عمران حکومت کی مضبوطی سے اپوزیشن پریشان


تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے خوش قسمت حکومت ثابت ہوئی ہے۔ بری گورنس، ناقص خارجہ پالیسی، ناکام معاشی پالیسی اور اوپر سے کمر توڑ مہنگائی کے باوجود حکومت مضبوطی کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ چینی، گندم، ادویات اور دیگر بحرانوں کے باوجود بھی حکومت کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد بھی حکومت کو گرانے یا کمزور کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اب تو راوی حکومت کے لئے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نون لیگ اور پی پی پی آپس میں ہی دست و گریبان ہو چکی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ مریم نواز پیپلز پارٹی پر بھروسا کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ جب کہ بلاول بھٹو شہباز شریف سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ بقول بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کا نواز شریف اور مریم نواز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ نون لیگ کے صدر شہباز شریف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

بدقسمتی سے مگر میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی مرضی اور منشاء کے بغیر فیصلہ کن قدم اٹھانے سے قاصر ہیں۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ نون لیگ کا ووٹ بنک نواز شریف کا مرہون منت ہے اور وہ اکیلے نہ پرواز کر سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے بڑے بھائی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے۔ ماضی میں بارہا ان کو وزیراعظم کے عہدے کی پیش کش کی جاتی رہی۔ مگر انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ مقتدر حلقے بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ نواز شریف سے بے وفائی کبھی نہیں کریں گے۔

جب میں یہ مضمون تحریر کر رہا تھا۔ اسی دوران سیاسی منظرنامے میں ایک اہم ترین ڈویلپمنٹ ہوئی۔ نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی تجویز پیش کر دی ہے۔ میاں شہباز شریف کے انٹرویو نے ملکی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ انہوں نے کھل کر نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو رد کرتے ہوئے مفاہمت پر مبنی ایک فارمولہ پیش کیا ہے۔ شہباز شریف کے مجوزہ پلان میں مریم نواز کا رول کہیں نظر نہیں آتا۔

نیا سوشل آرڈر اور اس کے بعد اداروں کا آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینا اور مشاورت کے ساتھ ملک کو چلانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ خواب ہیں جن کو حقیقت کا روپ دینا جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔ اس خوش نما روڈ میپ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ میاں نواز شریف ہیں۔ جو بغیر کسی وجہ کے تین بار ایوان اقتدار سے بے دخل کیے گئے۔ ان کو پانامہ کیس میں نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے پلان کو کیسے شرف قبولیت بخش سکتے ہیں جس میں ان کا اور ان کی صاحبزادی کا کوئی رول ہی نہ ہو یا وہ مائنس ہو جائیں۔ میاں شہباز شریف نے پہلی بار کھل کر اپنی مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنی اور اپنے صاحبزادے کی قربانیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اور مریم نواز کو پارلیمانی سیاست کے لئے ناموزوں قرار دیتے ہوئے مزید سیکھنے کا مشورہ دے دیا ہے۔

میاں شہباز شریف کے مفاہمت پر مبنی بیانیے کو نون لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ کی اکثریت کا اعتماد اس لئے بھی حاصل ہے۔ کیوں کہ ایک طرف اقتدار کی سرسراہٹ اور دوسری طرف جیلیں اور مزاحمت کی سیاست ہے۔ کون کافر اقتدار کی چکا چوند کو چھوڑ کر جیل کی سلاخوں کو ترجیح دے گا۔ صرف جاوید ہاشمی اور جاوید لطیف جیسے سر پھرے ہی ایسا کرنے کی جرآت کر سکتے ہیں۔ چلیں سوشل آرڈر تیار بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن اس پر عملدرآمد کس طرح ہو گا اور کون کرائے گا۔

کیوں کہ پاکستان کی تاریخ عمرانی معاہدوں اور چارٹروں کی کامیابی کے حوالے سے کچھ اچھی نہیں ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی اور پی ڈی ایم کے منشور کی خلاف ورزی ماضی کا حصہ ہے۔ پی ڈی ایم کے کراچی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے زرداری صاحب نے فرمایا تھا کہ ہمیں مت بتاؤ ہم نے کیا کرنا ہے۔ ہم سے ہی کچھ سیکھ لو۔ اگر سیاستدان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ملک کو آگے لے کر چلنے میں سنجیدہ ہیں۔ تو کسی سوشل آرڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کارخیر کے لئے پاکستان کا آئین موجود ہے۔ جس میں صراحت کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے۔ ارادے جن کے پختہ ہوں۔ وہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کر کے بھی ملک اور عوام کی خدمت کر سکتے ہیں۔

میاں شہباز شریف کے انٹرویو کے بعد نواز لیگ ایک دوراہے پر کھڑی ہو چکی ہے۔ اور بال نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔ ان کا فیصلہ کیا ہو گا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر شہباز شریف کے تیور بتا رہے ہیں کہ اب کی بار وہ اپنے مقصد کو حاصل کیے بنا پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وزیراعظم پاکستان کی شیروانی زیب تن کرنے کی خواہش کو عملہ جامہ پہنانے کا وقت آ پہنچا ہے۔

دوسری طرف جہانگیر ترین گروپ ہو یا چوہدری نثار وزیراعظم کسی سے بھی خوفزدہ دکھائی نہیں دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ دوسرے آپشن کے راستے میں نواز شریف مزاحم ہیں۔ ان کا سخت گیر اور غیر لچکدار رویہ بھی عمران خان کے لئے نعمت مرکبہ سے کم نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق عام انتخابات جب بھی ہوں گے۔ نواز لیگ کو فتح یاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ لہذا سیاست کی شطرنج کے کھلاڑی اس وقت کوئی نئی چال چلنے میں بڑے محتاط دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو علم ہے کہ ایک چھوٹی سی غلطی کھیل کا پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ اور لینے کے دینے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ باوجود اس کے پنجاب کی سطح پر کپتان کو کچھ مشکل کا سامنا ضرور درپیش ہے۔ مگر وہ اس لئے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ”مہربان“ بوقت ضرورت ان کو مایوس نہیں کریں گے۔

پی ڈی ایم کی تحریک جب پورے عروج پر تھی۔ اس وقت وزیراعظم قدرے پریشان ضرور تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان کا اعتماد بحال ہوتا گیا۔ اب وہ بڑے پراعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت اس کی وجہ اپوزیشن کا تتر بتر ہونا اور دیگر عوامل ہیں۔ بنی گالہ میں مقیم روحانی شخصیت کی عبادتوں اور ریاضتوں کا بھی کپتان کو بحرانوں سے بچانے میں اہم کردار ہے۔

اگر خان صاحب کی حکومت اس سال کا وفاقی بجٹ پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی تو اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کوئی دشواری ہیش نہیں آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments