تین ہفتے (مکمل کالم)



دروازے کے باہر ایک مرتبہ پھر کھٹکا ہوا۔ ایک گھنٹے میں یہ دوسری آواز تھی جو اُس نے سنی۔ پہلی مرتبہ جب اسے یہ آواز سنائی دی تھی تو اُس نے واہمہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔ مگر اِس مرتبہ اسے یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے جو پچھلے تین ہفتوں سے اُس کے پیچھے ہے۔
تین ہفتے پہلے اُس کی زندگی بالکل ایک عام انسان کی زندگی تھی۔ لاکھوں کروڑوں انسانوںکی طرح وہ بھی ہر روز صبح سویرے کام پر جاتا اور شام ڈھلے گھر لوٹتا۔ اِس شہر میں رہتے ہوئے اسے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھااور نہ ہی اُس کا ارادہ یہاں طویل مدت کے لیے قیام کرنے کا تھا، اِس لیے اُس نے یہاںکوئی دوست بھی نہیںبنایا تھا۔ دفتر میں ایک دو لوگوں سے سلام دعا تھی یا پھر گھر کے پاس کبھی کبھار کوئی ہمسایہ راہ چلتے اُس کا حال احوال پوچھ لیتا تھا۔ بیوی بچے بھی یہاں نہیں تھے لہذاکسی سے میل ملاقات بڑھنے کا امکان نہیں تھا۔ لیکن پھر اچانک اُس کی زندگی تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ پہلے پہل تو اسے اِس تبدیلی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ مگرایک روز جب وہ دفتر سے گھر واپس آرہا تھا تو اسے لگا جیسے کوئی شخص اُس کا پیچھا کر رہا ہے،اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھامگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔ اگلے روز بھی یہی ہوا۔ گھر کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے اسے لگا جیسے پیچھے کوئی ہے، اب کی باراُس نے فوراً مڑ کر دیکھا۔ یقینا کوئی تھا،اُس نے دل میں سوچا۔ مگر اب کہاں گیا؟ اُس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، یہ وہی گلی تھی جہاں سے وہ روز گذرتا تھا، دو چار لوگ اب بھی موجود تھے مگر اُن میں سے کسی پر بھی تعاقب کرنے کاشک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اُس کے بعد ہر تیسرے چوتھے روز یہی ہونے لگا۔ کسی نہ کسی راستے سے گذرتے ہوئے اسے لگتا کہ کوئی شخص اُس کے پیچھے ہے، وہ مڑ کر دیکھتا،مگر اسے کوئی مشکوک بندہ نظر نہ آتا۔ تاہم چند دن میںوہ باقاعدہ خوفزدہ ہو گیا۔ اُس نے دفتر سے رخصت لی اور خود کو گھر میں قید کر لیا۔ یہ تین ہفتے پہلے کی بات ہے۔
آج جب دروازے پر کھٹکا ہوا تو اُس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ اب وہ شخص میرے گھر تک آ پہنچا ہے، اُس نے سوچا۔ تین ہفتوں تک خود کو گھر میں بند کرنے کے بعد اُس کا خیال تھا کہ جوشخص بھی اُس کے پیچھے آتا تھا اتنے دنوں میں یقینا مایوس ہو کر جا چکا ہوگا۔ مگر شاید یہ اُس کی خوش فہمی تھی۔ اُس نے کھڑکی کا پَٹ کھول کر دیکھا،اسے لگا جیسے تیزی سے ایک سایہ سا لہرا کر گذر گیا ہو۔ یقینا وہاں کوئی تھا جو کھڑکی کی آواز سُن کر پرے ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ یونہی دم سادھے کھڑا رہا، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھی کہ وہ کیا کرے، یہ کون شخص تھا جو اُس کے پیچھے تھا، صاف چھپتا تھا اور نہ سامنے آتا تھا!کیا یہ اُس کا کوئی دشمن تھا، مگر دشمنی کیسی، یہاں تو اُس کی کسی سے دوستی تک نہیں تھی۔ ابھی و ہ اِن خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی، ایک لمحے کو اسے یوں لگا جیسے اُس کے بدن کا سارا خون جم گیا ہو۔ ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے جو تین ہفتوں سے میرے درپے ہے، اُس نے سوچا۔ خوف سے اُس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ دروازے کے سوراخ سے اُس نے باہر جھانک کر دیکھا۔ ڈاکیا اُس کے نام کی چٹھی لیے کھڑا تھا۔ اُس کی جان میں جان آئی۔ اپنے حواس مجتمع کرکے اُس نے دروازہ کھولا اور ڈاکیے سے چٹھی وصول کرکے فوراً کواڑ بند کر دیے۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اُس نے چٹھی کھولی، شاید یہ اسی نا معلوم شخص کی طرف سے کوئی دھمکی ہو، اُس نے دل میں سوچا۔ مگر یہ چٹھی اُس کے دفتر سے آئی تھی جس میں اسے فوری طور پر دفتر میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اُس نے چٹھی پرے رکھ دی اور سوچ میں ڈوب گیا۔ کہیں یہ مجھے گھر سے نکالنے کی کوشش تو نہیں، ایسا تو نہیں کہ اُس نا معلوم شخص نے خود ہی سے یہ جعلی چٹھی بنائی ہو تاکہ میں دوبارہ دفتر جانا شروع کروں۔ یہ سوچ کر اُس نے دوبارہ چٹھی پر نظر دوڑائی مگراسے چٹھی میں جعل سازی والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ اُس نے دروازے سے باہر جھانکا، ڈاکیا اب بھی وہیں کھڑا تھا اور کسی سے فون پر بات کر رہا تھا، اسے ڈاکیے کی باتوں کی سمجھ تو نہیں آئی مگر یوں لگا جیسے وہ کسی کو کوئی اطلاع دے رہا ہو۔ ڈاکیا ہر بات پر زور زور سے سر ہلارہا تھا اور مشکوک انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اب اسے یقین ہو گیا کہ ڈاکیا بھی اسی نا معلوم شخص کا ہرکارہ ہے جو تین ہفتوں سے اُس کے تعاقب میں ہے۔ ویسے بھی جب سے وہ اِس مکان میں آیا تھا ڈاکیے سے کبھی اُس کا سامنا ہی نہیں ہوا تھا۔ ہو نہ ہو ڈاکیے کو اسی پر اسرا ر اجنبی نے بھیجا ہے تاکہ میری سُن گُن لی جا سکے، اُس نے سوچا۔ ابھی وہ اسی شش و پنج میں ہی تھا کہ دروازہ کھول کر ڈاکیے سے باز پرس کرے، اچانک ایک زور دار آواز آئی اور اُس کے کمرے کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ وہ لرز کر رہ گیا۔
اگلے کئی لمحوں تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر اسے کچھ مدھم آوازیں سنائی دیں، آوازیں کچھ گڈ مد تھیں اِس لیے اسے سمجھ نہیں آئی کہ باہر کیا بات ہو رہی ہے، ویسے بھی خوف کے مارے اُس کی حالت اِس قدر غیر ہو چکی تھی کہ وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ اچانک ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اُس کے دماغ میں لپکا۔ وہ تیزی سے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف دوڑا۔ گھر میں ایک ہی سونے کا کمرہ تھا اور واحد الماری اسی کمرے میں تھی۔ اُن نے الماری کے پٹ کھولے اور کوئی چیز تلاش کرنے لگا۔ نیچے کہیں کاغذوں کا پلندہ تھا جو اُس نے سنبھال کر رکھا تھا۔ اُس نے وہ تمام کاغذ نکالے اور پلنگ پر بکھیر دیے۔ یہ اُس کی تحریریں تھیں جو مختلف اوقات میں لکھی تھیں۔ کوئی محبت کا نغمہ تھا، کوئی آزادی کا گیت تھا،کوئی غلامی کا نوحہ تھا اور کوئی ظلم کا افسانہ تھا۔ اُس نے اپنی تحریریں کبھی شائع نہیں کروائی تھیں، بس فارغ وقت میں لکھ چھوڑتا تھا۔ اگر یہ تحریریں اُس پراسرار اجنبی کے ہاتھ لگ گئیں تو کیا ہوگا، کہیں وہ اسی وجہ سے تو اُس کے تعاقب میں نہیں ؟ مگر یہ سوچ اسے فضول ہی لگی،بھلا کسی کو میری تحریروں سے کیا غرض ہو سکتی ہے! اِس کشمکش میں چند منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ ایک مرتبہ پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ اُس کا خون خشک ہو گیا۔ اُس نے جلدی جلدی اپنے کاغذ سمیٹے اور انہیں بستر کے نیچے چھپا دیا۔ اِس دوران اسے یوں لگا جیسے باہر کسی نے دروازے کو کھول کر اندر آنے کی کوشش کی
ہو۔ وہ کسی مُردے کی طرح قدم اٹھاتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف گیا،اِس مرتبہ اُس نے سوراخ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی،اور کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھول دیا۔ جونہی دروازہ کھلا، ایک بچہ تیزی سے بھاگتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا اور پھر اسی تیزی کے ساتھ واپسی پر ایک گیند ہاتھ میں لیے ”سوری انکل “ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ باہر گلی میں بچے اُس کے انتظار میں تھے، انہوں نے گیند دیکھی تو خوشی کا نعرہ لگایا اور کھیلناشروع کر دیا۔ سامنے والے گھر کا ادھیڑ عمر مکین بچوں کو کوسنے لگا کہ پچھلے ہفتے انہوں نے گیند مار کر اُس کے گھر کی کھڑکی توڑ دی تھی۔ بچے مگر اپنے کھیل میں مگن تھے۔ پھراُس نے دیکھا کہ وہی ڈاکیا جو کچھ دیر پہلے تک اسے چھٹی وصول کر وا کے گیا تھا اب سامنے والے گھر میں معمول کے مطابق ڈاک تقسیم کر رہا تھا۔ اُس نے ایک جھرجھری سی لی اورکچھ سوچنے لگا،چند لمحوں تک اُس کی یہی کیفیت رہی،اور پھر یکایک اسے لگا جیسے کوئی بوجھ اُس کے ذہن سے اتر گیا ہو۔ وہ جلدی سے اندر گیا اوربستر کے نیچے چھپائی ہوئی اپنی تحریرں نکالنے لگا۔ ایک کاغذ پر آزادی کا گیت لکھا تھا۔ وہ جھومتا ہوا گھر سے باہر آیا اور بلند آواز میں آزادی کا گیت گانے لگا۔ آس پاس کے لوگ حیرت سے اسے دیکھنے لگے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 494 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments