بچوں میں اے ڈی ایچ ڈی: عدم توجہی، اضطراریت اور بے قراری کا عارضہ


ہم میں سے سب ہی بھائی بھلکڑ سے واقف ہیں۔ شان الحق حقی کی یہ نظم پاکستان میں بچوں کو ابتدائی کلاسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔

بھائی بھلکڑ
دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ
باتیں ساری ان کی گڑ بڑ
راہ چلیں تو رستہ بھولیں
بس میں جائیں، بستہ بھولیں
ریل میں جب یہ حضرت بیٹھیں
چار اسٹیشن آگے اتریں
ٹوپی ہے تو جوتا غائب
جوتا ہے تو موزہ غائب
پیالی میں ہے چمچا الٹا
پھیر رہے ہیں کنگھا الٹا
لوٹ پڑیں گے چلتے چلتے
چونک اٹھیں گے بیٹھے بیٹھے
سودا لے کر دام نہ دیں گے
دام دیے تو چیز نہ لیں گے۔

عدم توجہی کو بیان کرتی یہ نظم شاعر کے گہرے مشاہدے کا ثبوت ضرور ہے لیکن اسے مزاحیہ رنگ دے کر پڑھایا جانا معاشرے میں بچوں کے ایک سب سے عام عصبی عارضہ سے ناواقفیت اور بے حسی کا اظہار ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی

اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹوٹی ڈس آرڈر کی شرح مختلف ممالک میں مختلف بیان کی جاتی ہے امریکہ میں بیماریوں کے مرکز سی ڈی سی کے مطابق 9 اعشاریہ 4 فیصد بچے جبکہ برطانوی قومی ادارۂ صحت این ایچ ایس کے مطابق یہ تناسب 3 سے 5 فیصد تک ہے۔ بچیوں کی بہ نسبت لڑکوں میں یہ زیادہ عام ہے۔ برطانوی صحت عامہ حکام کا خیال ہے کہ اس انتشار کی تشخیص اور علاج کی شرح اصل متاثریں سے کئی گنا کم ہے جس کی وجوہات میں والدین اور معاشرے میں اس بابت شعور کی کمی اور ناکافی طبی و نفسیاتی سہولیات ہیں۔

یاد رہے کہ یہاں بات برطانیہ کی ہو رہی ہے جہاں کا نظام صحت کافی ترقی یافتہ اور مفت ہے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ نظر انداز کرنے سے عدم توجہی شدید ذہنی امراض مثلاً ڈپریشن، انگزائٹی، نشہ کی عادت، کھانے کے امراض، خود کو ایذا رسانی، خودکشی اور شخصیاتی عوارض کا سبب بنتا ہے۔ ان افراد کا جذباتی اتار چڑھاؤ دوست بنانے، رشتے نبھانے، شادی برقرار رکھنے اور مستقل مزاجی سے نوکری کرنے میں بار بار خلل ڈالتا ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی کیا ہے

یہ طرز عمل کا انتشار ہے جس کا آغاز بچپن سے ہوجاتا ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں :

1۔ عدم توجہی ان اٹینٹونیس

اس کی کچھ نشانیاں مندرجہ ذیل ہیں :
ایک طرف توجہ رکھنے سے قاصر ہونا، بار بار دھیان ادھر ادھر ہو جانا۔
لاپرواہی سے غلطیاں کرنا مثلاً اسکول کے کام کرتے ہوئے۔
اکثر بھول جانا اور اپنی چیزیں کھو دینا۔
ایسے کام چھوڑ دینا جن کے لئے ذہنی ریاضت اور وقت درکار ہوں۔
واضح ہدایات سن کر بھی ان پر عمل نہ کرنا۔
مسلسل اپنی مصروفیت، دلچسپی اور ٹاسک بدلتے رہنا۔
کاموں کو منظم کرنے میں دشواری محسوس کرنا۔

2۔ اضطراریت اور بے قراری امپلسیوٹی ہائپر ایکٹیوٹی۔

نچلے نہ بیٹھنا بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں اردگرد باقی افراد سکون سے بیٹھے ہوں۔
مسلسل چلبلا پن۔
درپیش کام پر توجہ مرکوز نہ کر پانا۔
مسلسل ہلتے جلتے رہنا۔
مستقل اور تیز رفتاری سے بولتے رہنا۔
اپنی باری کا انتظار نہ کرنا۔
بغیر سوچے سمجھے کر گزرنا۔
دوسروں کی بات کاٹنا۔
نتائج اور خطروں کا بالکل خیال نہ ہونا۔
بچیوں میں خیالی پلاؤ پکانا اور ذہنی آوارہ گردی ایک اہم علامت ہے۔
کچھ لوگوں میں صرف عدم توجہی یعنی اٹینشن ڈیفیسٹ ڈس آرڈر ہوتا ہے۔

تشخیص کی کسوٹی

درج بالا علامات جب اس نہج پر پہنچ جائیں کہ عمر کے مطابق عام فعالیت یا نمو متاثر ہونے لگے جیسے :
چھ ماہ یا زیادہ عرصے تک چھ سے زائد علامات کا برقرار رہنا
بڑے بچوں میں پانچ یا زائد علامات کا ہونا
12 سال کی عمر کے بعد بھی علامات کم نہ ہونا
ان علامات کا دو یا زائد مختلف ماحول یعنی گھر، اسکول اور کام کے مقام پر پایا جانا۔
تشخیص پر اے ڈی ایچ ڈی کا لیبل چسپاں کرنے کے لئے کم ازکم 6 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے

طبی مداخلت کرنے سے پہلے یہ یقین ہونا ضروری ہوتا ہے کہ ان علامات سے سماجی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ افعال کی انجام دہی میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی سے جڑے دیگر عوارض

عدم توجہی کے شکار بچوں میں مندرجہ ذیل کیفیات بھی بروقت موجود ہو سکتی ہیں :
انگزائٹی یعنی ہمہ وقت تشویش کا شکار رہنا۔

ضدی سرکش رویے کی بیماری اپوزیشنل ڈی فائنس ڈس آرڈر جس میں بچے مسلسل منفی اور خلل انگیز برتاؤ کا اظہار کرتے ہیں بالخصوص بالادست افراد جیسے اساتذہ اور والدین کے ساتھ۔

طرز عمل کے مسائل مثلاً سماج دشمنی، چوری چکاری، لڑائی، توڑپھوڑ، انسان یا جانوروں کو ایذا دینا۔
ڈپریشن، بے خوابی، آٹزم، مرگی۔

ٹورٹ سنڈروم۔ ایک اعصابی مرض جس میں غیر ارادی اور اضطراری طور پر بار بار ایک ہی قسم کی حرکت یعنی ٹک سرزد ہوتی ہے، کچھ بچے عجیب آوازیں نکالتے ہیں۔

سیکھنے کی صعوبت لرننگ ڈس آرڈر جیسے ڈس لیکسیا لکھے الفاظ نہ پڑھ پانا، ڈس پرایکسیا یعنی جسمانی ہم آہنگی نہ ہونا، ڈس کیلکلیا آسان حساب بھی نہ سمجھ پانا۔

اے ڈی ایچ ڈی کے اسباب

عدم توجہی کے اصل سبب کا اب تک تعین نہیں ہوسکا لیکن مندرجہ ذیل عوامل کا اس میں کردار سامنے آ چکا ہے :

جینیات
بعض خاندانوں میں عدم توجہی خاندانی طور پر پائی جاتی ہے۔

دماغ کے افعال اور ساخت

اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ افراد کے دماغوں میں کچھ حصے نسبتاً چھوٹے اور کچھ بڑے پائے گئے ہیں۔ اس کی کتنی اہمیت ہے اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔

کن افراد میں خطرہ زیادہ ہے

قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے، مرگی کے مریض، دماغی چوٹ چاہے وہ رحم مادر میں ہوئی ہو یا سر پر شدید چوٹ لگنے سے۔

بچوں میں اے ڈی ایچ ڈی کی شناخت کے مراحل

اسکول کے اساتذہ اور خود والدین کو بچوں کے عمومی ذہنی مسائل کا ادراک ہونا اور ایسے بچوں کی جانب ہمدردانہ، مشفقانہ سوچ کا عام ہونا ازحد ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسکول کے اساتذہ کو بچوں میں پائے جانے والے عام ذہنی و جسمانی مسائل اور ان سے متعلقہ خصوصی تعلیمی ضروریات کے لازمی کورسز کروائے جاتے ہیں۔ عدم توجہی جیسے امراض کی بروقت تشخیص اور معالجے میں والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔

عارضے کا شبہ یا اسکول سے شکایات موصول ہونے پر والدین اپنے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں جو بچے کے گھر اور اسکول میں برتاؤ کے جائزے کے لئے الگ الگ تفصیلی سوالنامے والدین اور اساتذہ کو فراہم کرتے ہیں۔ ان سوالناموں اور انٹرویوز کی جانچ پڑتال کے بعد ہی حتمی تشخیص کی جاتی ہے۔ اس عمل میں ماہرین اطفال اور ماہرین نفسیات کی آراء بھی شامل کی جاتی ہیں۔

انسانی سماجی ارتقاء اور عدم توجہی

ماہرین کے خیال میں انسان جب تک شکار کھیل کر غذا جمع کرتا رہا، عدم توجہی اس کی بقا کے لئے لازم و ملزوم تھے۔ پہلے زرعی انقلاب کے بعد جیسے جیسے انسان بستیاں بساتا گیا مستقل مزاجی اور ٹھہراؤ کو ایک اہم انسانی قدر اور خوبی سمجھا جانے لگا۔ صالح اولاد اور فرمانبردار بچوں کے دقیانوسی تصورات اسی عہد کی باقیات ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد مشینیں انسانی محنت کی جگہ لیتی گئیں انہیں چلانے اور مزید جدت لانے والے ازھان کی پرورش و پرداخت کی غرض سے جدید اور لازمی تعلیم کے ادارے بننے لگے۔

ترقی یافتہ ریاستوں نے ان کی سرپرستی کی۔ بچوں سے محنت مزدوری کروانا ایک ظالمانہ عمل قرار پایا۔ بچے اسکول جانے لگے جہاں ایک عمر کے بچوں سے ایک ہی قسم کے طرز عمل کی توقع کی جانے لگی فطری تجسس اور کھلنڈرے پن کے برخلاف انہیں مسلسل یکساں موضوعات اور مضامین پر توجہ مرکوز کرانے پر زور دیا جانے لگا۔ جو اکثریت کرتی ہو اسے نارمل قرار دیا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے لازمی تعلیم عام ہو رہی ہے۔ اے ڈی ایچ ڈی کے کیسز میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

فرمانبردار، نیک اور صالح بچے کی تلاش

ایک روایتی، سخت گیر اور بے لچک معاشرے کی حیثیت سے پاکستان میں اے ڈی ایچ ڈی کے متعلق شعور کا بہت فقدان ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر طبی ماہرین کی طرف سے بھی بچوں کی تربیت کے بارے میں قرون وسطی سے ماخوذ دقیانوسی اور گھسے پٹے تصورات کی تکرار ملتی ہے۔ نوجوان جوڑوں کو مسلسل صالح اور نیک اولاد کے لئے دعائیں اور وظائف تجویز کیے جاتے ہیں۔ مثالی بچے کیسے ہوتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں اس کے لئے انبیائے کرام آور ابتدائے اسلام کی مقدس ترین شخصیات کے علاوہ کوئی ماڈل پیش نہیں کیا جاتا۔

نتیجتاً والدین، اساتذہ اور پورا معاشرہ ہر بچے میں وہی مثالی خوبیاں تلاش کرتا ہے جو فی زمانہ ممکن نہیں۔ کسی بھی غیر مثالی بچے کا وجود اسکولوں، خاندانوں اور خود والدین کے لئے شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔ گھروں، تعلیمی اداروں، دینی مدارس اور چائلڈ لیبر کے مقامات سے آنے والی آئے دن ہولناک خبروں اور پرتشدد وڈیوز کے پیچھے ایک عامل اسی روایتی پرورش اور مثالی بچے کے تصورات ہیں۔

عدم توجہی کا علاج

جیسے ہی یہ تشخیص حتمی ہو والدین کو سہارا دینے اور ان کی تربیت کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ وہ بچے کی اضافی ضروریات پوری کرنے اور نظم و ضبط میں لانے کے لئے اعصاب اور غصے پر قابو رکھیں۔

رویوں کا علاج بیہوریل تھراپی
بات چیت سے علاج سائیکو تھراپی
کیفین، چاکلیٹ، غذائی رنگوں اور سافٹ مشروبات سے گریز بچے پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
اومیگا 3 اور 6 سے عدم توجہی میں کچھ کمی ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
سماجی مہارت کی تربیت۔
اسکول میں بچے پر اضافی توجہ۔
پڑھنے، لکھنے، ریاضی اور تنظیم میں مدد، بولنے میں مدد
جسمانی تربیت، ورزش۔

ادویات

ذہن بیدار کرنے والی ادویات اسٹیمولینٹس
غیر انگیخت کن ادویات نان اسٹیمولینٹس

گمراہ کن غلط فہمیاں

یہ کوئی حقیقی مرض ہی نہیں۔ امریکی ماہر اعصاب اطفال رچرڈ سال کی لکھی ہوئی متنازعہ کتاب اے ڈی ایچ ڈی ڈز ناٹ ایکزسٹ اس خیال کی ترجمان اہم کتاب ہے۔ ہم نے بھی اس کا مطالعہ کیا۔ دراصل مصنف چاہتے ہیں کہ بچوں میں بصارت اور سماعت کی کمزوری سمیت عدم توجہی کے تمام اسباب کو ایک ایک کر کے مسترد کیے بغیر یہ تشخیص نہ بنائی جائے۔

عدم توجہی میں دماغ میں کوئی معذوری نہیں ہوتی۔
یہ صرف سست الوجود بچوں کو راہ فرار دینے کا بہانہ ہے۔
اس مرض کے ذمہ دار والدین ہوتے ہیں جنہیں بچے پالنا اور انہیں تمیز سکھانی نہیں آتی۔
یہ صرف بچوں کا مرض ہے۔
عدم توجہی کے لئے دی جانے والی ادویات لینے سے بچے آگے جا کر نشہ کرنے لگتے ہیں۔
یہ بچے دیگر بچوں سے ذہانت میں کم ہوتے ہیں۔

ورلڈ فیڈریشن آف اے ڈی ایچ ڈی کے مطابق ان غلط فہمیوں کی وجہ سے مریض بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ معاشرتی ہمدردی کے بجائے امتیازی سلوک کو رواج ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments