اسد علی طور: چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو


اسد بھائی پاکستان کے نوجوان صحافی ہیں۔ اطلاعات کے نقار خانے سے ”خبر“ ڈھونڈ کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور بصیرت اور دیانت سے پہنچاتے ہیں۔ ان پر حملہ ہوا، وہ زخمی ہوئے۔ ان پر حملے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد مجرموں کو پکڑ انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں گے۔ مگر ان پر ہوئے حملے کی خبر نے آن کی برادری کے اندر ایک عجیب سی بحث کو جنم دیا اور کچھ مزید چہروں سے نقاب ہٹا دیے۔

پاکستان میں ہمیشہ سے ایک وسیع طبقہ ایسا رہا ہے جو ریاستی سوچ اور بیانیے سے اختلاف رکھنے والے کسی بھی فرد کو، چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، اسے غدار سمجھتا ہے اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کی خواہش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسد بھائی پر حملے نے ان مخالفین (جو شاید ان کے طرز صحافت سے خائف ہیں یا ان کی صحافتی ترقی سے شدید جیلس ہیں یا ریاستی اداروں کے گھڑے بیانیے کے رضاکار مشتہرین ہیں) کو دلی خوشی پہنچائی۔

ٹویٹر پر ”فحش صحافت کو لگام دو“ کا ٹرینڈ چلایا گیا۔ ایک ”صحافی“ نے لکھا کہ جو بیان اسد طور دے رہا ہے وہ ڈرامہ ہے۔ کسی نے لکھا کہ اسد کو ایک خاتون اینکر کے بھائیوں نے مارا پیٹا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ سستی شہرت حاصل کرنے کا گھٹیا طریقہ ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ اگر وہ والے افراد آتے جن کا اسد طور نے کہہ رہا ہے تو وہ زندہ نہ چھوڑتے بلکہ مار کے جاتے۔ اور اسی طرح کی دیگر باتیں اور تبصرے سوشل میڈیا پر زیربحث رہے۔

اسد طور کی صحافت کو اچھا سمجھنے والوں نے بھی ان کے حق میں لکھا اور خوب لکھا۔ محترم جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی بیگم سمیت مضروب اسد طور کی عیادت کی اور اسلام آباد کے صحافیوں اور سول سوسائٹی نے ایک بھرپور اور جاندار احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مگر اس سارے واقعے میں کسی نے شاید اس پہلو کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا کہ پاکستان میں معروف بیانیے اور خیالات سے اختلاف رکھنے والے صحافیوں کو ہی آخر نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اگر صحافیوں کی خبر سے خطرہ ہے تو پھر ہر صحافی کو وہ خطرہ محسوس ہونا چاہیے کیونکہ ہر ”صحافی“ اپنی خبر کو معتبر اور سچی خبر سمجھتا ہے۔ مگر نشانہ صرف اشرافیائی معروف بیانیے پر تنقید کرنے والے ہی بن رہے ہیں۔ یقیناً اس کی کئی وجوہات ہوں گی مگر راقم کی نظر میں اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کا شعبہ صحافت بھی پاکستان کے دیگر شعبوں اور اداروں کی طرح نرالا اور گند آلودہ ہے۔ صحافت پر قدغن، خبر کی کانٹ چھانٹ، صحافیوں کے لئے تنگ مالی حالات، سیٹھ مافیا اور ریاست کے اداروں کا کنٹرولنگ رویہ یہ تمام اس شعبے کے وہ پرانے داؤ پیچ ہیں جن کا نشانہ صرف اس صحافی کو بنایا جاتا تھا یا بنایا جاتا ہے جو ”دیانت اور بصیرت سے خبر“ دیتا ہے۔ مگر گزشتہ کچھ سالوں سے صحافیوں کے بھیس میں اس شعبے میں بھیڑیے اور خبر کو کھا جانے والے جانور داخل کیے گئے ہیں۔

یہ صحافی نما مکار لومڑ ہیں جو فراہم کردہ اطلاع کو اپنی صحافتی ریڑھی پر رکھ کر ہر شام چیخ و پکار کر کے سودا بیچتے ہیں اور اگلے دن اگلے اطلاعاتی مال کا انتظار کرتے ہیں۔ مالی طور پر بہت خوشحال ان صحافتی لومڑوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان کی اسی اشرافیہ سے ہے جن کا لوٹ مار میں بنیادی کردار ہے۔ جہازوں میں گھومنے اور ولاز و فارم ہاؤسز میں رہنے والے ان چپڑقناتیوں کو پتہ ہی نہیں کہ کرائے کے فلیٹوں میں رہنے اور پرانے ماڈل کی گاڑیوں پر سفر کرنے والے اصلی صحافیوں نے اپنے شعبے کے حقیقی مقام کی واپسی اور صحافت کی تکریم کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی ہوئی ہے۔

دوسری وجہ صحافیوں کے لئے خبر کا حصول اور اسے نشر کروانے، کرنے یا کرانے کی دوڑ دھوپ کرنا ہے۔ پاکستان کے کسی چھوٹے سے گاؤں کے کسی ”طاقتور“ سے لے کر ریاست کے طاقتور اداروں تک کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ”خبر“ سامنے آئے۔ اور خبر کو روکنے کے لئے صحافی پر ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان حربوں کو کبھی حب الوطنی، کبھی غداری، کبھی یہود و ہنود کی سازش، کبھی مغربی ایجنڈا اور کبھی ففتھ جنریشن وار فئیر کا نام دیا جاتا ہے۔

خدا جانے مثبت خبر نامی بلا کیا ہے مگر اب خبر کو روکنے کے لئے یہ بھی ایک حربہ ہے۔ مثبت خبر کیا ہے، اس کی تعریف کون وضع کرتا ہے اور صحافت کی بنیادی تعلیم میں ایسے کسی آلائش کو ذکر ہے بھی کہ نہیں فی الحال ان موضوعات پر کام نہیں کیا گیا۔ مگر خبر کی حرمت کے لئے صحافی ہر الزام کو برداشت بھی کرتا رہا ہے اور اپنے آپ پر ہونے والے ظلم کا تنہا مقابلہ بھی کرتا رہا ہے۔

راقم الحروف انٹرنیٹ پر دستیاب مواد و معلومات کی مفصل سرچ کرتا رہا ہے یہ سوال جاننے کے لئے کہ انسانیت کی معلوم اور نامعلوم تاریخ میں پہلا مقتول صحافی کون تھا اور کس وجہ سے اسے قتل کیا گیا تھا۔ اس سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب تو نہیں ملا مگر جو جواب سامنے آئے ان سے معلوم ہوا کہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں صحافت کی اور بالخصوص دیانت و بصیرت کی صحافت کی ایک لہو رنگ تاریخ ہے۔ ہر ملک کے مقتول صحافیوں کی فہرستیں ہیں اور ان کے سچ پر کھڑے ہو جانے اور خبر کی صداقت کو اپنے لہو سے رقم کرنے کی ہوشربا داستانیں ہیں۔

90 ء سے لے کر 2020 ء تک صرف تیس سال کے عرصے میں 2658 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ پاکستان میں ان 30 سالوں میں 138 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور ان سب کے قتل کی بنیادی وجہ ان کا صحافی ہونا ہی تھا۔ ایسا کوئی ڈیٹا میسر نہیں جو بتا سکتا ہو کہ ان 138 مقتولین کے قاتل پکڑے گئے یا انہیں سزائیں وغیرہ بھی ہوئیں یا نہیں۔ ایسا بھی کوئی ڈیٹا میسر نہیں کہ جو بتا سکے کہ کتنے ہزار صحافیوں کو زد و کوب کیا گیا اور کتنوں کو مختلف اقسام کے نقصان پہنچائے گئے۔ مگر سلام ہے قلم کی حرمت کے امین ان لوگوں پر جو جان تک تو دے رہے ہیں مگر عوام تک خبر پہنچانے کے عزم عالیشان میں ان کے پاؤں نہیں ڈگمگا رہے۔ شاید انہی کے لئے شاعر نے لکھا تھا:

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

اسد طور، ابصار عالم، مطیع اللہ جان، احمد نورانی، حامد میر اور ان کے قبیلے کے دیگر ہزاروں صافی آج بھی اپنے زخمی جسموں اور سوختہ روحوں کے ساتھ خبر کی حرمت کے لئے اپنی جانیں داؤ پر لگا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ ان خودساختہ صحافیوں میں سے نہیں جو اپنے قلم کی قیمت کا ٹیگ ہر خریدار کے سامنے رکھتے ہیں اور معقول قیمت لے کر اپنا قلم اور ضمیر فروخت کر دیتے ہیں۔ ایسے کئی درجن صحافیوں کو ہم روز ٹی وی سکرینوں پر دیکھتے اور سنتے ہیں۔

ہر روز ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ قوم کو آج ایک بہت بڑی خبر دے رہے ہیں اور وہ بڑی خبر پاکستان کے معزز سیاسی اداروں پر ایک بھونک یا ایک جگت یا ایک ٹانٹ ہوتی ہے۔ ہمارے صحافی خبر کی حرمت کے پاسبان اس قبیلے کے افراد ہیں جنہیں اس مقدس اور تاریخ انسانی میں پیوست پیشے کی تاریخ، حال اور مستقبل صرف معلوم نہیں بلکہ وہ ان کے لئے مشعل راہ ہے۔ صحافت کو دعویٰ کرنے والا کوئی بھی شخص اگر صرف لفظ صحافی کا مفہوم ہی سمجھ لے تو اس کے لئے اپنی راہ متعین کرنے کے لئے کافی ہے۔

صحافی عربی کے لفظ ”صحف“ سے ماخوذ ہے اور یہ لفظ قرآن میں آٹھ مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ صحف، صحیفہ، صفحہ، اور مصحف ایک ہی قبیلے کے الفاظ ہیں۔ مصحف کا لفظ قرآن کے لئے استعمال کیا گیا اور لفظ مصحف کی لفظی تعریف یہ ہے کہ اس چیز کو نجس نہیں کیا جا سکتا، اگر نجس ہو جائے تو اسے پاک کرنا واجب ہے۔ صحافت غالباً انسانی تاریخ کے قدیم ترین اور مقدس پیشوں میں سے ایک ہے۔ یہ پیشہ صالحین اور صدیقین کی میراث ہے۔ جدید دنیا کا مفکر لیزلی سٹفین (Leslie Stephens) کہتا ہے ”صحافت ان معاملات کو ضبط تحریر میں لا کر استفادہ کرنے کا نام ہے جن کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے۔“ ٹائم میگزین کے ایرک ہوجنس (Eric Hodgins) کہتے ہیں ”صحافت معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دیانت، بصیرت اور رسائی سے ایسے انداز میں پہنچانے کا نام ہے جس میں سچ کی بالادستی ہو اور واقعات کی اصلاح فوری نہ ہو، تو آرام سے سہی لیکن اطلاع واضح ہونی چاہیے۔“

سچ کی بالا دستی اور جاننے کے حق کے لئے کھڑے ہو جانے والے اس قلیل قبیلے کے ہوتے ہوئے ہمیں اطمینان ہے کہ واضح اطلاع ملتی رہے گی۔ اور صحافی خبریں دیتے رہیں گے اور پاکستان کے عوام کو جان بوجھ کر اپنے سماجی، معاشی، سیاسی، اور ثقافتی حقوق سے محروم رکھنے والوں کے چہرے سے دوہرے نقاب اتارتے رہیں گے۔ آج جو ”صحافی“ اسد طور پر ہوئے حملے کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے سستی شہرت کے حصول کا طریقہ لکھ رہے ہیں انہیں خبر دی جاتی ہے کہ اگر ان پر بھی ایسا کوئی حملہ ہوا تو اسد طور اور اس کا صحافتی قبیلہ ہی ان کے دفاع کے لئے کھڑے ہوں گے۔ کیونکہ ”چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو“ ۔ آئیے خبر کی حرمت اور لوگوں کے جاننے کے حق کے لئے مضروب اسد علی طور کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments