تاریخ و فلسفہ کے تراجم میں مترجم کا کردار


 

لوگ دوسری زبانوں کا ترجمہ کرنے کے عمل میں اپنی زبان کو وسعت دیتے اور حتیٰ کہ ایک نئی شناخت کی حامل زبان بھی بناتے ہیں۔ ترجمے کے عمل نے پورے پورے علاقوں کے عقائد اور مذاہب تبدیل کر ڈالے۔ ذرا سوچیں کہ چوتھی صدی میں فاہیان اور پھر ساتویں صدی میں ہواین تسانگ نے ہندوستان کے سفر کے بعد جو تحریریں ترجمہ کر کے چین میں منتقل کیں انھوں نے کیسے ان کا مذہب بدلنے کے علاوہ علامات اور اصطلاحات کا ایک پورا نظام بھی متعارف کروایا ہو گا۔

بدھ، شکتی، دکھ، چکر جیسے الفاظ اور علامات نے ان کے سوچنے کے ڈھنگ پر کیسے اثر ڈالا ہو گا! تراجم کی اہمیت کے بارے میں تو اکثر بات کی جاتی ہے۔ میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ترجمہ ہی وہ اہم ترین کڑی ہے جو ایک تہذیب اور آبادی کو دوسری کے ساتھ منسلک کرتی ہے۔ کیا ہندوستان کے لوگوں نے فارسی اور عربی کی تحریروں کے تراجم کرنے کے عمل میں اردو زبان نہیں تخلیق کر ڈالی؟ مترجم زبان کو تازگی دینے کے ساتھ آزادی بھی دلاتا ہے۔

اور یہ کام سب سے زیادہ تاریخ، سوشیالوجی، فلسفہ اور تنقیدی کتب کے تراجم میں انجام پاتا ہے۔ آپ نے کبھی کبھی ٹیلی وژن پر سربراہان مملکت کی ملاقاتوں میں خدمات انجام دینے والے مترجمین یا interpreters کو دیکھا ہو گا۔ وہ صرف طاقت کا وسیلہ ہوتے ہیں نہ کہ خود کوئی طاقت رکھتے ہیں۔ اور شاید ٹیکسٹ کا ترجمہ کرنے والے مترجمین بھی ایک حد تک اسی بے طاقتی سے متصف ہوتے ہیں۔ لیکن ترجمہ کرنے کا عمل انھیں با اختیار اور نہایت متاثر کن بنا دیتا ہے۔

ایک مثال بالفور ڈیکلیریشن کی دی جا سکتی ہے۔ یہ پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی حکومت کا جاری کردہ عوامی بیان تھا جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک ”نیشنل ہوم ”کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ فرانسیسی مترجم نے ترجمے میں foyer national لکھا۔ foyer لفظ hearth یعنی چولھا چوکا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ عبرانی کے لفظ بیت کا ترجمہ تھا۔ نتیجتاً خارجہ سیکرٹری لارڈ کرزن اور اس کے فرانسیسی ہم مقام برتھولٹ کے درمیان کافی بحث اور تکرار ہوئی اور دونوں اپنی اپنی جگہ اڑے رہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بعد ازاں نیشنل ہوم نے ہوم لینڈ یعنی وطن کا مفہوم اور ترجمہ اختیار کر لیا جس کا نتائج ہم آج کل بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایک اور نہایت دلچسپ مثال حضرت موسیٰ کے احکامات عشرہ میں سے چھٹے حکم کا ترجمہ ہے۔ انگلش میں اسے دو طرح سے کیا جاتا ہے : You shall not murder اور You shall not kill۔ اگر اسے اردو میں ترجمہ کیا جائے تو یوں بنتا ہے : تم قتل نہ کرنا، یا پھر تم ہلاک نہ کرنا۔ ایک اور ترجمہ ”تم خون نہ کرنا ”بھی کیا گیا ہے۔

بہرحال خون کرنا اور ہلاک کرنا ہم معنی ہیں، کیونکہ یہ دونوں ہی ایک گناہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کی سزا آسمان پر یا اگلے جہاں میں ملے گی، جبکہ ”قتل کرنا ”ایک جرم ہے جس پر قبیلے یا ملک کا قانون عائد ہوتا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 32 میں بھی آیا ہے کہ ”جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے ) بغیر قتل کیا یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا۔ ”غور کرنا چاہیے کہ یہاں قصاص کا حوالہ دے کر قتل کا ذکر ہو رہا ہے، نہ کہ ہلاکت کا۔

یہ مروۃ کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔ بہرحال ابھی جن جملوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان کے ترجمے کی مختلف صورتیں بھی مل جائیں گی، اور اختلاف تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ ان دو مثالوں کو مدنظر رکھا جائے تو بالخصوص تاریخ، فلسفہ اور سماجی موضوعات سے متعلقہ کتب پر کام کرتے ہوئے مترجم کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے، اور مارٹن ہیڈگر کا یہ جملہ زیادہ بامعنی ثابت ہوتا ہے کہ ”انسان یوں ظاہر کرتا ہے جیسے وہ زبان کی تشکیل کر رہا ہو، جبکہ ہوتا اس کے برعکس ہے۔

” ماضی میں ہمارے جوشیلے مترجمین نے بالخصوص مذہبی کتب کا ترجمہ کرتے ہوئے بہت سے لفظوں اور بیانیوں کو اردو زبان میں رواج دیا۔ مثلاً ”کشتوں کے پشتے لگا دیے،“ ”دشمن کو سبق سکھا دیا، ”“ انصاف کا بول بالا کیا ”وغیرہ جیسے تاثرات یا جملے کثرت سے استعمال کیے گئے۔ اس کے علاوہ ”ناکوں چنے چبوا دیے ”یا“ سر جھکانے پر مجبور کر دیا ”جیسے تاثراتی جملے بھی ایک خاص فریق کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ (آج کل میڈیا کے اینکروں نے تو اسے ایک اور ہی درجے پر پہنچا دیا ہے اور کرکٹ میچ کی خبروں میں بھی پورا نسیم حجازی بیانیہ مل جائے گا۔)

دوسری طرف ناپسندیدہ شخصیات اور ان کے افعال کو بیان کرنے کے لیے بھی ظالم، سفاک، بے رحم جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں جب آپ ترجمے میں اپنی جانب سے ایسا کچھ اضافہ یا رد و بدل کرتے ہیں (مقصد خواہ کچھ بھی ہو) تو بے ایمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مخالف نظریے یا قومیت کے حامل شخص کی تاریخ بیان کرتے وقت اسے واصل جہنم کیا جاتا ہے، جبکہ من پسند شخصیت کے لیے رفیع الشان الفاظ چنے جاتے ہیں۔

ایسے تراجم ذہن کو کھولنے اور سوچنے پر مجبور کرنے کی بجائے سوچنے کے فرسودہ ڈھنگ کو ہی تقویت دیتے ہیں۔ جب مترجم Aurangzeb died کا ترجمہ کرتے وقت لکھے گا کہ ”اورنگ زیب عالمگیر دار فانی سے کوچ کر گئے، یا رحلت فرما گئے یا راہی ملک عدم ہوئے ”تو وہ سنگین بددیانتی کا مظاہرہ کرے گا۔ مثال کے طور پر مقدمہ تاریخ ابن خلدون کا ترجمہ دیکھ لیں۔ فاضل مترجم نے حواشی دینا تو بہت دور کی بات ہے، اصل متن کو ہی موجودہ پاکستانی ذہنی تناظر میں مجرمانہ قطع و برید کا نشانہ بنایا۔

مثلاً پہلے باب میں اس کا نظریہ ارتقا برے طریقے سے مترجم کی زد میں آیا۔ جبکہ آپ فرانز روزنتھال کا کیا ہوا انگلش ترجمہ دیکھیں تو چار پانچ ہزار حواشی بھی ملیں گے۔ دوسری طرف تاریخ جریر الطبری کی پوری ایک پہلی جلد حذف کر دی جس میں وہ تخلیق کائنات کے متعلق اپنے اساطیری خیالات بیان کرتا ہے۔ لیکن اس قسم کی بے ایمانیوں کے علاوہ کچھ کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ول ڈیورانٹ کی سٹوری آف سویلائزیشن کی پہلی جلد میں سے ہندوستان والے حصے کا ترجمہ ہے۔

اس کے مترجم نے سنسکرت اصطلاحات اور ہندی اسماء کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے یوگ کے ایک مکتب فکر پورو میمامسا کو پورنماشی، آشرم کو اشراما، ونیہ پٹک کو وینا پیتاک لکھنے جیسی بیسیوں خرابیاں پیدا کیں۔ ہمارے ہاں ایک اور بہت بڑا مسئلہ ایڈیٹر اور باصلاحیت پروف ریڈر کا قطعی فقدان اور پبلشر کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے۔ ایڈورڈ سعید کی Culture and Imperialism کا ترجمہ میں نے مقتدرہ قومی زبان کے لیے کیا جس میں دو سو سے زائد جگہوں پر حوالے دیے گئے تھے اور آخر میں آٹھ صفحات پر مشتمل حوالے دیا جانا تھے۔

جب کتاب چھپ کر آئی تو پتا چلا کہ انیسویں گریڈ کے انچارج افسر نے آخری آٹھ صفحات ہی شامل نہ کیے تھے۔ جب ان سے کہا گیا کہ ابھی پوری کتاب تیار نہیں ہوئی، یہ صفحات بھی شامل کر دیں تو جواب ملا کہ ”چھوڑیں یار، حوالے کون پڑھتا ہے۔ ”وہ کتاب آج تک ویسے ہی چھپ رہی ہے، اور شاید چھپتی رہے گی کیونکہ ہمارے ہاں ادارے یا پبلشر چھپے ہوئے ٹیکسٹ کو آئندہ ایڈیشنز میں بہتر بنانے کے خلاف ہیں۔ اگر کوئی تبدیلی لائی جاتی ہے تو بس یہ کہ ترجمے کے پیسے بچانے کی خاطر کسی اردو ترجمے کے الفاظ میں تھوڑا رد و بدل کر کے فرضی مترجم کے نام سے چھاپ دیا جاتا ہے۔

آخر میں چند ضروری باتیں بیان کرتا چلوں۔ میرے خیال میں تاریخ، فلسفہ اور سماجی موضوعات پر تحریروں کے مترجم کو ایمان داری اور غیر جانب دار اسلوب اپنانے کے ساتھ ساتھ تحریر کے تہذیبی پس منظر سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ اصطلاحات یا ناموں کا درست تلفظ یا ترجمہ اگر مشکوک ہو تو انگلش تلفظ بھی دینا چاہیے، یا حواشی میں وضاحت کرنی چاہیے۔ فرہنگ اصطلاحات دینا بھی بہت مفید ہوتا ہے۔ اپنے ذاتی نظریاتی مسائل اور نظریہ دنیا کو الگ رکھنا چاہیے۔ ان سب باتوں کے حوالے سے سکھانا اور سمجھانا اصولاً اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے، اور اگر ہمیں یہ باتیں کہیں نظر آتیں تو اس کا الزام بھی اساتذہ کو ہی جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments