر کے افراد کے لئے ویکسین کی رجسٹریشن شروع کی اور بندہ نا چیز نے رات بارہ بج کر ایک منٹ تک اپنی رجسٹریشن کرا لی۔ اسی دوران اپنے پڑھے لکھے دوستوں سے بات ہوئی تو کچھ نے کھلے الفاظ میں ویکسین لگوانے کی مخالفت کی اور یہ بھی تاکید فرمائی کہ اگر آپ نے ابھی بچے پیدا کرنے ہیں پھر تو ہرگز ویکسین نہ کروائیں۔ ویسے بھی یہ چالیس سال سے اوپر کے افراد کے لئے ضروری ہے اگر ہم کچھ عرصہ رک جائیں اور ویکسین کے ممکنہ سائیڈ افیکٹ بھی سامنے آ جائیں، دوست نے مزید تاکید کی۔

میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ویکسین ضرور لگوانی ہے چاہے اس کا نتیجہ جو بھی نکلے۔ جب ہم سر درد کے لئے ڈسپرین اور پیناڈول کھاتے ہیں اور بیمار ہونے کی صورت میں مستند ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو اس معاملے میں ہم کیوں ڈاکٹر کی بات نہ مانیں؟ ہم اپنے نومولود بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے ہیں تب وہ ویکسین ٹھیک ہوتی ہے لیکن کرونا کی ویکسین کارگر نہیں؟ سب سے اہم محرک یہ بھی تھا کہ اگر خدانخواستہ کسی نقصان کا اندیشہ بھی ہے تب بھی ہمیں ”پڑھے لکھے“ یا علمی دعوی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے بجائے ”جہالت“ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا اور دوسروں کا نقصان کر بیٹھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments