سیاسی مکس اچار بنانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے


ایک طویل عرصے تک پورے پاکستان میں ”جئے سندھ“ کا مطلب عام فہم زبان میں ”سندھی“ ہوا کرتا تھا۔ اپنے سیکنڈری اسکول گوانگ دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دو سالانہ اجتماعات میں شرکت کے موقعوں پر جمعیت کے وہ تمام ساتھی جن کا تعلق بلحاظ علاقہ و زبان سندھ سے ہوا کرتا تھا ان کو اکثر کئی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ان تمام سوالات کا تعلق جی ایم سید کی تحریک ”جئے سندھ“ سے ہی ہوا کرتا تھا۔ با الفاظ دیگر اہل سندھ کی دوسری بڑی پہچان جئے سندھ ہی بن گئی تھی اور کیونکہ جی ایم سید تحریک میں اس وقت کے پاکستان کے لئے سخت زبان کا استعمال عام تھا اس لئے پاکستان میں اس کی مخالفت کا پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ عام طور پر اہل سندھ جی ایم سید کے لئے اس وقت کوئی بہت غلط سوچ نہیں رکھا کرتے تھے اور اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو آج بھی ”جئے سندھ“ کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہونے کے باوجود جی ایم سید کے پاکستان مخالف لگائے گئے پودے کی جڑیں بہر لحاظ کمزور بھی نہیں۔

پی پی کی تشکیل اور مقبولیت کے بعد بظاہر وہ عناصر جن کو پاکستان سے اپنی محرومیوں کا گلہ ہے، وہ کافی حد تک پس پردہ چلے گئے لیکن یہ خیال کر لینا کہ عوام کے دلوں سے جی ایم سید کا نظریہ بالکل ہی ختم ہو چکا ہے، درست نہ ہوگا۔ پی پی کی مقبولیت کی وجہ سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی پی جئے سندھ پر چھا سی گئی ہے لیکن شاید آنے والے دور میں یا تو پی پی از خود ”جئے سندھ“ کی فوٹو اسٹیٹ کی شکل اختیار کر لے گی یا پھر سندھ کی کوئی بھی قوم پرست جماعت سندھ کی قائد بن کر ابھر جائے گی۔

پی پی کے جئے سندھ پر برتری حاصل کر لینے کی سب سے بڑی وجہ یہ بنی تھی کہ وہ پورے وفاق کی نمائندہ پارٹی کے روپ میں سامنے آئی تھی جس کی وجہ سے اہل سندھ کو اپنے اپنے علاقوں سے باہر نکل کر کام کرنے اور ملازمتوں کے مواقع ملے اور وہ افراد جو سندھ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے وہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر محکمے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جئے سندھ کے ابھر نے یا قوم پرست عناصر کو دوبارہ جڑ پکڑنے کے جو خدشات پیدا ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ پی پی آہستہ آہستہ سندھ تک محدود ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ دیگر صوبوں میں بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت اور ہر انتخاب میں مسلسل ناکامیاں کسی وقت بھی قوم پرست جماعتوں کو ابھرنے یا خود پی پی کو سندھ کارڈ کھیلنے کا موقع فراہم کر سکتی ہیں جو پاکستان کے لئے کوئی مثبت اشارہ نہیں ہو سکتا۔

اگر باریکی سے غور کیا جائے تو پاکستان آہستہ آہستہ علاقائیت اور لسانیت کی لپیٹ میں آتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں بھی وفاقی پارٹیوں کی بجائے اپنی اپنی لسانی اکائیوں میں محدود ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

جس طرح تحریک انصاف ”ن“ کے لئے پنجاب میں ایک بڑا خطرہ ہے اسی طرح سندھ میں پی پی کے زور کو توڑنے کے لئے 2013 تک ایم کیو ایم ہی وہ واحد پارٹی تھی جو پی پی کے بے لگام ہونے میں بڑی رکاوٹ تھی لیکن بد قسمتی سے ریاستی پالیسی نے ایم کیو ایم کو متعدد بار غلط استعمال کر کے اور آخر میں غیر دانشمندانہ آپریشن کے ذریعے، اس کے سندھ میں مثبت کردار کو سامنے آنے ہی نہیں دیا۔ پارٹی کے غیر پسندیدہ عناصر کو قابو میں کرنے اور ان کو قرار واقعی سزا دینے کی بجائے ایک جانب پوری پارٹی ہی کو متعدد بار توڑ دینے جیسے اقدامات اور دوسری جانب ان ہی غیر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے عمل کی وجہ سے سندھ کی ایک ایسی پارٹی جو پی پی کی بلا شرکت غیرے سیاسی اکثریت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی تھی، اس کا سیاسی تشخص ہی ختم کر دیا گیا جس کے نتائج ایک جانب بہت بڑی نسل کشی کا سبب بن سکتے ہیں تو دوسری جانب پی پی کی واضح اکثریت بھی پاکستان کے لئے کوئی اور کہانی کا رخ اختیار کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ امید تھی کہ شاید پی ٹی آئی پیدا ہونے والے اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن کراچی کی حد تک ان کی مقبولیت کا گراف جس تیزی کے ساتھ زمین کی جانب آیا ہے، ایسا کم ہی ہوتا دیکھا گیا ہے۔

وفاق کی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے والی دو بڑی پارٹیوں کا تیزی کے ساتھ اپنے اپنے لسانی صوبوں کی جانب سمٹتے جانے میں بے شک خود ان کی غلط پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا بڑا دخل رہا ہے لیکن یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ اس میں دیگر عوامل کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے اور یہی عمل دخل شاید اب اس مقام کو چھو گیا ہے جہاں سے سیاسی استحکام کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ تمام طاقتیں جو کافی مدت سے پس پردہ رہ کر کوئی ایسی راہ نکالنے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک جمہوری مملکت کے طور پر پیش کیا جا سکے، سامنے آ جائیں اور ملک کو اس وقت تک کسی جمہوریت کی جانب مت جانے دیں جب تک صحیح معنوں میں کسی عوامی قیادت کو سامنے نہ لایا جا سکے۔

پاکستان میں سیاسی ”مکس اچار“ والی حکومتوں کے سارے تجربے ناکام ہو چکے ہیں اور اب ریاست کسی بھی قسم کے نئے تجربے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اب آم کا ہو یا کسی اور پھل یا سبزی کا، ہر اچار کو خالص ہی رہنے دیا جائے اور بجائے سب کو خلط ملط کرنے کے، سب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے پر زور دیا جائے تو شاید ریاست میں خوشحالی لوٹ کر آ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments