کتھئی گھوڑا


میرے کمرے میں دو گھوڑوں کی تصویر لگی تھی۔ میں نے تصویر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اماں ایک بات تو بتا“
بول۔ ”
”تو نے تو بتایا تھا محبت اپنی مرضی سے نہیں کی جاتی بلکہ ہوجاتی ہے۔“
کیا بیماری کی طرح
اور اماں ہنس پڑی تھیں۔
گہری ہنسی۔
”کچھ باتیں بتائی نہیں جا سکتیں“
میرا تجسس بڑھتا جاتا تھا۔
”اماں اچھی اماں بتا نا“
”راج دلاری ماں“
وہ بچوں کے ہوم ورک کی کاپیاں چیک کرر ہی ہوتی یا کبھی سلائئ
میں ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیتی تو وہ مجھے چوم لیتیں۔
میں ساری باتیں بھول کر اس کے قریب ہی سو جاتی۔
اس ایک بوسے سے شانتی میرے من میں اتر آتی۔ وہ اپنی انگلیوں سے مجھے تھپکتی جاتیں۔
اماں دھیرے دھیرے کچھ سمجھاتی رہتیں۔
آواز لوری بن کر مجھے سیریں کراتی رہتی۔
شاید مجھے سمجھاتیں کہ ذہن بہت خوبصورت چیز ہے اور میں آنکھیں بند کیے ذہن کی تصویر بناتی۔

ایک کتھئی رنگ کا چمکدار جلد والا تنومند گھوڑا جس کی گردن کے بال چمک رہے ہوتے ہنہناتا ہوا سامنے آتا شروع سے عقل کے نام پر ایک کتھئی بالوں والا گھوڑا ہی میرے ذہن میں آتا۔

جس دن میرا پرچہ ہوتا اس دن میرا گھوڑا بہت چوکس رہتا۔
جیسے جیسے اماں بولتی جاتیں تصویریں بدلتی رہتیں۔

میں تصور کے گھوڑے پہ جانے کہاں کہاں کی سیر کر آتی کبھی کبھی گھوڑا سفید گھوڑے میں بدل جاتا نیلے آسمانوں میں اڑتے بادلوں سے بھی اوپر بس اماں کی ایک بات یاد رہتی گھڑ سوار کو ہوشیار ہونا چاہیے ورنہ گھوڑاگرا دے گا اور میں زور سے مٹھی بند کرتی گویا میرے ہاتھ میں گھوڑے کی زین ہو۔

میں نے پربتوں کی شاہزادیاں، جھیل اور وادیاں سب اسی گھوڑے پہ بیٹھ کے تو دیکھی تھیں۔
جب میں اٹھتی تو اماں سارے کام کر چکی ہوتی۔
اماں میں کون سی پھرکی فٹ ہے میں اکثر سوچتی۔

کیا بڑی ہو کے میں بھی ایسی ہو جاؤں گی یا اپنی بلی کی طرح ہی رہوں گی دھیرے دھیرے چلتی ہوئئی کبھی کبھی لگتا یہ بلیاں بھی کسی شاہی نسل سے تعلق رکھتی ہیں کیا خراماں خراماں چلتی ہیں۔ مزے سے لمبی تان کے سوتی ہیں کسلمندی سے انگڑائیاں بھرتی ہیں۔ بس ماں بننے کے دنوں میں بڑی خوار ہوتی ہیں۔ اپنے بچوں کو بچانے کے لئے کیسی کیسی تدبیریں سوچتی ہیں منہ میں بچہ دبائے کس ذمے داری سے سات جگہیں بدلتی ہیں شاید ٹھکانہ بدلتی ہیں جیسے سیاستدان یا مجرم

یا صحت کی خاطر یا بچوں کی جان کی خاطر
میری ماں بھی میری ہوش میں آنے تک چوتھا ٹھکانہ بدل چکی تھی
بس ایک میری خالہ تھی اور ایک نانی جو ہمارے گھر کبھی کبھی آجاتی تھیں۔
خالہ نہ ہوتی تو میں جان نہ پاتی کہ میں اپنی ماں کی محبت کی نشانی تھی۔
سنا ہے میری ماں کو محبت ہو گئی تھی۔
مگر میرا باپ
مجھے اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔
نہ کوئئی کچھ بتاتا تھا۔
اماں مجھے چوم کے سلا دیتی تھی
خالہ نے مجھے صاف بتا دیا تھا کہ یہ راز تیری ماں ہی تجھ پہ کھولے گی۔
اور ماں۔

ہمارے گھر میں بہت سی بلیاں تھیں۔ اماں کو ان کے لئے بھی کھانا بنانا پڑتا ہمارے لئے دال اور سبزی بنتی تھی۔ کبھی کبھی ہم دو یا تین دن بھی گزار لیتے مگر ان کے لئے چھیچھڑے اور چکن ابالا جاتا تھا۔ ماں بلیوں کی خدمت کرتی تھی۔

پہلے پہل میرا کتھئی گھوڑا اور میں دونوں آسمانوں کی سیر کرتے تھے تاوقتیکہ وہ سفید گھوڑے میں بدل جاتا کبھی کبھار اس کی شکل انسانی ہو جاتی۔ کیاکتھئی گھوڑا عقل کا اور سفید جذبات کا گھوڑا تھا۔ پھر یہ دونوں الگ الگ ہو گئے۔

کتھئی گھوڑا بڑا چاق و چوبند اور غصیلا تھا۔
جبکہ سفید نرم اور چمکیلا

جیسے جیسے میں بڑی ہوئی میرے گھوڑے کے ساتھ ایک اور گھوڑانمودار ہوا بالکل میرے گھوڑے جیسا کالی کالی آنکھوں والا اور ایک دن اس پہ ایک شاہ سوار بھی نظر آیا۔

اس کی آنکھیں بھی اس کے گھوڑے جیسی ذہین تھیں جب مجھے دیکھتا میری آنکھوں کے سامنے بادل آ جاتے
کچھ دنوں میں میری خالہ نے میرا رشتہ مانگا
مگر میری ماں نے انکار کر دیا۔
وہ کہہ رہی تھی کہ میں اپنی بیٹی کو وہاں بیا ہوں گی جہاں اس کے ماضی کے بارے میں کسی کو معلوم نہ ہو۔
میں ٹھٹھک گئ
میرا ماضی؟
پھر میں نے عقل کے کتھئی گھوڑے کی سواری کی۔
میرے ہاتھ میں ایک چمڑے کی جلد والی پرانی سی ڈائری تھی۔
مجھے معلوم ہوا،

میں ایک وڈیرے کی بیٹی ہوں۔ اماں لاہور کالج میں پڑھتی تھیں۔ بے حد حسین تھیں۔ میرا والد اپنی بہن کو لینے آیا کرتا تھا۔ شاید میری پھپھو اور میری ماں آپس میں سہیلیاں ہوں۔ اس ڈائرئی سے کچھ باتوں کا انکشاف تو ہوا مگر تفصیلات درج نہ تھیں۔ کچھ مربوط واقعات تھے۔ کچھ میری والدہ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشعار۔ کہیں بے ربط جملے کئی صفحے آنسوؤں سے نشان زدہ۔ دونوں محبت کے گھوڑے پہ جذبات کی دنیا کی سیر کوکیسے نکل گئے۔ معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے نانی سے رابطہ ضروری تھا۔ میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ میں بہت کچھ جان چکی ہوں یہ سب جاننا میرا حق ہے میں نے ان کو قائل کر لیا۔

کیونکہ میں اپنے ماضی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔
ایک دو سوالوں کے جواب اور ان کی تفاصیل بتا دیجیے۔

اماں اور ابا بھاگ کے شادی کرنا چاہتے تھے۔ میں نے نانی سے پوچھا۔ ایسے ہی سمجھ لے تو آپ نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا

میں نے نانی سے پوچھا کہنے لگیں ”تیرے نانا حیات تھے اور بہت غصے والے جب تو ہونے والی تھی تو انہوں نے خود کو گولی مار لی تھی“

اوہ احساس ندامت سے میں بھیگ گئی۔
دادا کا کیا مسئلہ تھا؟

وہ آئے روز دھمکیاں لگاتا تھا۔ اس روز ان کا نکاح ہونے والا تھا۔ تم پیٹ میں آ چکی تھیں مگر تمہارے دادا نے غنڈے بھیج دیے۔ انہوں نے ہمیں دھمکایا کہ اگر تمہاری بیٹی نے میرے بیٹے کا پیچھا نہ چھوڑا تو ان دو نوں کو جان سے مار د وں گا۔

میں اس سے آگے سننے کی تاب نہیں رکھتی تھی۔ فون رکھ دیا نانی بلیوں کو کھانا دے دوں۔
وہ بولیں ”ہاں ہاں میری بھی نماز کا وقت ہونے والا ہے۔“
جانے میں ان کی جائز اولاد تھی یا ناجائز مگر میں ان کی محبت کی نشانی تھی۔

پھر میں اپنی ماں سے لپٹ کے خوب روئئی اس نے مجھے بتایا کہ نکاح والے روز وہ اپنے گھر سے وداع ہو گئی تھیں۔ پیا دیس نہیں بہت دور

اپنی ماں کی ایک سہیلی کے گھر وہ اس شہر سے دور ایک قصبے میں رہتی تھیں۔ ان کے مرنے کے بعد ماں نے وہاں سے بھی کوچ کیا۔

اسی لئے ٹھکانہ بدل لیتی تھی میری ماں۔
شاید دھمکیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہو۔ میں نتیجے پہ پہنچی۔
ایک روز ایک اجنبی ہمارے گھر آیا۔
وہ میری ماں سے لپٹ کے روتا رہا۔
میری ماں پتھر کی مورت بن کے بیٹھی رہی۔
یہ اجنبی میرا باپ تھا۔
وہ دھیرے دھیرے میری ماں سے کچھ کہہ رہا تھا میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا۔
”ابا کے مرنے کے بعد اب کوئئی مسئلہ نہیں رہا“
تو حویلی میں آکے بس میرے پاس۔ میں نے اپنی تینوں بیویوں کو سمجھا دیا ہے۔ سب سمجھتی ہیں۔
اب دوری نہیں رہی۔ بس ہاں کر دے۔ سارا بندوبست چٹکی میں ہو جائے گا۔ سارے شکوے دور کر دوں گا۔
میں نے دیکھا اماں کا چہرہ ضبط سے لال تھا۔ شاید اماں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو رہا تھا۔
اس اجنبی نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ مجھے گلے لگانے کی کوشش کی۔
میری ماں نے مجھے اشارے سے کمرے سے نکل جانے کے لیے بولا۔
مجھے آخری آواز اپنی ماں کی آئی۔
تمہارا یہاں کچھ نہیں ہے۔ جو تم دے چکے وہ بہت ہے۔
شیر دل میں تمہاری چوتھی بیوی بن کے نہیں رہ سکتی
مجھے اکیلے رہنا آتا ہے۔ میں کوئئی بلی نہیں ہوں۔ ماں کا لہجہ تلخ لیکن دھیما تھا۔
”میں عورت ہوں۔“
”تم اپنی پالتو بلیوں کے ساتھ وہاں آرام سے رہو میں اپنی بلیوں کے ساتھ یہاں آرام سے ہوں۔“

اس کے بعد اجنبی تھکے تھکے قدموں سے نا امید سا ہماری زندگی سے نکل گیا۔ میں اپنے باپ کو پہلی اور آخری بار دور جاتے دیکھتی رہی۔ ماں نے مجھے گلے سے لگایا اور چوما میں اس کے قریب ڈھیر ہو گئی۔

اس دن کے بعد میرے خوابوں میں سفید گھوڑا نہیں آیا۔ میں نے سفید گھوڑے پہ بھی کتھئی رنگ پھیر دیا۔
کتھئی گھوڑے کی سواری خوب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments