مافیا ہتھکنڈوں کی نہیں، سیاست سیکھنے کے ضرورت ہے


ایک ریفرنس میں سزا پانے کے بعد شریف فیملی کے وکلاء نے نئے جج پر اصرار کیا۔ جج ارشد ملک نے مقدمہ سنا اور میاں صاحب کو ایک معاملے میں بری کرتے ہوئے دوسرے میں سزا سنا دی۔ جیل میں سزا کاٹتے ہوئے میاں صاحب ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے تو فیملی کے وکلاء سپریم کورٹ پہنچ کر میاں صاحب کی ضمانت پر رہائی کے ملتجی ہوئے۔ سپریم کورٹ نے قیدی کی ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کچھ ہفتوں کے لئے جیل سے نکال کر اسے جاتی عمرہ اس کی رہائش گاہ بھجوا دیا۔

جولائی 2019 ء میں مریم نواز صاحبہ نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو چلائی جس میں جج ارشد ملک یہ اعتراف کرتے ہوئے دکھائے گئے کہ انہوں نے نواز شریف کو سزا دباؤ کے تحت سنائی تھی۔ مریم صاحبہ نے بظاہر مقتدر حلقوں کو مخاطب کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ ’شرارت‘ کرنے کی کوشش کی تو ان کے پاس اس طرح کی اور بھی ویڈیوز ہیں۔ دوچار ہیجان خیز دنوں کے بعد جج صاحب نے ایک بیان حلفی میں متعدد انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ ان پر دباؤ کسی اور کی طرف سے نہیں، خود شریف فیملی کی طرف سے تھا۔

جج صاحب نے بتایا کہ اس دوران جبکہ میاں صاحب جاتی عمرہ رہائش گاہ پر اپنا ذہنی دباؤ کم کرنے میں مصروف تھے تو جج صاحب کو ان کے حضور پیش کیا گیا تھا۔ اس پیشی کے دوران ہونے والی گفتگو جج صاحب نے اپنے بیان حلفی میں لکھ چکے ہیں۔ جج صاحب نے اسی بیان حلفی میں ملتان تعیناتی کے دوران اپنی ایک نا گفتہ بہ ویڈیو کا حوالہ دیا، جو ان کے مطابق ناصر بٹ نامی شخص نے شریف فیملی کے معاملات میں انہیں بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کی۔

اسی بیان حلفی میں جج صاحب نے دعویٰ کیا کہ نا صرف ناصر بٹ نے انہیں کثیر غیر ملکی کرنسی کی شکل میں رشوت کچھ ’خاص خدمات‘ کے بدلے میں پیش کی تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ پر کشش ’آفر‘ نواز شریف کے صاحبزادے حسن نوازنے انہیں سعودی عرب طلب کر کے مسجد نبوی کے اندر بیٹھ کر کی تھی۔ مریم نواز کی جانب سے پیش کی گئی مذکورہ ویڈیوز کی اصلیت ثابت کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آنے پر تحقیقاتی ادارے حرکت میں آئے تو جج صاحب کی ’اعترافی‘ ویڈیوز بنانے اور بنا کر مریم نواز صاحبہ کے حوالے کرنے والے ناصر بٹ صاحب ملک سے فرار ہو گئے۔

سوالنامہ ملنے پر مریم نواز نے بھی ویڈیوز سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس بابت ناصر بٹ سے ہی پوچھا جائے۔ جج ارشد ملک کسمپرسی کے عالم میں دسمبر 2020 ء کی کسی اداس شب کرونا میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آخری دم تک مریم نواز کی طرف سے پیش کردہ ویڈیوز میں کی گئی جعل سازی اور اپنے بیان حلفی کے ہر ایک جز کی صداقت پر قائم رہے۔ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ کسی بھی بناء پر مرحوم جج صاحب کسی ایک کمزور لمحے میں اپنے اوپر مبینہ ’دباؤ‘ کا الزام پاکستان کے اداروں یا ان میں سے کسی ایک اہم شخصیت یا شخصیات پر دھر دیتے۔ شریف فیملی اور میڈیا میں ان کے ’ہمدرد‘ اب تک کیا قیامت برپا کر چکے ہوتے! آج یقیناً حالات یکسر مختلف ہوتے۔

ناصر بٹ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کو اس وقت سے مطلوب ہیں اور آج کل لندن میں میاں صاحب کے پہلو میں ہمہ وقت دیکھے جا سکتے ہیں۔ کئی ماہ کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر ناصر بٹ کا نام ایک ویڈیو کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔ 21 مئی بروز جمعرات لندن میں موجود میاں صاحب کے ساتھ مستقل نظر آنے والے دو بڑے میڈیا ہاؤسز سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والے مخصوص ’نامہ نگاروں‘ نے، جو عموماً ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے دروازے پر دیکھے جاتے ہیں، اپنے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹس پر لکھا کہ چند مسلح افراد نے میاں صاحب پر ’قاتلانہ حملہ‘ کیا ہے۔

شریف فیملی کے ایک اور کارندے نے ایک ویڈیو پوسٹ کی کہ جس میں ایک سیاہ فام شخص بغل میں فائل دابے ناصر بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے، جبکہ تین نقاب پوش عقب میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس ویڈیو کے موصول ہوتے ہی مریم نواز صاحبہ نے پہلے اردو اور پھر انگریزی زبان میں اسی قطعیت کے ساتھ ٹویٹس داغے کہ جس سرد اعتماد کے ساتھ انہوں نے جج ارشد کی ویڈیو پہلی بار پریس کانفرنس میں دکھائی تھی۔ اردو ٹویٹ میں انہوں نے نواز شریف کی ’زندگی سے کھلواڑ‘ کا الزام انہی پر رکھا کہ جنہوں نے ’کراچی میں ان کے ہوٹل کا دروازہ توڑا‘ تھا۔

انگریزی ٹویٹ تاہم ’بین الاقوامی آنکھوں اور کانوں‘ کے لئے تھی کہ جس میں انہوں نے نواز شریف کو ’پاکستانی عوام کی آواز‘ قرار دیتے ہوئے ’سیاسی فرسٹریشن‘ کا شکار دشمنوں کو متنبہ کیا کہ مجرمانہ ہتھکنڈوں سے ’اس آواز خاموش‘ نہیں کیا جا سکتا۔ شریف فیملی کے ایک حواری جو اس فیملی کے دور حکمرانی میں چیئر مین پیمرا جیسے اہم عہدے پر فائز رہے، موقع غنیمت جان کر اپنے ہی ملک پر حملہ آور ہو گئے۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے دانشوری بگھاری کہ پاکستان انہی وجوہات کی بناء پر فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔

نواز شریف پر ’قاتلانہ حملے‘ کو کئی روز گزر چکے ہیں۔ متعدد پاکستانی صحافی سراسر جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی بھونڈی اور بے ہودہ سازش کو پوری طرح بے نقاب کر چکے ہیں۔ لگ بھگ دس روز ہو نے کو آئے ہیں، شریف فیملی کی طرف سے اس واقعے پر مزید کوئی ٹویٹ یا وضاحت دیکھنے کو نہیں ملی۔ فیملی یا اس کے کا رندوں کی طرف سے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پاکستانی اداروں کی عملداری کے باہر، لندن پولیس جدید ترین سی سی ٹی وی نظام کے باوجود نواز شریف پر ’قاتلانہ‘ حملہ کرنے والوں کو اب تک کیوں گرفتار نہیں کر سکی۔

میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی عدالتوں سے سے سزا یافتہ اور انتخابی سیاست کے لئے نا اہل ہیں۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ باپ بیٹی اپنی بقا نظام کی تباہی اور افراتفری (Chaos) میں دیکھ رہے ہیں۔ ’لندن تو کیا، پاکستان میں بھی میری کوئی پراپرٹی نہیں،‘ سے شروع ہونے والا مریم نواز کا مختصر سیاسی سفر جعلی ٹرسٹ ڈیڈ اور جعلی ویڈیو سکینڈلز سے ہوتا ہوا انہیں اس مقام پر لے آیا ہے کہ جہاں سے واپسی ان کے لئے ممکن نظر نہیں آتی۔

افسوس کہ کردار و گفتار میں وہ اپنے والد کے سائے سے باہر نہیں نکل سکیں، چنانچہ ایک متین، با وقار اور دیانت دار سیاستدان کی شہرت پانے سے محروم رہ گئی ہیں۔ ان کا ٹویٹر کبھی کئی ہفتوں خاموش تو کبھی اچانک آگ اگلنے لگتا ہے۔ یقیناً اس کے پیچھے ’نظریاتی‘ محرکات نہیں بلکہ کسی ’رعایت‘ ملنے کے ڈوبتے ابھرتے امکانات کار فرما ہوتے ہیں۔ اب تو زاہد حسین جیسے مدبر تجزیہ کار نے بھی کہ جنہیں ہر گز عمران حکومت کا حامی نہیں کہا جا سکتا، ’ڈان‘ اخبار میں اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ مریم نواز کی سیاسی عدم بلوغت ہی مینار پاکستان کے سائے میں پی ڈی ایم کی وفات کا باعث بنی۔ چنانچہ پارٹی کو آئندہ انتخابات کی جانب لے جانے کے لئے ہی اب شہباز شریف میدان میں اترے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments