ترین رپورٹ بھی؟


جہانگیر ترین کے شوگر کے معاملات کی تحقیقات کرنے کے لیے سینیٹر علی ظفر پر مشتمل یک رکنی کمیٹی بنائی گئی، چاہیے تو یہ تھا کہ علی ظفر خود ہی اپنے تحقیقاتی کمیشن کا نتیجہ ظاہر کرتے لیکن اس سے پہلے ہی خبر لیک ہو گئی کہ انہوں نے اس معاملے میں جہانگیر ترین کو الزامات کے حوالے سے سرخرو کرد یا ہے۔ اس کا جہانگیر ترین کے نئے دست راست را جہ ریاض نے خوب فائدہ اٹھایا اور میڈیا پر اعلان کر دیا کہ علی ظفر کی جہانگیر ترین سے ملاقات ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنی فائنڈنگ سے آگاہ کر دیا ہے اور اسی قسم کی ملاقات ان کی وزیر اعظم عمران خان سے بھی ہوئی ہے۔

تاہم علی ظفر نے را جہ ریاض کے دعوے کی دو ٹوک تردید کی اور کہا کہ ان کی فریقین سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی لہٰذا ان سے رپورٹ شیئر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض اطلاعات کے مطابق سینیٹر علی ظفر اپنی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہانگیر ترین کے ساتھ سرکاری ایجنسیاں نا انصافی کر رہی ہیں، علی ظفر کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے خلاف الزامات ٹھوس نہیں اور انہیں اور ان کے بیٹے کو پرچے کاٹ کر مزید نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

علی ظفر رپورٹ کے مندرجات لیک ہونے کے بعد حکومت کے چھکے چھوٹ گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر جو کرپشن کا قلع قمع کرنے اور بالخصوص شریف فیملی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں، مبینہ کرپشن کا ایک پیسہ بھی برآمد نہیں کر سکے، انہوں نے جہانگیر ترین کو کلین چٹ دیے جانے کی تردید کر دی۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں مشیر داخلہ و احتساب نے کہا جہانگیر ترین سے ملاقات نہیں ہوئی، بیرسٹر علی ظفر بھی رپورٹ دینے کی پہلے ہی تردید کر چکے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت اداروں کی خود مختاری، قانون کی بالادستی اور بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے، مجرمانہ تحقیقات کا اختیار صرف تحقیقاتی ایجنسیز کو ہے، احتساب اور انصاف سے متعلق وزیراعظم کا بیانیہ غیرمتزلزل ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بھی کہا ترین کو کوئی کلین چٹ نہیں دی گئی، وہ بزعم خود اس معاملے میں ریفری بن گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والی کارروائی شفاف ہے۔ انہوں نے بطور ریفری یہی یک طرفہ فیصلہ کیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق ترین کو اگر شوگر انکوائری کمیشن الزامات سے بری کیا گیا تو حقائق کے منافی ہو گا، لہٰذا وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ اس صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ متذکرہ رپورٹ کی حیثیت متنازعہ بن رہی ہے۔

مبصرین کی رائے ہے کہ ماضی کے بعض کمیشن کی رپورٹس کی طرح اسے بھی جاری نہیں کیا جائے گا اور اسے بھی طاق نسیان میں رکھنے کی روایت برقرار رہے گی۔ اس کی ایک سب سے افسوسناک مثال حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہے جس کے داخل ہونے کے بڑے عرصے بعد بعض مندرجات میڈیا میں آئے لیکن سرکاری طور پر سقوط ڈھاکہ کے محرکات کے بارے میں رپورٹ کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا گیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ بھی لیت و لعل سے جاری کی گئی۔

”رپورٹ کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کی روشنی میں حتمی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں اس آپریشن کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کیا گیا، جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں حالانکہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔ عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد کر کے مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ ٹربیونل نے واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کی پہلی کانفرنس کی سی ڈی کا بغور جائزہ لیا اس میں بھی وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پولیس ہٹانے کے حوالے سے اپنی ہدایات کا ذکر نہیں کیا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پولیس کو ہٹانے کا حکم جاری ہی نہیں کیا گیا“ ۔ اس حوالے سے تاریخی طور پر حکومتوں کا رویہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کے مترادف رہا ہے۔ علی ظفر رپورٹ کا حشر بھی یہی نظر آتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تبدیلی کے پیامبر بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں جو پرانے پاکستان کی حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان چپقلش عروج پر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی ٹاپ لیڈر شپ بھی اپنے صدر میاں شہباز شریف کو مطعون کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

اس معاملے میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پیش پیش ہیں۔ ایک طرف شہباز شریف اپوزیشن کی دراڑیں پر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف محترمہ اپنی پارٹی کے اندر پیپلز پارٹی کے عقابی مخالفین کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تاہم پارٹی کے رہبر نواز شریف لندن میں ٹھنڈی ہواؤں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس جھگڑے کو ختم کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی نتیجتاً جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

مریم نواز، شاہد خاقان عباسی کے موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بطور سیکرٹری جنرل پی ڈی ایم نوٹس کا جواب ملنے تک پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اپوزیشن اتحاد سے باہر ہی رہیں گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جو چند ہفتے پہلے تک مریم نواز کے ساتھ شیرو شکر تھے، اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز اور نواز شریف کو نہیں ہم صرف جیالوں کے سامنے جوابدہ ہیں۔ مزید برآں شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ ہم مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کی بات مانیں گے یعنی بلاول نے شہباز شریف کی طرف سے پارلیمنٹری اپوزیشن کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں خود جانے سے گریز کیا لیکن یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمٰن کو شرکت کے لیے بھیجا۔

وہ اعلیٰ سطح کا اجلاس تھا اور اپنا وفد بھیج کر اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو پیغام دینا تھا کہ ہم حزب اختلاف کے حکومت مخالف ایجنڈے کو قبول کریں گے، تاہم وہ مسلم لیگ (ن) کے توہین آمیز رویے کو برداشت نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے اس دوغلے پن اور ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے رویے کی بنا پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو جتنا فائدہ اپوزیشن کی چپقلش سے پہنچ رہا ہے اس کا عشر عشیر نقصان بھی پی ڈی ایم نہیں پہنچا سکے گی۔ یعنی گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments